عبدالسلام عاصم
ملت کے ہر نقصان میں سازش کی بو سونگھنے والوں کو اس وقت کیسے زکام ہوجا تا ہے جب آلِ ابراہیم کی آپسی رنجش ختم کرنے کا قدم اٹھانے والوں کی کسی حلقے کی طرف سے مخالفت کی جاتی ہے۔ اس مخالفت کو کسی سازش کا نتیجہ سمجھنے کے بجائے ملی غور و فکر کے دعویدار فلسطین کے رُخ پر دو خانوں میں بٹ جاتے ہیں۔
واقعتا بہار عرب کے بعد مشرق وسطیٰ ایک ایسے انقلاب آفریں عہد سے گزرنے جا رہا ہے جو اس خطے کو بھی یوروپ کی طرح نوع انسانی کی بہبود کے رخ پر فعال کردے گا۔ اس طرح وہاں بھی انسانی وسائل کا رخ بے ہنگم ہاتھا پائی کے دائرے سے باہر نکل کر کائنات کی تخلیق کے مقصد ایزدی کی تکمیل کی جانب مڑجائے گا۔ عالمی پریس کے مطابق سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب بھی دوسرے خلیجی ممالک کی طرح تعلقات کو معمول پر لانے کے رُخ پر ہے اور اس رُخ پر تیزی سے قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ پیش قدمی کا نقشہ انہوں نے ایک جملے میں یوں کھینچا ہے کہ ’’ہر روز، ہم قریب تر ہوتے جا رہے ہیں ۔‘‘
ایٹمی تنازعات میں گھرے ایران نے جس کے اپنے بھی علاقائی عزائم ہیں، آلِ ابراہیم کے مابین تعلقات کی بحالی کو مجموعی طور پر امکان رُخی دیکھنے کے بجائے بظاہر اپنے رد عمل میں انفرادی اندیشے کو سامنے رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ اخباری دستاویزات کے مطابق وہ اس ممکنہ اتحاد میں مبینہ طور پر دراڑ ڈالنے کے سمت میں کسی بھی حد تک بڑھنے کیلئے کوشاں ہے۔ شدت کا عالم یہ ہے کہ اس نے سعودی عرب پر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کا الزام عائد کر دیا ہے۔
ایران کا اسرائیل اور فلسطین کی سیاست میں یہ کوئی نیا موقف نہیں۔ حالات کے تازہ موڑ پر بس ذرا اس میں اپڈیشن سے کام لیا گیا ہے۔ دوسری طرف فلسطین کے مسئلے کو ذو مملکتی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش میں(اوسلو معاہدے تک پیش قدمی کے باوجود) اب تک کوئی نمایاں کامیابی اس لیے نہیں مل سکی ہے کہ علاقائی اور بیرونی دونوں طرح کی طاقتیں اپنے محدود مفادات کیلئے خطے کی سیاست سے کھیل رہی ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتوں میں چودھراہٹ کی چپقلش کا بھی اس میں خاصا دخل ہے۔ ان طاقتوں کی حاشیہ بردار قومیں اسی مناسبت سے اپنا موقف برائے موقف طے کرتی آئی ہیں۔ خلیجی ممالک کی نئی نسل کو یکے بعد دیگرے انہی باتوں کے ادراک نے وہ راستہ دکھایا ہے جو منزل تک تو جا رہا ہے لیکن ابھی بھی خلل اور دوسروں کے مفاد پرستانہ دخل سے پاک نہیں ہے۔ اس راستے میں جو عناصر رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے اپنے عزائم ہیں۔
باوجودیکہ مشرق وسطیٰ میں حالات کا رُخ بہتری کی طرف ہے۔ امریکہ میں تین سال قبل نئی حکومت کے قیام سے آل ابراہیم کو مقصد ایزدی کے رُخ پر متحد کرنے کی جاری کوششیں وقتی طور پر متاثر ضرور ہوئی تھیں لیکن وہ پٹری سے اترنے سے پہلے سنبھالا لے چکی ہیں اور متعلقین نے اندیشوں پر امکانات کو ترجیح دینے سے اتفاق کر لیا ہے۔ اس طرح مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک سعودی عرب اور اسرائیل میں معمول کے دو طرفہ تعلقات کے قیام کی کوشش اب تیزی سے تاریخی معاہدے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے وہائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو یہاں تک بتا دیا کہ فریقین میں اُس فریم ورک پر بھی مفاہمت ہو گئی ہے جس کا تعلق براہ راست میدان عمل سے ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب1993میں اوسلو معاہدے کے بعد بھی اگر شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا تو اس کی ذمہ داری کسی ایک کے کندھے پر نہیں رکھی جا سکتی۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ دو متحارب گروہوں میں مفاہمت کا سہرا تو دونوں کے سر بندھے لیکن جب دوبارہ اختلاف پیدا ہو تو اس کا الزام کسی ایک سر کے حصے میں آئے اور دونوں میں بہر لحاظ جو زیادہ طاقت رکھتا ہو، شک کی سوئی اسی کی طرف گھما دی جائے۔ نفسیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اتفاق رائے میں جہاں فریقین مصلحت کے تقاضے پورے کرنے میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں، وہیں دوبارہ اختلاف اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب نسبتاً کمزور فریق کو کوئی باربار یہ احساس دلانے لگتا ہے کہ تم سے زیادہ رعایات لی گئی ہیں یا تمہیں زیادہ دبایا گیا ہے۔
درونِ فلسطین یہی ہوا۔ لڑائی سے نجات سے زیادہ قومی قیادت اور مفادات کے تحفظ کی کمان اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے رسہ کشی نے1993سے2007تک وہ خلفشار برپا کیا کہ غزہ کا انتظام حماس کے پاس چلا گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے مزید امکانی گنجائشیں ٹٹولنے کے بجائے ایک دم سے اُس مخصوص حصے کا بری اور بحری محاصرہ کر لیا۔ عالمی پریس کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں70فیصد لوگ بے روز گار ہیں اور نوجوانوں میں روزگار رخی ترقی کی سوچ کا زبردست فقدان ہے۔ نسل در نسل اس کے انتہائی خراب اثرات مرتب ہوتے آئے ہیں۔ دیکھا جائے تو آج ایک بار پھر ذو مملکتی حل میں جس آزاد اور خود مختارفلسطین کی بات کی جا رہی ہے،1993کے اوسلو معاہدے میں اُسی آزاد اور خود مختارفلسطین کے قیام سے اتفاق کیا گیا تھا۔ افسوس کہ تغیر پر جمود کو اور امن پر خونریز تشدد کو ترجیح دینے والے دونوں طرف کے ذمہ داروں نے ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کے قیام کی امید کو موہوم سے موہوم تر کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
ماضی گرفتہ اور ماضی گزیدہ نسلوں سے ابھی کل تک جو غیر ڈیجیٹل کہانیاں منتقل ہوتی آئی تھیں، وہ بیماری کی تشخیص اور دوا کی تجویز کے محاذ پر اتنی کامیاب ثابت نہیں ہوئیں جتنی اب ہونے کی امید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب طاقتور اور نسبتاً کمزور متحاربین کی نئی قیادت کتابیں پڑھ کر آنکھیں پھوڑنے والوں پر مشتمل نہیں بلکہ برقی مشاہدات سے گزرنے والوں کی ہے۔ انہیں اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے ساتھ برطانوی غرور ہی خاک میں نہیں ملا تھا، دنیا کے کئی خطوں میں ایسی بے ہنگم تبدیلیاں آئی تھیں جو بظاہر تو کسی نہ کسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے برپا کی گئی تھیں لیکن بباطن اِن میں بگاڑ کا سامان بھرتا چلا گیا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم اور اسرائیل کا قیام ایسے ہی اقدامات تھے جن کا بالترتیب مقصد نظریاتی طور پر متصادم حلقوں کو دور ہٹانا اور اجڑے کو بسانا تھا۔ یہ دونوں قدم دوا دارو کے تجربے سے گزرے بغیر سیدھے عمل جراحی کے ذریعہ اُٹھائے گئے تھے۔ اسی لیے مرہم پٹی کا سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ اِس لحاظ سے بر صغیر میں آج بھی جہاں وفاق اور نیم وفاق کی بحث چلتی رہتی ہے، وہیں مشرق وسطیٰ کی سیاست کا ایک رُخ بدستور فلسطینیوں کے نصب العین کی طرف رہا۔ یہ نصب العین ابھی کل تک فلسطینی کاز بھنانے والے سبھی کا الگ الگ تھا۔
یہ سچ کوئی نیا سچ نہیں کہ الگ الگ پہچان کی ضد نے انسانوں کو خانوں میں بانٹ کر صرف نقصان پہنچایا ہے۔ کل تک اس سچ کا علمی ادراک کم کیا جاتا تھا اور نظریاتی چھان پٹک سے زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ لہٰذا یمینی اور یساری رُخوں پر نظریاتی تبدیلیاں تو آجاتی تھیں لیکن انسان کا مقدر نہیں بدلتا تھا۔ گلوبلائزیشن نے اس رخ پر علمی ادراک کا دائرہ الحمدللہ کافی وسیع کر دیا ہے۔
سمجھا جاتا ہے کہ حالات کے تازہ موڑ پر بظاہر اسرائیل اور بیشتر عرب ملکوں نے ردعمل کی سیاست پر حکمت اور تزویرات سے کام لینے کو اہمیت دینا شروع کر دیاہے۔ اس میں ایک طرف اسرائیل نے جہاں بزور طاقت دفاع میں وقت کے ضیاع کو محسوس کیا ہے، وہیں عربوں کی نئی نسل بھی پروان چڑھنے کے عمل کو رفتار زمانہ سے ہم آہنگ کرنے اور نرے جذبات کی جگہ شعور سے کام لینے کو تر جیح دیتی نظر آنے لگی ہے۔ایسے میں سعودی عرب بباطن یہ جائزہ لے رہا ہے کہ وہ خلیجی تعاون کونسل میں اپنا رول اور زیادہ مؤثر ڈھنگ سے کیسے ادا کر سکتا ہے۔ اُس نے اپنے طور پر تو یہ ادراک کرلیا ہے کہ اُس فلسطینی بیانیہ سے اب اور وابستہ نہیں رہا جا سکتا جس میں گزشتہ نصف صدی سے کوئی تبدیلی رو نما نہیں ہوئی۔ بس اتنا ہوا ہے کہ مصر اور اردن کے بعد متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ معاہدات مظہر ہیں کہ راست اور غیر پوشیدہ مذاکرات و معاملات ہی بقائے باہم کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]