پنکج چترویدی
جون 2015 میں مرکزی حکومت کے مقبول پروجیکٹ ملک میں 100 اسمارٹ سٹی ڈیولپ کرنے کی مقررہ مدت اب جون-2024 تک بڑھا دی گئی ہے لیکن 74 ہزار کروڑ خرچ کرنے کے بعد بھی پروجیکٹ کی آخری بارش نے بتا دیا کہ ان شہروں کو ہلکی سی بارش سے ڈوبنے سے بچنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ اس بار دہلی ڈوبی، سمندر کے کنارے آباد پنجی بھی برسات میں دریا بن گیا۔ لکھنؤ کے پوش علاقوں میں بوٹ چلانے کی نوبت آگئی۔ شملہ جیسے شہر لینڈسلائیڈ اور برسات میں بکھر گئے۔ بھوپال تو کئی بار تالاب بنا۔ رانچی کے بھی حالات خراب رہے۔ حالانکہ اسمارٹ سٹی پروجیکٹ میں درج تھا کہ وہاں کے ندی-تالاب کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا لیکن کہیں بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔ حال ہی میں مہاراشٹر کی دوسری راجدھانی ناگپور میں جو تباہی آئی، اس نے بتا دیا اپنے ہی پانی کے وسائل کو سنبھال نہ پانے کی وجہ سے یہاں ہاہاکار مچ گیا۔ سڑکوں پر بوٹیں چل رہی تھیں۔ چار لوگوں کی اموات ہو گئیں۔ کوئی دس ہزار گھروں کو پانی نے زبردست نقصان پہنچایا۔ حالات بگڑے تو فوج کی دو ٹکڑیوں کو اتارنا پڑا۔ جاتی ہوئی برسات نے ناگپور کی جو پول کھولی، اصل میں یہ ایک انتباہ ہے، بس شہر کا نام اور وہاں پانی کے وسائل کے نام بدلتے جائیں- کوتاہی، بربادی ہی ملے گی۔ پتہ نہیں بل کھاکر چلنے والی ندیوں کو دیکھ کر سانپ کو ناگ کہنے لگے یا سانپ کی رفتار کے سبب پانی کے وسائل کو ناگ کہا گیا۔ ہماچل سے لے کر ملک کے تقریباً سبھی حصوں میں پہاڑ سے تیز ی سے آنے والے پتلی پانی کی دھاراؤں کو ناگ کہا جاتا ہے۔ ناگپور شہر کی بنیاد 1703 میں دیوگڑھ کے گونڈ راجہ ’’بخت بلند شاہ‘‘ نے رکھی تھی۔ بخت بلند شاہ کے جانشین چاند سلطان نے ناگ ندی کے کنارے اپنے شہر کے چہار جانب تین میل لمبی دیواروں کی تعمیر کرائی تھی۔ 1743 میں، یہ راگھوجی راؤ بھونسلے سلطنت کا دارالحکومت بن گیا۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ ناگپور کا پرانا نام پھنی پور تھا اور یہ بھی نام ناگ یا سانپ کا ہی ہے۔ یہاں کے حکمراں جانتے تھے کہ یہ چھوٹی سی ندی ہے، اس لیے ناگ ندی کے پانی کے نظام میں کئی تالاب بنائے گئے تاکہ بارش کی ہر بوند کو سال بھر کے لیے ذخیرہ کیا جاسکے۔ یہاں کے بہتات آبی وسائل کی وجہ سے یہاں کا موسم خوشگوار ہوتا تھا۔ اسی لیے اسے ریاست کا سرمائی دارالخلافہ بنایا گیا۔ گزشتہ تین دہائی میں یہاں کے دیہی علاقوں سے نقل مکانی میں اضافہ ہوا، صنعت کاری بھی ہوئی اور اس کا خمیازہ بھگتا ناگ ندی کے پانی کے نظام نے۔ بڑے پیمانے پر تجاوزات ہوئے اور تالاب میدانوں میں تبدیل ہو گئے۔ ناگ ندی اور اس کی معاون پیلی ندی ، چمار نالے وغیرہ کو کچرا ڈھونے کا راستہ بنا دیا گیا۔
ابھی ایک سال پہلے ناگ ندی کے احیا کے منصوبے کا افتتاح خود وزیر اعظم کی موجودگی میں ہوا۔ آلودگی سے پاک اور تجاوزات کے جال کو ہٹا کر ناگ ندی کو بہتر بنانے کے لیے اس پروجیکٹ کو 2021 میں منظوری دی گئی تھی۔ بی جے پی کی حکومت والی ناگپور میونسپل کارپوریشن نے اس پروجیکٹ پر 2117 کروڑ روپے خرچ کیے۔ شہر میں سیلاب کے بعد ناگپور کے لوگ اب پوچھ رہے ہیں کہ آخر یہ پیسہ کہاں گیا؟ یہی نہیں جون-14 میں ناگپور کو اسمارٹ سٹی بنانے کا جو کام شروع ہوا اور جس پر اب تک تقریباً ایک ہزار کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں، دریا بنا شہر سوال کر رہا ہے کہ کیا ایسا ہی ہوتا ہے اسمارٹ سٹی میں برسات کا موسم؟ یہ بات تو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے قہر سے پورا ملک نبردآزما ہے، ہر قصبے اور شہر کو اس طرح کی اچانک اور شدید بارشوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ پھر ناگپور میں شہر اور ندی کی ترقی میں اس اندیشے کو کیوں مدنظر نہیں رکھا گیا؟
ناگپور کے ڈوبنے کو سمجھنے کے لیے ناگ ندی کی نوعیت اور اس کے پانی کے نظام کو سمجھنا ہوگا۔ بھونسلے کے دور حکومت میں ناگ ندی ناگپور شہر کی جنوبی حدود کا تعین کرتی تھی۔ مشرقی سرحد میں نواب پورہ اور جونی منگلواری اور شمالی سمت میں ہنسا پوری، لینڈی تالاب۔ شہر نائک تالاب تک پھیلا ہوا تھا۔ سکردرہ تالاب شہر کا ایک بہت بڑا پانی کا ذخیرہ تھا جو لوگوں کی پیاس بجھاتا تھا۔ امراوتی کے راستے پر وادی کے علاقے میں لاوا کی پہاڑیوں سے ناگ ندی نکلی۔ اس کے راستے میں پیلی اور پَورا ندیاں آپس میں ملتی ہیں اور علیحدہ ہو جاتی ہیں۔ ان ندیوں کے پانی کی ہر بوند کا تبادلہ تقریباً دس تالابوں سے ہوتا رہتا تھا۔ یہ تالاب تھے-گورے واڑہ جھیل، پھوٹالا جھیل، امباجھری، سونے گاؤں، گاندھی ساگر تالاب، پولیس لائنز تالاب، لینڈی تالاب، نائک تالاب، منگلواری تالاب، پانڈھرابوڈی تالاب، سکردرا تالاب، بارا دواری جھیل وغیرہ۔ ناگ ندی کا سفر پیلی ندی سے ملنے کی جگہ پوانگاؤں تک تقریباً 16.8 کلومیٹر کا ہے۔ اس طرح ناگپور شہر کے پانی کے نظام میں تین ندیاں اور 14 جھیلیں ہوا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ 854 عوامی کنویں بھی یہاں کے پانی کے نظام کا حصہ تھے۔
اگر ناگپور کے آبی نظام کو دیکھیں تو نہ یہاں کبھی پانی کا بحران ہونا چاہیے تھا اور نہ ہی پانی کا بھراؤ۔ ضلع انتظامیہ نے ایک آر ٹی آئی میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ 15 سال میں شہر میں دو تالابوں سنجے نگر اور ڈوب تالاب کا وجود ختم ہو گیا ہے۔ اب شہر میں صرف 11 تالاب رہ گئے ہیں۔ اس میں بھونسلے دور کے 4 تالاب بھی شامل ہیں۔ نائک اور لینڈی تالاب اب چھوٹی سی پوکھر میں تبدیل ہو گئے ہیں اور پانڈھرابوڈی تالاب اب نام کا رہ گیا ہے۔ چونکہ یہ تمام تالاب ندیوں سے جڑے ہوئے تھے، اس لیے تجاوزات اور لاپروا ترقی نے اس روایتی علم کو دھیان میں نہیں رکھا۔ تبھی ناگپور کے ڈوبنے کی وجہ امباجھاری اور گورواڑہ تالابوں سے پانی کا زیادہ بہاؤ اور ناگ اور پیلی ندیوں کی طغیانی بتائی جارہی ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں، آپ جس شہر میں رہتے ہیں، وہاں کی بھی کہانی بالکل ایسی ہی ہے۔
اس بار کا سیلاب صرف ناگپور کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کی تمام اسمارٹ سٹی کے لیے سنگین وارننگ ہے، ابھی بھی وقت ہے کہ ناگپور کی ناگ- پیلی-پوہرا ندیوں کی طرح دوسرے شہروں کی چھوٹی ندیوں یا پھر ان کے قدرتی راستوں اور ان کے ساتھ جھیلوں کے ملنے کی پوری تکنیک کو پہچانیں، وہاں سے تجاوزات اور مستقل تعمیرات کو ہٹائیں اور پانی کے بہاؤ کو بلا تعطل بہنے دیں، ساتھ ہی شہر کے وسط میں واقع آبی ذخائر میں کوڑا کرکٹ پھینکنے پر بھی مکمل طور پر پابندی عائد کی جائے، ورنہ اسمارٹ سٹی کی سڑکیں یا سجاوٹ کسی کام نہیں آئے گی اور وہاں کے وجود پر بڑا بحران سامنے کھڑا ہوگا۔
[email protected]
ڈوبتا اسمارٹ سٹی دیگر شہروں کیلئے بھی انتباہ: پنکج چترویدی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS