عبدالسلام عاصم
ارتقاء پذیر انقلابی تاریخ میں پہلی بار دو نسلیں ایک ہی عہد کی صرف گواہ نہیں بلکہ نمائندگی بھی کر رہی ہیں۔ ہم اور ہمارے بالغ بچے اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی ترقی کے موجودہ عہد کو سرگرم طور پر جی رہے ہیں۔ ہمارا مشترکہ عہد زمانے کی رفتار میں اُس تیزی کا پہلی بار مشاہدہ کر رہا ہے جسے پہلے کبھی کسی نسل نے نہیں دیکھا۔ اس طرح انٹرنیٹ، موبائل، کمپیوٹر، جی پی ایس، روبوٹ اور مصنوعی ذہانت کے جاری سفر کا موجودہ مرحلہ ایک ساتھ دو نسلوں کو انگیج کیے ہوئے ہے۔ ان میں سے جس نسل نے ایجادات کے ڈگمگاتے اور سنبھلتے دونوں قدموں کا مشاہدہ کیا، وہ اب اپنے بالغ اور سرگرم عمل بچوں کے ساتھ اس برق رفتاری کو مزید آگے بڑھانے میں ہم قدم ہے اور ہر آنے والے کل کو زبردست ٹرانسفارمیشن کے نئے موڑ سے گزارتا دیکھ رہی ہے۔
اس وقت ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں/ معاشروں میں تین طرح کی نئی نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ ایک وہ خوش نصیب ہیں جو اپنے پیش رو نسل کے نمائندوں سے ہر وہ تحریک حاصل کر رہی ہیں جو حیات رخی ہیں۔ اس نسل کے نزدیک زندگی سے زیادہ کوئی بھی چیز لائقِ احترام نہیں۔ یہ نئی نسل نہ ماضی گرفتہ ہے، نہ ماضی گزیدہ۔ یہ حال کو مستقبل کی بساط سمجھتی ہے اور اسی مطابقت سے پیش آتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
دوسری جانب پسماندہ معاشروں میں نئی نسل کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی راہ میں ایک سے زیادہ منازل طے کرنے کی سہولتوں کے بجائے ایسے مسائل اور دشواریوں کا سامنا ہے جو ان کی اپنی پیدا کردہ نہیں۔ اُن کے ہمراہ اُن کی پیش رو نسل وہ ہے جو مسائل اور پریشانیاں ڈھوتی آئی ہے اور اُن سے دوٹوک نجات کی کو شش کبھی نہیں کی، بس شکایتیں کرتی رہی اور ہر نقصان کا رونا روتی رہی۔ تیسری طرف ترقی پذیر معاشرے میں بھی سب خیریت نہیں، وہاں بھی نئی نسل کے پیش رو بدستورماضی گزیدہ ہیں، لیکن اِن ماضی گزیدگان میں سب کے سب ’’ماضی گرفتہ‘‘ نہیں، ان میں سے کچھ اب تبدیلی کے رُخ پر متحرک بھی ہوئے ہیں۔ اِن میں ایک متحرک حلقہ جہاں ناصحانہ طریقے سے نئی نسل کی رہنمائی کر رہا ہے، وہیں کچھ روشن خیال لوگ ایک قدم اور آگے بڑھ کر اپنے بچوں کو نفرت اور بیگانگی کی اُس وراثت سے دو ٹوک عاق کر رہے ہیں، جسے وہ کسی نہ کسی شکل میں اب تک ڈھوتے آئے ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ عصری منظرنامے کو آنے والی دہائیوں میں یہی بیداری انقلاب آفریں بنائے گی۔ نئے منظرنامے میں استدعائیت اور با شہادت علم میں ایک توازن پیدا ہوگا جو مشرقی معاشرے کو مجموعی پسماندگی سے باہر نکالے گا۔ موجودہ عہد میں نئی نسل کو کیا معرکے اور خدشات درپیش ہیں اور آخر الذکر یعنی خدشات کا سد باب کیا ہے! ان باتوں پر اب صرف کتابی غور سے کام نہیں چلے گا۔ اس کی دوٹوک وجہ یہ ہے کہ عصری مواصلاتی دور میں دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اب کسی کے پاس ٹھہر کر وعظ و نصیحت سننے کی فرصت نہیں۔ سائنس کی جدید ترقی نے تبدیلیوں کے ساتھ چلنے اور حسب ضرورت دوڑنے کی وہ تحریک دی ہے کہ اس میں بس فطری ضرورتوں کیلئے لمحاتی ٹھہراؤ کی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔ نئے رجحانات اور جدت طرازیاں تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔ ایسے میں ہندوستان اور دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے ترقی پذیر اور پسماندہ دونوں معاشروں کی نئی نسل کو درپیش سب سے اہم معرکہ تعلیم مکمل کرنے کا کرنا ہے۔
انسان کو باشعور بنانے میں کسی یقین سے کہیں زیادہ اہم کردار تعلیم اداکرتی ہے۔ صنعتی، ٹیکنالوجیائی، برقی اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے دور سے آگے نکلتے ہوئے موجودہ اشارہ جاتی روبوٹک اور مصنوعی ذہانت کے مشینی دور میں ہر طرح کی تکنیکی تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے، جس سے ہم میں سے کسی میں انکار کی جرأت نہیں۔ اس کلیدی تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد ہی عصری تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور انسان اپنی صلاحیتوں میں وہ نکھار پیدا کر سکتا ہے جو اسے سوچنے اور سمجھنے کی دنیا میں اجنبی بنے رہنے سے بچائے۔ اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ خدا نے انسانوں کو کائنات کی تسخیر کیلئے ہی پیدا کیا تھا اور اس خدائی مقصد کی انسانوں کے ذریعہ تکمیل ہی اصل عبادت ہے۔
حسبِ سابق آج بھی تعلیم کا ایک اہم رشتہ روزگار سے جڑا ہوا ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ مناسب تعلیم مناسب روزگار دلاتی ہے اور یہ سچ آج بھی اپنی جگہ ہے، لیکن اس میں ایک فرق یہ آیا ہے کہ تعلیم اب صرف ڈگری رُخی نہیں رہی۔ اب اس کا براہ راست تعلق ’’علم‘‘ سے قائم ہوگیا ہے۔ ڈگری یافتہ پڑھا لکھا کہلانے والا مقرر سماں تو باندھ سکتا ہے، چندریان کو چاند کے قطب جنوبی پر نہیں اتار سکتا۔ یعنی ایک سے زیادہ اندیشوں کو پار کرتے ہوئے امکانات کے وہ در نہیں کھول سکتا جو ابھی کل تک پریوں کی کہانیوں کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ڈگریوں کی تعلیم نے علم کو فروغ دینے کے بجائے زائد از ایک حلقوں میں نقل کرنے کے کلچر کو پروان چڑھایا تھا۔ اس کلچر پر جان دینے والوں نے ہر نئی ایجاد کو اس کام کے لیے استعمال کیا۔ امتحان گاہوں میں کون لکھ رہا ہے اور کون نقل کر رہا ہے، یہ پکڑنا آسان نہیں رہ گیا تھا۔ یہاں تک کہ بعض امتحانات کیلئے ضابطے بنائے گئے کہ امیدوار نہ صرف کوئی برقی آلہ بشمول موبائل لے کر نہیں آئے گا بلکہ کپڑے بھی ایسے پہنے گا جن میں خفیہ جیبوں اور ان میں چپس جیسے آلات نصب کرنے کی گنجائش موجود نہ ہو۔
ایسے امتحانات سے کامیاب گزرنے والے نقلچی اپنے اس انفرادی ہنر کو ہی فروغ دیتے ہیں۔ وہ کسی اجتماعی ترقی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ بدقسمتی سے پسماندہ معاشرے میں یہ صورتحال آج بھی شدید ہے۔ترقی پذیر معاشروں میں کہیں سست تو کہیں تیز رفتار سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ خوش قسمتی سے وطن عزیز ہندوستان اس محاذ پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بصور ت دیگر یہاں بھی جو حلقے نظریاتی تشدد پر یقین رکھتے ہیں، وہ پسماندہ ہمسایوں کی رقابت میں کئی قدم آگے بڑھ گئے ہوتے۔
گزشتہ دنوں نئی نسل کے بعض نمائندوں سے ملاقات اور بات چیت میں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دو نوجوان اب جب آپس میں اختلاف کرتے ہیں تو ان کا یہ اختلاف کسی قسم کی دوری پیدا نہیں کرتا بلکہ فکر کی نئی شاخیں نکالتا ہے۔ میں نے ایسی ہی ایک بحث کی شدت کم کرنے اور چائے ناشتے کی گنجائش نکالنے کیلئے یہ شعر سنا دیا کہ: دنیا داری ہی دین داری ہے/ باقی منقول از بخاری ہے۔ میری اس مداخلت نے توقع سے زیادہ کام کیا اور سبھی اس بات پر متفق ہو گئے کہ دینی مدارس کی بنیاد فقط دینی تعلیم کیلئے نہیں رکھی گئی تھی۔ گویا یہ مان لیا گیا کہ علم دین اور دنیا دونوں کیلئے ہے اور اگر ایسا ہے تو فہم سے بالا کسی بات پر صرف روایت کی بنیاد پر اڑنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ خوشگوار بات چیت میں ایک نوجوان نے کہا کہ وہ تو بڑوں کی بعض ممانعت والی وارننگ کے برعکس عمل کر کے بھی اس سے اپنے طریقے سے استفادہ کرتا ہے۔ میں نے پوچھا مثلاً! تو جواب ملا کہ والد صاحب نے کہا تھا کہ محفل میں کھانا کھاؤ تو اپنی پلیٹ پر توجہ دو، دوسرے کی پلیٹ میں نہ جھانکو۔ حسب نیت ان کی بات درست تھی، لیکن میں نے دوسروں کی پلیٹوں میں جھانک کر ہی پلیٹ زیادہ بھرنے، کھانا ضائع کرنے اور غلط طریقے سے کھانے کی عادتوں سے بچنے کی عملی تحریک حاصل کی ہے۔ ایک سے زیادہ قہقہوں کے ساتھ نہایت امید افزا ماحول میں باتوں کا سلسلہ ختم ہوا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]