سید خالد حسین (سنگاپور)
اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہے، جس کی بنیاد علم پر ہے۔ اگر علم نہ ہو تو انسان خدا کی وحدانیت کو نہیں پہچان سکتا، اس کا اللہ پر ایمان اور یقین نہیں ہو سکتا اور وہ اللہ کے نازل کردہ دین و شریعت پر عمل کرکے آخرت میں نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید میں ایسی کئی آیات ہیں ،جو انسان کو عقل سے کام لینے، غور و فکر کرنے اور معلومات حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہیں، کیونکہ انسانی زندگی کا مقصد اس حقیقت کو پہچاننا ہے ،جو اللہ کی وحدانیت کو مانتے ہوئے صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرنے کے سوا کچھ نہ کرے۔
علم فقط دنیاوی علوم کی ڈگریوں اور سندوں کے حصول کا نام نہیں ہے بلکہ اصل علم وہ ہے جو انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ پیدا کرے۔ قرآن مجید میں علم کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سورہ فاطر کی اٹھائیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔‘‘ سورہ المجادلہ کی آیت نمبر گیارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اللہ تم میں سے ایمان لانے والوں اور علم رکھنے والوں کے درجات بلند کرے گا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کے تقابلی درجے کے ساتھ زیادہ علم رکھنے والے مومن اللہ کے نزدیک برتر ہیں۔
علم اور اس کے حصول کی اہمیت اور فضیلت کا ذکر بہت سی احادیث میں بھی موجود ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’علم کا حصول ہر مسلم ( مرد اور عورت ) پر فرض ہے۔‘‘ (ابن ماجہ) کئی دوسری احادیث مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو شخص علم کی تلاش میں نکلا وہ واپس آنے تک اللہ کی راہ میں رہتا ہے۔‘‘ (ترمذی) ایک اور حدیث میں ہے: ’’جو شخص حصول علم کے راستے پر گامزن ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردے گا۔‘‘ (مسلم، ابو داؤد) علم والے کی فضیلت کی مثال حضور اکرم ؐ کے اس فرمان سے ملتی ہے:… ’’علم والا عبادت کرنے والے پر اس طرح فضیلت رکھتا ہے، جس طرح پورا چاند تمام ستاروں سے افضل ہے۔‘‘ (ابو داؤد، ترمذی)۔ عرب اقوال، جیسے کہ ’’علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے چین جانا پڑے’’ اور ‘‘علم حاصل کرو گہوارہ سے قبر تک’’ اور ایک حدیث کا حصہ کہ ‘‘بے شک اہل علم انبیاء کے وارث ہیں ’’، پوری تاریخ اسلام میں مسلمانوں کو علم جہاں سے بھی دستیاب ہوا اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسلام میں علم سیکھنے اور حاصل کرنے کی جو اہمیت ہے اس کی مثال حضور اکرم ؐ کی زندگی کے اس واقعہ سے ملتی ہے جو غزوہ بدر کے بعد پیش آیا۔ غزوہ بدر کے دوران، جس میں رسول ؐ اور صحابہ کرام کو فتح نصیب ہوئی تھی، دشمن کی صفوں سے ستر افراد کو قید کر لیا گیا۔ یہ سب اسیر پڑھے لکھے تھے۔ ان کی فصاحت سے مستفید ہونے کے لیے حضور اکرم ؐ نے اعلان فرمایا کہ اگر ہر قیدی مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے تو یہ اس کا فدیہ ہوگا اور اسے آزاد کر دیا جائے گا۔ یہ اسلامی تاریخ کا پہلا مکتب تھا جو خود رسول اللہؐ نے قائم کیا تھا۔ اس کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اس کے تمام اساتذہ غیر مسلم تھے، سبھی جنگی قیدی تھے اور ان سب کے رہا ہونے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے لیے دوبارہ مسائل پیدا ہونے کا امکان تھا۔ حضور اکرم ؐ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی خطرہ ہو، علم سیکھنا اور حاصل کرنا سب سے اہم کام ہے۔
قدیمی علوم کا ورثہ
اسلامی تاریخ کا بیشتر حصہ اسلامی تہذیب اور علم سے آراستہ رہا ہے اور اسلامی معاشرے میں عالم کو ہمیشہ اعلیٰ مقام حاصل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں سال قبل ہر روایتی اسلامی شہر میں سرکاری اور نجی کتب خانے قائم تھے اور اسپین کے قرطبہ اور عراق کے بغداد جیسے شہروں میں چار لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔ ایسے شہروں میں کتابوں کی دکانیں بھی ہوتی تھیں، جن میں سے کچھ دکانوں میں مختلف موضوعات پر کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔ اسلام جیسے جیسے جزیرہ نمائے عرب سے شمال کی جانب شام، مصر اور سلطنت فارس میں پھیلتا گیا، اس کا سامنا ان قدیمی علوم سے ہونے لگا ،جن کا ورثہ ایسے مراکز میں محفوظ تھا جو اسلامی دنیا کا حصہ بن چکے ہیں۔ مصر کا شہر اسکندریہ صدیوں سے علوم و فنون کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ بازنطینی اسکندریہ میں نشوونما پانے والی یونانی تعلیم کے سخت خلاف تھے اور انہوں نے اسلام کی آمد سے بہت پہلے اس شہر کی لائبریری کو جلا دیا تھا۔ تاہم اسکندریہ کی تعلیم کی روایت ختم نہیں ہوئی۔ اسے مشرق کے عیسائیوں، جو کہ باز نطینی سلطنت کے سخت خلاف تھے اور اپنے خود مختار تعلیمی مراکز کی خواہش رکھتے تھے، کے ذریعے انطاکیہ اور وہاں سے مزید آگے ایڈیسا جیسے مشرقی شہروں میں منتقل کر دیا گیا۔ مزید برآں فارس کے بادشاہ شاپور اول نے فارس میں جندی شاپور کو انطاکیہ سے مماثل علم سیکھنے کے دوسرے عظیم مرکز کے طور پر قائم کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے ہندوستانی طبیبوں اور ریاضی دانوں کو بھی اس بڑے تعلیمی مرکز میں پڑھانے کے لیے مدعو کیا۔ اس کے علاوہ عیسائی علماء، جو سریانی اور فارسی زبانوں میں پڑھاتے تھے اور جن کی تعلیم قبل از اسلام فارس کی علمی زبان پہلوی میں تھی، کو بھی وہاں بلایا گیا۔
سن 661 سے 750 عیسوی تک کے اموی دور میں جب مسلمانوں نے نیا اسلامی نظام قائم کیا تو انہوں نے اپنی توجہ ان علمی مراکز کی طرف مبذول کرائی جو محفوظ کر لیے گئے تھے اور خود کو ان مراکز میں پڑھائے جانے والے علم سے آشنا کرنا چاہا۔ چنانچہ انہوں نے فلسفہ اور سائنس کی تحریروں، جو کہ نہ صرف یونانی اور سریانی (جو مشرقی عیسائی علماء کی زبان تھی) بلکہ پہلوی اور سنسکرت میں بھی دستیاب تھیں، کا عربی میں ترجمہ کرنے کی ٹھوس کوشش کی۔ بہت سے بہترین عربی مترجم عیسائی عرب تھے، جیسے کہ حنین ابن اسحاق، جو ایک بہترین طبیب بھی تھے، اور دوسرے فارسی جیسے ابن المقفہ، جنہوں نے نئے عربی نثری طرز کی ایجاد میں اہم کردار ادا کیا جو فلسفہ اور سائنس کی تحریروں کے اظہار کے لیے موزوں تھا۔
عربی میں تراجم
ترجمے کی عظیم تحریک آٹھویں صدی عیسوی کے آغاز سے نویں صدی عیسوی کے آخر تک جاری رہی۔یہ تحریک نویں صدی عیسوی کے شروع میں خلیفہ المامون کے ذریعہ بیت الحکمہ کے قیام کے ساتھ اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ زمانہ قدیم کے مختلف فلسفوں اور سائنسی علوم کی موجودگی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے اور انہیں اپنی اصطلاحات اور اپنے عالمی نقطہ نظر کے مطابق سمجھنے اور اپنے اندر جذب کرنے کی اسلامی برادری کی اس وسیع کوشش کے نتیجے میں بہت سی تحریروں کا عربی زبان میں ترجمہ ہو گیا۔ ارسطو اور اس کے مکتب کے زیادہ تر اہم فلسفہ اور سائنسی کام، افلاطون اور پائتھاگورین مکتب کا زیادہ تر حصہ، اور یونانی فلکیات، ریاضی اور طب کے بڑے کام، بطلیموس کا ’’المجسٹ‘‘، ’’یوکلڈ کے عناصر‘‘ اور ہپوکریٹس اور گیلن کی تحریریں، سب کا عربی میں ترجمہ کردیا گیا۔ مزید برآں فلکیات، ریاضی اور طب کے اہم کاموں کا پہلوی اور سنسکرت زبانوں سے ترجمہ کیا گیا۔ نتیجے کے طور پر عربی کئی صدیوں تک دنیا کی سب سے اہم سائنسی زبان اور بہت سی حکمت اور قدیمی علوم کا ذخیرہ بن گئی۔
مسلمانوں نے دوسری تہذیبوں کے سائنس اور فلسفہ کے کاموں کا ترجمہ سیاسی یا اقتصادی تسلط کے خوف سے نہیں کیا، بلکہ اس لیے کیا کہ اسلام کی عمارت خود علم کی اولین بنیاد پر قائم رہے۔ نہ ہی انہوں نے علم جاننے کی ان شکلوں کو، اگر وہ اللہ کی وحدانیت کے نظریے کی تصدیق کرتی ہیں جسے اسلام اللہ کی طرف سے ہر مستند وحی کا مرکزی مقام قرار دیتا ہے، کو ’’غیر اسلامی‘‘ سمجھا۔ ایک بار جب ان علوم اور فلسفوں نے توحید کے اصول کی تصدیق کردی تو مسلمانوں نے انہیں اپنا لیا۔ انہوں نے ان علوم کو اپنے عالمی نقطہ نظر کا حصہ بنایا اور جو علوم اسلامی نقطہ نظر سے مطابقت نہیں رکھتے تھے ان کو رد کرتے ہوئے انہوں کا ان علوم کا ترجمہ، تجزیہ، تنقید اور انضمام کرنے کے بعد اسلامی علوم کی آبیاری کرنی شروع کی۔دنیا کی سب سے قدیم اسلامی یونیورسٹی، جو کہ مراکش کے شہر فیز میں واقع ہے، آج بھی کام کر رہی۔ القراویین نام کی اس یونیورسٹی کو ’’اسلام کے سنہری دور‘‘ میں فاطمہ الفحری نامی ایک مسلم خاتون نے سن 958 عیسوی میں قائم کیا تھا۔
