مسلم خواتین کیلئے ریزرویش کا التزام نہ ہونا باعث تشویش: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

0

علی گڑھ: خاتون ریزرویشن ایکٹ میں دلتوں اور مسلم خواتین کے لیے ریزرویش کا نہ ہونا باعث تشویش ہے، کیونکہ مذکورہ ایکٹ سے صرف خواتین کا ایک طبقہ ہی مرکزی دھارے میں شامل ہو سکے گا اور اقلیتیں پھر محروم رہ جائیںگی۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کیا۔ وہ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میں ’شریعت اسلامی کی معنویت‘موضوع پرشریک اجلا س ہوکر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کی حالیہ ناری شکتی وَندن ادھینیم کو نافذ کرنے کے ہم خلاف نہیں ہیں،لیکن اس میں سماج کے تمام طبقوں کے لیے ریزرویشن ہونا چاہیے بالخصوص دلتوں اور مسلمانوں کے لیے، ورنہ اس میں صرف ایک طبقے کی عورتیں ہی آسکیں گی، دوسرے طبقوں کی خواتین مرکزی دھارے میں شامل نہ ہو سکیں گی،انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ دلتوں اور مسلمانوںکو اس میں شامل کرتے ہوئے قانون بنایا جائے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خواتین کی عزت اور وقار کا تحفظ اس ریزرویشن سے زیادہ اہم ہے۔حکومت خواتین کو نوکریوں میں ریزرویشن تو دے رہی ہیں، لیکن آج بھی لڑکیاں اپنے دفتر جاتے ہوئے خوف محسوس کر رہی ہیں، اگر ایسا ہے تو ظاہر ہے کہ اس ریزرویشن سے انہیں کیا فائدہ ہو گا۔رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کے ساتھ پیش آئے حادثہ پر انھوںنے کہا کہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے اپنے کسی ساتھی کی توہین نہیں کی ہے بلکہ اس ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور ملک کی رسم و رواج اور اس کی روایت کی توہین کی ہے، جس سے پوری دنیا میں ہندوستان بدنامی کا سبب بنا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کو ان کی مذکورہ حرکت کیلئے معطل کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے بھی کم جرائم پر لوگوں کو معطل کیا گیا ہے، ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی رہی ہے۔انھوںنے ہم جنس پرستی کے تعلق سے کہا کہ ہماری حکومت نے وہی رویہ اختیار کیا ہے جو مغربی ممالک میں رائج ہے۔انھوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ پیسے سے پیسہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ انسانی محنت سے ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم جنس پرستی کو تمام مذہبی کتابوں میں ممنوع قرار دیا گیا ہے ،لہٰذا ضرورت ہے کہ ہمارا ملک بھی ان قدروں کی پاسداری کرے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے یکساں سول کوڈ کے تعلق سے کہا کہ جس ملک میں متعدد مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور ان کی ثقافتی مذہبی قدریں مختلف ہیں ایسے میں ان کے لیے یکساں سول کوڈ مناسب نہیں ہے۔ انھوں نے امریکہ کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہاں آج تک یکساں سول کوڈ نافذ نہیں کیا جاسکا، تو ہمارے ملک کو کیا ضرورت ہے۔انھوںنے کہا ہمارے دستور میں واضح کیا گیا ہے کہ ہرشخص کو اپنی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے قانون پر عمل کرنا ہے تو اس تناظر میں ہم اسکے خلاف ہیںاور مخالفت کرتے ہیں اور صرف ہم لوگ ہی مخالفت نہیں کررہے ہیں بلکہ سکھ کمیونٹی اور بودھ کمیونٹی بھی اسکی مخالفت کررہی ہے۔

مزید پڑھیے:

آئی ایس آئی کے لئے جاسوسی کرنے والے شیلیش کمار کو یوپی اے ٹی ایس نے گرفتار کیا

انھوں نے کہا کہ آج ملک کا مسئلہ یکساں سول کوڈ نہیں ہے بلکہ بے روزگاری اور مہنگائی ہے ،ہماری کرنسی بے قیمت ہوتی جارہی ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل مولانا خالف سیف اللہ رحمانی نے موضوع کی مناسبت سے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے موضوع ’شریعت اسلامی کی معنویت‘ کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا اور شعبہ دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مباکباد پیش کی کہ انھوںنے اس اہم موضوع کا انتخاب کیا اور یہاں یہ جلسہ منعقد کیا۔خطاب کے بعد مولانا نے شعبہ کے طلبا سے بھی ملاقات کی اور کئی اہم تعلیمی موضوعات پر انھیں مفید مشوروں سے بھی نوازا۔انھوںنے مولانا تقی امینی اور مولانا امین اثری کا بھی ذکر کیا۔جلسہ میں معروف عالم دین پروفیسر سعود عالم قاسمی، شعبہ دینیات کے صدر پروفیسر محمد حبیب اللہ قاسمی، پروفیسر توقیر عالم فلاحی، پروفیسر محمد راشد، ڈاکٹر شائستہ پروین، ڈاکٹر ندیم اشرف، ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی ،ڈاکٹر عبیدا قبال عاصم کے ساتھ بڑی تعداد میں دیگر اساتذہ اور طلبا وطالبات موجود رہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS