ایم اے کنولؔ جعفری
پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں منعقدہ خصوصی اجلاس کے پہلے ہی روز مرکزی وزیر قانون ارجن میگھوال نے آئین کا 128 واں ترمیمی بل پیش کیا۔ 20 ستمبر کو ایوان زیریں میں 8 گھنٹے زوردار بحث کے بعد شام 7بجے پرچی سے کرائی گئی ووٹنگ میں بل کی حمایت میں 454 اور مخالفت میں 2 ووٹ پڑے۔ ایوان زیریں میں کثرت رائے سے پاس ’ناری شکتی وندن بل‘ کو 21 ستمبر کو ایوان بالا میں پیش کیا گیا۔ بل پر 10 گھنٹے چلی بحث کے بعد یہ دیر شام اتفاق رائے سے منظور ہو گیا۔ ڈیجیٹل ڈیوائس سے ہوئی ووٹنگ میں سبھی جماعتوں کی تائید حاصل رہی۔ ایوان بالا میں 245 اراکین ہیں۔ یہ ریزرویشن صرف ایوان زیریں میں نافذ العمل رہے گا۔ ایوان بالامیں اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد بل قانون بن جائے گا۔ اس کے نفاذ کے بعد قانون ساز اداروں کی شکل و صورت تبدیل ہو جائے گی۔ قانون سازی اور فیصلہ سازی میں خواتین کو بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ اس وقت ایوان زیریں میں خواتین کی نمائندگی 15 فیصد ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ ایوان زیریں میں خواتین کی تعداد 82 ہے۔ قانون بننے کے بعد یہ تعداد 181 ہو جائے گی لیکن بل کے قانون بننے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ اسے2024 کے پارلیمانی انتخابات میں نافذ کیا جائے گا۔ مردم شماری اور حد بندی کے بعد 2029 میں اس کے نافذ ہونے کا امکان ہے۔ ’ناری شکتی وندن‘ بل میں ایس سی، ایس ٹی یا اوبی سی طبقے کے لیے علیحدہ سے ریزرویشن کی فراہمی نہیںہے۔ آئین کے آرٹیکل330کے تحت درج فہرست ذات اور قبائل زمرے کے لیے مخصوص 131نشستوں میں سے ایک تہائی( 44) سیٹیں ان زمروں کی خواتین کے لیے محفوظ ہوں گی ۔ بل کے پارلیمنٹ میںپاس ہونے اور قانون بننے سے پہلے 50 فیصد صوبائی اسمبلیوں سے منظوری درکار ہے۔ حالانکہ اس ریزرویشن کو 15 برس کے لیے نافذکیا گیا ہے لیکن رائے دہی کی سیاست والے ملک میں لگتا نہیں کہ اسے آسانی سے ہٹایا جا سکے گا۔ ایسا اس لیے بھی کہا جا رہا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا نظام بھی اسی طرح محدود مدت کے لیے نافذ کیا گیا تھا جو قانون میں باربار ترمیم کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔
حکمراں جماعتوں کی خاتون لیڈروں نے کیا کہا
خواتین سے متعلق معاملوں میں ہم کوئی سیاست نہیں کرتے۔ یہ وزیر اعظم کے لیے اعتماد کا موضوع ہے، اس لیے ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہم نے کیا ہے۔ چاہے وہ آرٹیکل 370 ہو، تین طلاق ہو یا اب خواتین ریزرویشن بل ہو۔
نرملا سیتا رمن
وزیرخزانہ اورممبر پارلیمنٹ، بی جے پی
آج کا دن بے حد تاریخی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی حکومت نے خواتین کو برابری کا حق دیا ہے۔۔۔۔خواتین ریزرویشن کے ذریعے جو خواتین حاشیے پر کھڑی ہیں،ان کی قسمت بدلے گی۔
مینکا گاندھی
ممبر پارلیمنٹ،بی جے پی
آج تاریخ رقم کی گئی ہے۔ دہائیوں کی جدوجہد۔۔۔آج وزیر اعظم مودی نے پوری کی۔
اسمرتی ایرانی
مرکزی وزیر اور ممبر پارلیمنٹ،بی جے پی
یہ بل لانے اور اسے قانون بنانے کے لیے ہر کسی نے ان کا (وزیر اعظم کا) شکریہ ادا کیا۔ خواتین نے آخرکار طویل جدوجہد کے بعد طویل مدت سے زیر التوا حق حاصل کر لیا۔ یہ کام
کرانے کے لیے ملک کبھی وزیر اعظم کو فراموش نہیں کرے گا۔میناکشی لیکھی
مرکزی وزیر اورممبر پارلیمنٹ،بی جے پی
پہلے ہی دن (نئی) پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے سوچا گیا۔ یہ حکومت کا قابل تعریف کام ہے۔ خواتین ریزرویشن ایک پرانا ایشو تھا۔ ۔۔۔خواتین ملک کی آدھی آبادی ہیں۔ ۔۔۔خواتین کی ترقی کے بغیر کسی بھی جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انوپریہ پٹیل، مرکزی وزیر اور صدراپنا دل(سونے لال)
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں خواتین ریزرویشن بل کی حمایت کرنے والا اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ جہاںریزرویشن میں دیگر پسماندہ طبقے کو شامل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے وہیں بی جے پی لیڈر اور مدھیہ پردیش کی سابق وزیراعلیٰ اوما بھارتی بل کی منظوری سے تو خوش ہیں لیکن اس میںاو بی سی کو شامل نہیں کرنے سے ناخوش ہیں۔ انہوں نے ریزرویشن میں او بی سی کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن حکومت فی الحال اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ خواتین ریزرویشن کے نفاذ سے ہندوستان کا مزاج بدلے گا اور عوام میں جو اعتماد پیدا ہوگا، وہ ملک کو نئی بلندیوں پرلے جانے والے ناقابل تصور اور منفرد قوت کے طور پر ابھرے گا۔ایوان زیریں اور ایوان بالا نے ترمیمی بل منظورکرتے ہوئے خواتین کو بااختیار بنانے کاتاریخی فیصلہ لیا ہے۔ مرکزی قانون و انصاف وزیر ارجن رام میگھوال نے خواتین ریزرویشن بل کی تعریف میں کہا کہ یہ عورتوں کی سماجی اور اقتصادی حیثیت میں اضافے کا موقع فراہم کرنے والا بل ہے۔ مودی حکومت شروع سے ہی خواتین کو بااختیار بنانے کے حق میں رہی ہے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ ساڑھے تین دہائی کے بعد جس طرح سے بل لایا گیا ہے، یہ صرف نعرہ ثابت ہوگا۔
غیر حکمراں جماعتوں کی خاتونلیڈروں نے کیا کہا
مقامی اداروں میں خواتین کو ریزرویشن دینے کا بل سب سے پہلے میرے شوہر راجیو گاندھی لائے تھے جسے راجیہ سبھا میں 7 ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔ بعد میں پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے اسے منظور کرایا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک بھر کے بلدیاتی اداروں میں 15 لاکھ منتخب خواتین رہنما ہیں۔ راجیو کا خواب صرف آدھا ہی پورا ہوا ہے، اس بل کے پاس ہونے سے خواب پورا ہو جائے گا۔
سونیا گاندھی، سابق کانگریس صدر
(بی جے پی سے) آپ نے 9.5 سال میں یہ بل کیوں نہیں پیش کیا؟ اس بل کو پیش کیا تو پھر اسے 2024کے لوک سبھا انتخابات میں کیوں نافذ نہیں کر سکتے۔
ہرسمرت کور، ممبر پارلیمنٹ،شرومنی اکالی دل
حکومت کو بڑے دل سے کام لینا چاہیے اور بل میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی خواتین کے لیے ریزرویشن کا انتظام کرنا چاہیے۔
سپریہ سولے، ممبر پارلیمنٹ،این سی پی
او بی سی اور اقلیتی خواتین کو بھی بل میں ریزرویشن دیا جانا چاہیے۔
ڈمپل یادو,ممبرپارلیمنٹ،ایس پی
ملک میں صرف مغربی بنگال میں خاتون وزیر اعلیٰ ہیں، بی جے پی کی 16 ریاستوں میں حکومت ہے، لیکن کسی ایک ریاست میں بھی خاتون وزیر اعلیٰ نہیں ہے۔ ملک کے لیے تمغے جیتنے والی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ ملزم برج بھوشن سنگھ آج پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ بی جے پی ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی؟
کاکولی گھوش، ممبرپارلیمنٹ،ٹی ایم سی
کہا گیا کہ خواتین ریزرویشن بل سے اب تک گریز کرنے والی مودی سرکار اسے 2024 کے عام انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے لائی ہے جبکہ خواتین کو اس کے فوائد 2029 میں حاصل ہوں گے اور انہیں طویل عرصے تک انتظار کرنا ہوگا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو الجھائے رکھنا چاہتی ہے۔ یہ بل صرف جملہ یا پھر ایک خالی وعدہ ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ خواتین کے لیے مختص کی گئی نشستوں کو روٹیشن کے ذریعے تبدیل کرنے کی شق بھی واضح نہیں کی گئی ہے۔ کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ 2010 میں ایوان بالا میں خواتین ریزرویشن بل منظور ہونے کے بعد اسے ایوان بالا میں دوبارہ لانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس پر وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 107 صاف کہتا ہے کہ لوک سبھا میں زیر التوا بل ایوان کے تحلیل ہونے کے ساتھ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے دیگر پسماندہ طبقات کی نمائندگی کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ85 اراکین پارلیمنٹ اور 29 وزرا کا تعلق او بی سی سے ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔راہل گاندھی نے خواتین ریزرویشن کو بڑا قدم بتاتے ہوئے کہا کہ بل کے تحت او بی سی ریزرویشن ضرور فراہم کیا جانا چاہیے۔ اسے اگلے پارلیمانی انتخابات میں نافذ کیا جانا چاہیے۔ ایسا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ دوسری جانب کہا جا رہا ہے کہ وبائی مرض کورونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کی گئی 2021 کی مردم شماری 2026 میں ہوگی۔ اس بنا پر اسے 2024میں نافذکرنا ممکن نہیں ہے۔ عام انتخابات کے بعد پہلے مردم شماری ہوگی۔ پھر حد بندی کمیشن مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق نئی نشستوں کا فیصلہ کرے گا، اس لیے ا سے 2029 سے قبل نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ جب خواتین کو اس بل کا فائدہ 2024 کے انتخابات میں نہیں ہو سکتا تو انتہائی عجلت میں پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلاکر بل لاکر اسے منظور کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ ماہرین کے مطابق ملک کی سیاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی میں وزیراعظم کے ذریعے لیے جانے والے فیصلے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ نریندر مودی ہر اس معاملے کی سمت قدم بڑھاکر اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے رہے ہیں جو بی جے پی کو فیض پہنچانے کے ساتھ پارٹی کی کامیابی کی ضمانت بھی ہو۔
نسوانی قوت کے لیے پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ 1996 میں ایچ ڈی دیوے گوڑا کے دور قیادت میں خواتین ریزرویشن بل پیش کیا گیا۔ اس کے بعد 1998 میں اٹل بہاری واجپئی کے دوراقتدار میں اسے لایا گیا لیکن حلیف جماعتوں کے تعاون نہیں کرنے سے بل منظور نہیں ہوا۔ 1999 میں بھی یہ کوشش ناکام رہی۔ 2004 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور اقتدار میںیہ بل لایا گیا لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ 2010 میں اسے پھر پیش کیا گیا۔ بی جے پی اور بائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت سے یہ ایوان بالا میں تو منظور ہو گیا لیکن ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل جیسی حلیف پارٹیوں کی مخالفت کی بنا پر بل ایوان زیریں میںمنظور نہیں ہو سکا۔ مرد اساس معاشرے میں درج فہرست ذات، قبائل اور او بی سی کوٹے کے مطالبے کے باوجود بل کی منظوری کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ ایوان میں کبھی مائک توڑے گئے، تو کبھی بل کی کاپیاں پھاڑی گئیں لیکن اس مرتبہ ایسانہیں ہوا ۔ تمام سیاسی جماعتوں کی نگاہیں عام انتخابات 2024 پر لگی تھیں۔ کوئی بھی پارٹی خواتین کو ناراض کرکے خواتین ووٹ بینک سے محروم ہونے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی۔ اگر پارلیمانی انتخاب میں کئی برس کا وقت ہوتا تو کچھ جماعتیں کوئی نہ کوئی حیلہ بنا کر رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتیں مگر موجود وقت میں ایسا کرنا ممکن نہیں تھا اور اسی لیے خواتین ریزرویشن بل آسانی سے پاس ہو گیا، البتہ اس کے نفاذ میں وقت لگے گا۔n
[email protected]