اسلامی تعلیم کی اس پرانی روایت نے اسپین کے ذریعے مغرب کو بہت متاثر کیا۔ اسپین، جہاں مسلمان، عیسائی اور یہودی کئی صدیوں سے زیادہ تر پر امن طور پر رہتے تھے، میں گیارہویں صدی میں ترجمے ہونے لگے۔ ان میں سے زیادہ تر اسلامی کام ٹولیڈو شہر میں لاطینی زبان میں اکثر یہودی علماء کے ثالث کے ذریعے ہوئے جن میں سے اکثر عربی جانتے تھے عربی میں لکھتے تھے۔ ان تراجم کے نتیجے میں اسلامی فکر اور اس کے ذریعے یونانی افکار کا زیادہ حصہ مغرب کو معلوم ہوا اور مغربی مکاتب فکر پروان چڑھنے لگے۔ یہاں تک کہ یورپ میں اسلامی نظام تعلیم کی تقلید کی گئی اور آج تک یونیورسٹیوں میں chair کی اصطلاح عربی کرسی کی عکاسی کرتی ہے جس پر بیٹھ کر ایک استاد اپنے طلباء کو مدرسے میں پڑھانے کے لیے بیٹھتا تھا۔
یورپی تہذیب اور اسلام
جیسے جیسے یورپی تہذیب پروان چڑھتی اور اعلیٰ قرون وسطیٰ تک پہنچ گئی، وہاں ادب سے لے کر فن تعمیر تک شاید ہی سیکھنے یا فن کی شکل کا کوئی میدان ہو،جہاں اسلام کا کچھ نہ کچھ اثر نہ ہوا ہو۔ اسلامی تعلیم اس طرح مغربی تہذیب کا حصہ بن گئی، خواہ نشاۃ ثانیہ کی آمد کے ساتھ ہی مغرب نہ صرف اپنے قرون وسطیٰ کے ماضی کے خلاف ہو گیا بلکہ عالم اسلام کے ساتھ اس کے طویل تعلق کو بھی فراموش کرنے کی کوشش کی گئی، جو مذہبی مخالفت کے باوجود فکری احترام پر مبنی تھا۔ موجودہ دور میں مسلم ممالک کامیابی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے آزادی اور اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم کے کردار کی اہمیت اور مغربی سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کی اہمیت پر بہت زور دے رہے ہیں۔ پہلے ہی انیسویں صدی میں مصر، عثمانی ترکی اور فارس جیسے بعض مسلم ممالک نے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کیے، جہاں جدید علوم اور خاص طور پر طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بیسویں صدی کے دوران اسلامی دنیا میں ہر سطح پر تعلیمی ادارے پھیلے۔ ان اداروں میں ریاضی سے لے کر حیاتیات تک تقریباً ہر سائنس کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسلامی دنیا نے کچھ قابل ذکر مرد اور عورت سائنسدان بھی پیدا کیے ہیں جنہوں نے اکثر ان اداروں میں تعلیم کو مغرب کی تربیت کے ساتھ ملایا۔ تاہم اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ تعلیمی اداروں کو وسعت دی جانی چاہیے اور ان کے معیار کو دنیا کے بہترین اداروں کے درجے تک پہنچانا چاہیے جو کہ سیکھنے کے مختلف شعبوں بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ شعور بھی موجود ہے کہ تعلیمی نظام مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے اور اجنبی ثقافتی و اخلاقی اقدار اور اصولوں کے اثر کو اس حد تک کم کرنا چاہیے کہ وہ منفی ہو جائیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے کئی بین الاقوامی اسلامی تعلیمی کانفرنسیں منعقد کی گئی ہیں، جن میں پہلی کانفرنس 1977 میں مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی اور اسلام و جدید سائنس کے درمیان تعلق کے سوال پر مطالعہ اور غور و فکر کے لیے عالم اسلام کے سرکردہ مفکرین کو اکٹھا کیا گیا تھا۔ یہ عمل جاری و ساری ہے، اسلامی دنیا کے بہت سے حصوں میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور اسلامی دنیا میں تعلیمی سوالات کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
[email protected]
اسلام میں حصول علم کی اہمیت : سید خالد حسین
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS