کیوں ختم نہیں ہورہا ہے لبنان کا بحران

0

مغربی ایشیا کے ایک شاندار ملک لبنان میں سیاسی تعطل اور اقتصادی بحران ختم نہیں ہورہا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی ان صفحات میں بتایا جا چکا ہے کہ لبنان میں تمام عہدوں پر کوئی بھی مستقل شخص فائز نہیں ہے اور تمام انتظامی آئینی عہدوں پر کارگزار شخصیات ہی کام کررہی ہیں۔ تازہ ترین واقعہ میں آئی ایم ایف کے سینئر لیڈر جہاد آذر کو صدر نہیں منتخب کیا جاسکا۔ ان کو صرف 59ووٹ ملے۔
یہ ملک ایک طویل عرصے 1975سے 1990 تک خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ خلفشار کا شکار رہا ہے۔ بعد میں سعودی عرب اور ودیگر ممالک کی مداخلت مصالحت کی وجہ سے تائف سمجھوتہ ہوگیا تھا جس سے یہ لگا کہ لبنان کے فرقہ وارانہ اور دیگر سیاسی واقتصادی مسائل اس سمجھوتہ کے ذریعہ حل ہوگئے ہیں، مگر گزشہ کئی سال سے نہ تو وہاں صدر ہے اور نہ ہی وزیراعظم یا اس کی کابینہ۔ لبنان کا سیاسی ڈھانچہ اور انتظامی نظام اس قدر خراب ہوگیا ہے کہ کوئی بھی پرزہ اپنی جگہ پر نہیں ہے۔
جنرل آعون کے مدت کار کے ختم ہونے کے بعد صدارتی عہدے پر بھی کوئی اتفاق رائے نہیں بن پا یا ہے اور مختلف فرقے اور سیاسی پلیئر آپسی خلفشار اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ ملک کدھر جارہا ہے ، کونسی راہ اختیار کررہاہے، اس کا کوئی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کووڈ-19کے دوران لبنان جیسے مہذب اور متمدن ملک میں جہاں تمام طبقات اپنے اختلافات کے باوجود ایک ساتھ زندگی گزارنے پر فخر محسو س کرتے تھے آج بدست گریباں ہیں۔ پارلیمنٹ کے انتخابات ہونے کے باوجود وہاں پر گزشہ دوسال میں کوئی بھی مستقل حکومت نہیں بن پائی ہے، جس کی وجہ سے وہاں روز مرہ کے اہم فیصلے لینے والا کوئی بھی لیڈر نہیں ہے۔ تقریباً 12مرتبہ یہ کوشش کی جاچکی ہے کہ وہاں پر صدارتی عہدے کے صف اول کے امیدوار پر کوئی اتفاق رائے بن جائے، مگر اس کوشش میں کوئی کامیابی نہیں مل پائی ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور فرقوں میں اور ان کی سیاسی اختلاف رائے کی وجہ سے یہ عہدہ خالی پڑا ہے۔
صدارتی عہدے کے دعویدار جہاد آذر اور سلیمان فرنگی جماعتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے یہ اس عہدے پر تقرری اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے دوران کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ووٹنگ رک گئی۔ کئی معاملات میں ووٹ ڈالنے کے طریقوں کے اختلافات کی وجہ سے کئی مرتبہ ووٹ نہیں ڈالے جاسکے۔لبنان کی 128ممبران پر مشتمل پارلیمنٹ صدر کو منتخب کرتی ہے تمام فرقہ اورنسلوں کے لوگ اور ممبران پارلیمنٹ اپنی ہی قیادت کی تجویز کردہ لیڈروں او رپالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں، شیعہ سنی اور عیسائی اور مورا نائٹوں کے درمیان کے اختلافات پورے ملک کے سیاسی نظام کو یرغمال بنا چکا ہے۔ مغربی ایسا میں اگرچہ ایران اور سعودی عرب تعلقات کو بحال کرچکے ہیں مگر اس کا اثر لبنان پر بالکل ہی نظر نہیں آتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اندرونی خلفشار کے علاوہ کچھ خارجی طاقتیں بھی اس اختلاف کو ختم ہونے میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ غیر ملکی طاقتیں خاص طور پر آئی ایم ایف اور فرانس کے حلیف چاہتے ہیں کہ جہاد آزر کو اس عہدے پر متمکن کردیا جائے۔
جہاد آذر سابق وزیر مالیات ہیں اور ان کا جھکائو انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ کی طرف ہے۔ وہ آئی ایم ایف کے عہدیدار رہے ہیں۔ عالمی ادارے کسی اقتصادی پیکیج کی منظوری کے لیے ایک ایسے شخص کو اس عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کا نقطۂ نظر او ر اقتصادی پالیسیوں پر عمل آوری یقینی بنا سکے۔ اس اصرار اہم وجہ یہ ہے کہ لبنان کا مرکزی بینک کا سابق سربراہ بدترین اقتصادی بے ضابطگیوں کے لیے مطلوب ہیں اور کئی ادارے اس کو مفرور قرار دے چکے ہیں۔
لبنان کے سینٹرل بینک کے اعلیٰ ترین عہدیدار جب اتنے سنگین الزامات میں مطلوب اور مفرور ہو تو اس پورے ملک کے پورے نظام کے کھوکھلے پن کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ عالمی ادارے کسی بھی ایسے لیڈر یا پارٹی نمائندے کو حمایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی ایمانداری پر شک ہو یا اس کے تنظیمی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگتے ہوں۔ لبنان میں موجودہ بحران سیاسی بھی ہے اور اقتصادی بھی۔ فرقہ وارانہ اہمیت کے حامل افراد اس قدر طاقتور ہوگئے ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہلتا ۔ پورا سماج نسلی اور مذہبی خطوط پر تقسیم ہوچکا ہے اور کوئی بھی فریق اپنے مفادات کو نظرانداز کرکے کسی قانون ، پیکیج یا حکمت عملی منظوری دینے کے لیے تیارنہیں ہیں۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس کے پاس لبنان کے اقتصادی بحران کو ایک بلیو پرنٹ موجود ہے اور اس کو نافذ کیے بغیر لبنان کے اقتصادی بحران کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ایک اقتصادی ادارہ سینٹرل ایشیا ڈپارٹمنٹ نے پارلیمنٹ اور کارگزار حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان اصلاحات پر عملی جامہ پہنائے جن کی تجویز اس نے دی ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے سینٹرل بینک میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات نافذ کی جائیں اور سرکاری اداروں میں شفافیت پیدا کی جائیں۔ پارلیمنٹ جہادآزر کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز کو پاس کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ آزر کو تازہ ترین ووٹنگ میں 59ووٹ ملے تھے جو کہ دو تہائی حمایت سے کم تھے۔
جہاآذر کو مزید 27ووٹ درکار تھے۔ لہٰذا ان کو پوری حمایت نہیں ملی اور ایوان میں یہ تجویز گر گئی۔ جہادآزر کے مد مقابل سلیمان فرنگی بھی مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، ان کو جون 2023میں ووٹنگ کے دوران صرف 51ووٹ ملے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرنگی کو امال مومونٹAmod Movement کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ لبنان کے طاقتور شیعہ بلاک حزب اللہ فرنگی کی حمایت کرتا ہے۔ یہی قربت ہے جو کہ فرنگی کو مطلوبہ حمایت سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ اوپر سطر میں بتایا گیا ہے کہ فرنگی کو شام کی ایک مقتدر پارٹی کی بھی حمایت حاصل ہے ۔ زیادہ تر مغربی طاقتیں فرنگی کو حمایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ اقتصادی بحران سیاسی بے یقینی کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS