ایم اے کنول جعفری
اقوام متحدہ میں اراکین کی تعداد 193 ہونے کے باوجود یہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ75برسوں سے چلے آرہے تنازع کو حل کرانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔اسے لے کر دونوں کے بیچ آئے دن جھڑپیں اور لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ بین الاقومی تنظیم اقوام متحدہ کے آئین میں جنگ سے متعلق قوانین درج ہیں،لیکن طاقت کے نشے میں چور اسرائیل قانون اور انسانی حقوق کو نظر انداز کرکے من مرضی اور اپنے قانون کو ہی ترجیح دے رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہو جاتا ہے کہ اُس نے غزہ اور لبنان کے اُوپرداغے بموں میں سفید فاسفورس کا استعمال کرکے انسانیت کو ہی شرمسار نہیں کیا، انسانی حقوق کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کے پرخچے بھی اُڑائے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل کے 10اکتوبر کو لبنان اور 11اکتوبر کو غزہ پر کیے گئے حملوں کی شوٹ کی گئی ویڈیوز کی جانچ کرنے کے بعد سفید فاسفورس بموں کے استعمال ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اسرائیل ان الزامات کی تردید کررہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے 12اکتوبر2023کو بتایا تھا کہ غزہ اور لبنان کے مختلف حصوں میں سفید فاسفورس بموں کا استعمال کیا گیا۔ لبنان کی سرکاری ایجنسی این این اے کے مطابق یارین قصبے کے علاقے کوسفید فاسفورس سے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل 2008 اور 2012کی جنگ کے دوران بھی فلسطین پر سفید فاسفورس بموں کا استعمال کرچکا ہے۔
دراصل،سفید فاسفورس ایک کیمیائی مادہ ہے،جسے توپ خانوں، بموں، راکٹوں اور آرٹلری شیلوں پر پھیلایا جاتا ہے۔ یہ آکسیجن کے رابطے میں آنے پر تیزی سے جل اُٹھتا ہے۔ اس کے آکسیجن کے رابطے میں آنے پر کیمیائی ردعمل سے 815ڈگری سیلسیس کی حرارت پیدا ہوتی ہے، جس سے روشنی اور سفید رنگ کا گاڑھا دھواں پیدا ہوتا ہے۔ فوجی کارروائیوں میں استعمال والے سفید فاسفورس کے انسانوں کے رابطے میں آنے پر انہیں شدید اور طویل مدتی چوٹوں کاخطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ لہسن جیسی تیز بو خارج کرنے والے سفید فاسفورس کا استعمال فوج کے ذریعہ اسموک اسٹیم تیار کرکے اپنی سرگرمیاں اور زمینی کارروائیاں چھپانے میں کیا جاتا ہے۔غزہ جیسے گھنی آبادی والے علاقوں میں سفید فاسفورس کا دھماکہ گھروں میں آگ لگانے کے ساتھ وہاں رہائش پذیر افراد کے لیے ناقابل برداشت جلن کا باعث بنتا ہے۔ انسان کو ہونے والی یہ جلن اکثر پٹھوں اور ہڈیوں تک پہنچ کر انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔ اگر سفید فاسفورس کے ذروں کو بدن سے نہ نکالا جائے تو علاج کے بعد بھی آکسیجن کے رابطے میں آنے پر زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ انہیں ٹھیک ہونے میں وقت لگتا ہے اور انفیکشن کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ماہرین کے مطابق سفید فاسفورس سے جسم کے 10فیصد حصے کاجلنا بھی جان لیوا ہوسکتا ہے۔اس سے سانس لینے میں دقت ہوتی ہے اور بدن کے مختلف اعضاء کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ سفید فاسفورس کے زخموں کے بعد جو لوگ بچ جاتے ہیں،اُنہیںزندگی بھر مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زخموں کے نشانات انسانی نقل و حرکت اور نفسیاتی صورت حال پر بُرا اثر ڈالتے ہیں۔ اس سے جلنے والی آگ شہری انفرااسٹرکچر کو تباہ، فصلوں کو برباد اور مویشیوں کی جان کی دشمن ہوتی ہے۔ سفید فاسفورس کا استعمال بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگ والے علاقے میں تو کیا جا سکتا ہے،لیکن اقوام متحدہ کے روایتی ہتھیاروں کے کنونشن سی سی ڈبلیو کے پروٹوکول III کے تحت سفید فاسفورس پر مبنی ہتھیاروں کا عام شہریوں کے نزدیک یا آبادی والے علاقوں میں استعمال کرنے پر پابندی عائد ہے۔ اسرائیل نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے تھے۔ سفید فاسفورس کا استعمال بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے وسط مشرق اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹر لاما فقیح کا کہنا ہے کہ جب گھنی آبادی والے علاقوں میں سفید فاسفورس بم کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے سنگین جلن اور زندگی بھر کی تکلیف کا خطر ہ لاحق ہوتا ہے۔ 2013میں اسرائیل کی فوج نے کہا تھا کہ وہ جنگ کے میدان میں اسموک اسٹیم بنانے کے لیے سفید فاسفورس والی گولا باری کا استعمال بند کرنے جا رہی ہے۔ تب بھی حقوق انسانی کا تحفظ کرنے والی تنظیموںنے غزہ کی لڑائی کے دوران سفید فاسفورس کے استعمال کی مذمت کی تھی۔
دوسری عالمی جنگ میں جان و مال کے زبردست نقصان، زمیں دوز ہوئی عمارتوں اور عام رہائش گاہوں کی تباہی سے لرزیدہ50 ممالک کے نمائندوں نے آنے والی نسلوں کو جنگ کے نقصانات سے بچانے کے لیے فرانسسکو میں ایک کانفرنس کی۔ خود مختار ممالک کی نگرانی میں 25 اپریل 1945 سے26جون1945 تک چلی کانفرنس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غورکرنے کے ساتھ اقوام متحدہ کا منشور مرتب کرکے اُس پر دستخط کیے گئے۔ 24 اکتوبر 1945میں باقاعدہ وجود میں آنے والے یو این او کے آئین کی تمہید میں آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچانے، انسانوں کے بنیادی حقوق و اقدار کی پاسداری کرنے، مردوعورت اور چھوٹی و بڑی قوموں کے حقوق برابر ہونے، عہد ناموںو بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریاں نبھانے،زندگی کا معیار بلند کرنے اور آزادی کی فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھانے جیسی باتیں درج ہیں۔ اس بنیاد پر ہمسایوںکے ساتھ پرامن زندگی بسر کرنے، بین الاقوامی امن و تحفظ کے لیے طاقت متحد کرنے، اصولوں و روایتوں کی قبولیت کے ساتھ مشترکہ مفاد کے سوا کبھی طاقت کا استعمال نہیں کرنے اور اقوام عالم کی اقتصادی و اجتماعی ترقی کے لیے بین الاقوامی ذرائع اختیار کرنے کی توقع کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی شق نمبرایک کے تحت درج مقاصد میں مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا، قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات بڑھانا، بین الاقوامی اقتصادی،سماج، ثقافتی اور انسانی فلاح سے متعلق مسائل حل کرنے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنااورانسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے دلوں میں عزت پیدا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
اقوام متحدہ میں 15اراکین والے اس کے سب سے اہم عضو سلامتی کونسل میں فرانس، روس، چین، برطانیہ اور امریکہ کو ’’ویٹو پاور‘‘ حاصل ہے۔ کسی تحریک پر رائے شماری یا بحث روکنے کے لیے یہ ممالک اپنے مفاد میں اس کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ یہ ویٹو پاور ہی آئین کی رو سے انصاف کرنے میں سب سے بڑی رُکاوٹ ثابت ہوا ہے۔ ویٹو پاور کا اختیار رکھنے والے ان آقاؤں کے درمیان اختلاف بھی چھپا نہیں ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے پر یہ ممالک دہائیوں سے گفتگو کی ٹیبل پر پیٹھ پھیرکر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ یہودی مسلمانوںکو دباتے ہوئے فلسطین کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں۔ حقیقی وارثوں کو تھوڑی جگہ میں مقید کر رکھا ہے۔ یہ انصاف سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل آزاد مملکت ہے،مگر فلسطینی اس حق سے محروم ہیں۔ ملک کی بقااور آزادی کی خاطر لاکھوں مجاہدین جام شہادت پی کر ارض مقدس کو اپنے خون سے رنگتے آ رہے ہیں،لیکن صیہونی طاقتوں کے منہ لگ چکے مسلمانوں کے خون سے اُن کی پیاس نہیں بجھ رہی ہے۔ تادم تحریر غزہ پر بموں، ٹینکوں اور راکٹوں سے حملہ کر سیکڑوںنہتے مردوں، عورتوں اوربچوں کو ملبے کے ڈھیر میں دفن کیا جاچکاہے۔ غزہ پٹی میں 2,450 اورویسٹ بینک میں 54 لوگ شہید ہوئے۔10,000سے زیادہ زخمی ہیں۔ 1,300 اسرائیلیوں کی موت ہوئی۔ 3,000 سے زائد زخمی ہیں۔ پانی،بجلی، دودھ، ضروری چیزیں اور باہر سے آنے والی اشیائے راحت پر پابندی لگی ہے۔ ڈبلیو ایچ اوکے مطابق اسپتالوں میں آئی سی یو میں 35، ڈائیلیسس پر 60 اور نوزائیدہ بچوں سمیت تقریباً 2,000 مریضوں کی زندگی داؤ پر لگی ہے۔یہودی مملکت کے لیے سلامتی کونسل کا فارمولہ جھٹ ماننے والا اسرائیل اَب نہ اُن کی بات سن رہا ہے اور نہ سفید فاسفورس کا استعمال بند کر رہاہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]