مولانا ابوبکرحنفی شیخوپوری
حضورخاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر اور ہمہ جہت نبوت، زمین وزماں اور مکین ومکاں پر محیط رسالت اور قیامت تک کی انسانیت پرمسلمہ سیادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات، امتیازات اور اعزازات میں سے ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے رب کریم نے ’’وما ارسلناک الا کافۃ للناس‘‘ اور ’’وماارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘ کے محبوبانہ اورعاشقانہ انداز تخاطب سے آپ سے خطاب کیا اور خود آنحضرت نے بھی ’’ارسلت الی الخلق کافۃ‘‘ کے جامع کلمات سے حق جل مجدہ کی اس نعمت غیر مترقبہ کا اظہار فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی طرح آٓپ کی سیرت بھی عالمی وآفاقی ہے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے ایسے اصول فراہم کیے ہیں جو نظام عالم کی بقاء کے ضامن ،انسانی ومعاشرتی قدروں کا حسن اور تمام انسانیت کے لئے نجات دہندہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کابے داغ بچپن، باکردارجوانی اور حسن عمل کاحامل بڑھاپا صرف عالم اسلام ہی نہیں ، تمام اقوام عالم کے لئے مشعل راہ ہے۔
غیر مسلم مفکرین کا اعتراف : یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف منصف مزاج غیر مسلم دانشوروں نے برملااور بجاطور پر کیا ہے۔ معروف ہندو اسکالر سوامی لکشمن جی نے جب تعمق نظری سے پیغمبراسلام کی شخصیت کا مطالعہ کیا تو اس قدر متاثر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پرپوری کتاب لکھ ڈالی جس کا نام ’’عرب کا چاند ‘‘رکھا۔ اس کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے۔’’جہالت اور ضلالت کے مرکز اعظم جزیرہ نمائے عرب کے کوہ فاران کی چوٹیوں سے ایک نورچمکا، جس نے دنیا کی حالت کو یکسربدل دیا، گوشہ گوشہ کو نور ہدایت سے جگمگادیا اور ذرہ ذرہ کو فروغ تابش حسن سے غیرت خورشید بنا دیا۔ آج سے چودہ صدیاں پیشتر اسی گمراہ ملک کے شہر مکہ معظمہ کی گلیوں سے ایک انقلاب آفریں صدا اٹھی جس نے ظلم وستم کی فضاؤں میں تہلکہ مچادیا۔ یہیں سے ہدایت کا وہ چشمہ پھوٹا جس نے اقلیم قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں سرسبزوشاداب کردیں۔ اسی ریگستانی چمنستان میں روحانیت کا وہ پھول کھلاجس کی روح پرور مہک نے دہریت کی دماغ سوزبو سے گھرے ہوئے انسانوں کے مشام جان کومعطرومعنبرکردیا۔ اسی بے برگ وگیاہ صحراکے تیرہ وتار افق سے ضلالت وجہالت کی سب ویچور میں صداقت وحقانیت کا وہ ماہتاب درخشاں طلوع ہوا جس نے جہالت وباطل کی تاریکیوں کو دور کرکے ذرے ذرے کو اپنی ایمان پاش روشنی سے جگمگاکررشک طور بنا دیا۔ گویا ایک دفعہ پھرخزاں کی جگہ سعادت کی بہار آگئی۔(صفحہ۶۵،۶۶)
انبیاء کے مقتداء : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی جامعیت کا عالم یہ ہے کہ جہاں ایک طرف امت کوخطاب کرکے ارشادہوا’’البتہ تحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسول(کی ذات )میں بہترین نمونہ ہے‘‘(الاحزاب:۲۱)وہیں انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے مقدس ترین گروہ اور افضل الخلائق ہستیوں کومخاطب فرماکرانہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور پیروی کا حکم دیاگیا ۔ فرمان باری تعالی ہے ’’اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ میں جوکچھ بھی تمہیں کتاب اور حکمت عطاء کروں پھرتمہارے پاس ایک رسول آجائے جواس چیز کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے توتم ضروراس پر ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کروگے‘‘(آل ِ عمران ۸۱)گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مقتداؤں کی مقتدا، پیشواؤں کی پیشوا اور راہنماؤں کی راہنماء ہے۔ اندازہ کریں !کیا کمال ہے آنحضرت کی سیادت وامارت کا اورکیاشان ہے نمونہ کاملہ کی کہ اصحاب ِ شریعت وکتاب، اولو العزم اور معصوم ہستیاں جس کی زیر اقتداء ہیں اور وہ اس سوالاکھ طائفہ مقدسہ کے راہبروراہنماء ہیں۔
سیرت کا عملی نمونہ : پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر اور تمام فطری تقاضوں کے عین مطابق سیرت کے بے شمار اسرار و رموز میں سے ایک راز یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جودستور حیات امت کو دیااسے محض اپنے بیان وفرمان اور وعظ وتقریر کے ذریعہ ہی ان تک نہیں پہنچایا بلکہ اس کا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کیا، احادیث طیبات میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کونماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا’’نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘(صحیح بخاری)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی تفہیم دین کے سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاعملی طرز بیان اختیار فرماتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب اپنے تلامذہ کو نماز کا طریقہ بتایا تو فرمایا’’کیا میں تمہیں ایسے نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے؟پھرآپؓ نے نماز پڑھی‘‘(ترمذی)۔اپنی شریک حیات کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دیتے ہوئے اپنی مثال بیان فرمائی’’تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ بہتر(معاملہ کرنے والا)ہے اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھروالوں کے ساتھ بہتر ہوں‘‘(ترمذی)۔کھانے کا ادب بیان فرماتے ہوئے کھانے کے وقت اپنا معمول بیان فرمایا’’میں (متکبروں کی طرح )ٹیک لگا کر نہیں کھاتا‘‘(بخاری)اس کے علاوہ بھی ذخیرہ احادیث اس نوع کے واقعات سے بھراپڑاہے۔
خصائل ِ مبارکہ کی حفاظت :آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاابداسوہ حسنہ بننے والی سیرۃ مبارکہ کے لطائف میں ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ آپ ؐ کی بچپن سے لڑکپن،لڑکپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپا اور بڑھاپے سے موت تک غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ خواہ بشری وطبعی امور سے متعلق ہو یادینی وشرعی امور سے، مکمل طور پرمحفوظ ہے، یہاں تک کہ بہت سے ایسے امورجن کو عام معاشرتی زندگی میںنظرانداز کردیاجاتاہے اوران کی تحقیق وتفتیش میں کوئی شخص نہیں پڑتا۔