ہندوستانی ریلوے دنیا کے سب سے بڑے ریلوے نیٹ ورکس میں سے ایک ہے، ہر روز لاکھوں لوگ نقل و حمل کیلئے اس پر انحصار کرتے ہیں۔یومیہ مسافر سے لے کر دوردراز تک کے سفر کا بھی عام انحصار ریلوے پر ہی ہے۔ریل گویا ہندوستان کے لوگوں کیلئے لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ ریل کے سفر کو محفوظ بنانے کیلئے حکومت نے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔ریلوے حادثات کی روک تھام کیلئے تکنیکی ترقی پر بھی ملک میں تحقیق جاری ہے۔ دو ٹرینوں کے درمیان ٹکراؤ کو روکنے کیلئے اینٹی کلوزر ڈیوائس جیسی ٹیکنالوجی تیار کی گئی ہے۔ تاہم تمام ٹرینوں میں اس کے استعمال کو آگے نہیں بڑھایا جا سکا۔ کہنے کوتو اس کے علاوہ بھی کئی طرح کی جدیدٹیکنالوجی اور تصادم گریز آلات ٹرینوں میں نصب کیے گئے ہیں لیکن وقت ضرورت یہ آلات کام ہی نہیں کرپاتے ہیں۔ گزشتہ جون کے مہینہ میںاڈیشہ میں300کے قریب افراد ایسے ہی آلات کی ناقص کارکردگی کی بھینٹ چڑھ گئے اور تقریباً1200افراد سنگین طور پر زخمی ہوگئے۔اس ہولناک حادثہ کے فوراً بعد حکومت اور وزارت ریلوے نے طرح طرح کے مشورے کیے اورا قدامات اٹھانے کے وعدے وعیدبھی ہوئے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ ہولناک حادثہ قصۂ ماضی بن گیا۔مگر کل بہار کے بکسر میں ہوئے ریل حادثہ نے ایک بار پھر اس زخم کو ہرا کردیا۔ یہ حادثہ بھی ٹرین کے پٹریوں سے اتر جانے کے نتیجہ میں ہوا۔بتایاجاتا ہے کہ آنند وہار ٹرمنل سے کامکھیا جانے والی ٹرین نمبر 12506 نارتھ ایسٹ ایکسپریس کے 21ڈبے بہار کے بکسر کے قریب پٹری سے اتر گئے جن کی وجہ سے نصف درجن افراد ہلاک اور سیکڑوں افراد زخمی ہوگئے۔
یہ حادثہ انسانی غلطی کی وجہ سے پیش آیا یا کسی فنی خرابی کی وجہ سے ہوا یہ تو تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن عینی شاہدین کی جانب سے جس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے وہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ ریلوے ٹریفک کو محفوظ بنانے کے ذمہ دار لوگ اپنے فرائض کی انجام دہی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ملک بھرمیں ٹرینوں کے پٹری سے اترنے کے اعداد و شمار پر نظرڈالیں تو اطمینان ضرور ہوتا ہے کہ90کی دہائی کے بعد سے ان کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن ان کی ہولناکی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو(این سی بی ) کے مطابق ریل حادثوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اوسطاً 23 ہزار سالانہ ہے۔ 2021میں کل17993ریل حادثے ہوئے تھے جن میں16431لوگوں کی موت ہوئی۔ ان میں ریل کی پٹریاں پار کرنے اور ان مینڈ لیول کراسنگ کی وجہ سے ہونے والی اموات بھی شامل ہیں۔
ایک طرف یہ اعدادوشمار ہیں تو دوسری جانب حکومت کے بلٹ ٹرین اور ہائی اسپیڈ ٹرین چلانے کے دعوے اور منصوبے ہیں۔ لیکن ضرورت ہائی اسپیڈ اور بلٹ ٹرین سے کہیں زیادہ محفوظ سفر کی ہے، جس کی جانب وہ توجہ نہیںدی جارہی ہے جس کے وہ متقاضی ہیں۔ آج ہر سال اعلان ہونے والی نئی ٹرینوں کی وجہ سے ریل کی پٹریوں پر جہاں دبائو بڑھ گیا ہے، وہیں ریلوے لائنوں کی دیکھ بھال کے معیار میں کمی آئی ہے۔ ریلوے اپنی ساخت کے نقائص کا بھی بوجھ اٹھائے ہوئے اس کے بنیادی ڈھانچہ جیسے ٹریک، پل، اوور ہیڈ تاریں اور رولنگ اسٹاک وغیرہ اکثر خراب ہوتے رہتے ہیں کیوں کہ یہ تمام انفرااسٹرکچر 19ویں اور 20ویں صدی میں بنائے گئے اور بڑھتی ہوئی طلب اور جدیدمعیارات کو پوراکرنے کیلئے انہیں اب تک اپ گریڈ نہیں کیاجاسکاہے۔ اسی طرح غلط سگنلنگ، ناقص مواصلات، ضرورت سے زیادہ رفتار یا نقائص یا خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے سفر کا جاری رکھنا بھی حادثات کی اہم وجوہات ہیں۔ریلوے کے ملازمین میںجدیدتقاضوں کے مطابق مناسب تربیت کا بھی کوئی معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ٹرینوں اور پٹریوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ریل کارکن یہ سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں کہ انہیں کن حالات میں کیا کرناچاہیے۔
ضرورت ہے کہ نئی اور تیز رفتار ٹرینوں سے پہلے ریل کی پٹریوں اور سفر کے دوران تحفظ کیلئے ریلوے کے موجودہ انفرااسٹرکچر کو محفوظ اور زیادہ قابل استعمال بنایا جائے۔
[email protected]
رفتار سے پہلے حفاظت ضروری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS