خواتین ریزرویشن بل ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا۔پرانی پارلیمنٹ میں اس بل کو کئی حکومتوں نے اپنے دور میں پاس کرانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہیں،ایک بار پھر اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ یہ ایک ایسا بل ہے، جسے پرانی پارلیمنٹ کے آخری دن انیکسی میں ہوئی مرکزی کابینہ کی میٹنگ میں منظوری دی گئی اورنئی پارلیمنٹ میں پیش ہونے والا پہلابل یہی ہے۔اس طرح اس بل کے ساتھ نئی اورپرانی دونوں پارلیمنٹ کی یادیں جڑی رہیں گی۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے آغاز کے بعد ایجنڈے میں اچانک خواتین ریزرویشن بل آنے پر سبھی کو حیرت ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے مانگ ہورہی تھی،لیکن سرکار خاموش تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ بل پر کام پہلے سے خاموشی سے چل رہاہوگا، تبھی یہ ممکن ہوسکا۔مرکزی حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل منظور کراسکے، اسے اپوزیشن پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل ہوگی، جیساکہ اپوزیشن لیڈروں کے بیانات سے ظاہر ہورہا ہے۔ماضی میں اس بل پر جوہنگامے ہوتے رہے، وہ تو کسی نہ کسی پہلو سے ہوں گے،لیکن بل کو منظورکرانے میں شاید ہی کوئی پریشانی ہو۔جب وہ متنازع بلوں کو آسانی سے منظور کرالیتی ہے تو خواتین ریزرویشن بل کیوں نہیں منظورکراسکتی۔
پنچایتوں اوربلدیاتی اداروں میں خواتین کو ریزرویشن مل گیا۔ وہاں روٹیشن کے حساب سے انتخابات میں خواتین کیلئے نشستیں ریزرورہتی ہیں،جن پر صرف خواتین ہی الیکشن لڑتی ہیں، لیکن پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں گزشتہ 27برسوں سے یہ بل زیرالتوا ہے اوراس بار امیدکی جارہی ہے کہ یہ پاس ہوجائے گا۔یہ بل سب سے پہلے دیوے گوڑا سرکار نے 12ستمبر 1996کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا،لیکن منظور نہیں ہوسکا، پھر واجپئی سرکار نے 13 جولائی 1998 میں پیش کیا تھا،اس وقت بل کی کاپی لوک سبھا میں پھاڑدی گئی تھی۔اس کے 10 سال بعد منموہن سنگھ سرکار نے 2008 میں راجیہ سبھا میں پیش کیا اوروہاں سے پاس ہوگیا، لیکن لوک سبھا سے پاس نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ پھنس گیا،پھر منموہن سنگھ سرکارنے 2010میں لوک سبھامیں پیش کیا، لیکن ہنگامہ آرائی کی وجہ سے پا س نہیں ہوسکا۔اس کے بعد 13برسوں تک معاملہ ٹھنڈے بستے میں رہا۔ہر الیکشن میں اس کی بازگشت سنائی ضرور دیتی تھی، لیکن وہ بل مرکزی کابینہ یا پارلیمنٹ تک نہیں پہنچتا تھا۔اب مودی سرکارنے قدم آگے بڑھایا ہے۔ بتایاجاتاہے کہ بل میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے 33 فیصد نشستوں کے ریزرویشن کو یقینی بنانے کاالتزام ہے۔ 33 فیصد کوٹہ کے اندر ایس سی، ایس ٹی اور اینگلو انڈینس کیلئے ذیلی ریزرویشن کی بھی تجویز ہے۔ پنچایت اوربلدیاتی انتخابات کی طرح لوک سبھااوراسمبلی انتخابات میں سیٹوں کو ریزرو کرنے میں روٹیشن کاضابطہ چلے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خواتین ریزرویشن کی مدت 15سال ہوگی۔ اس کے بعد یہ ختم ہوجائے گا۔یہ بھی غور طلب ہے کہ مخصوص مدت کیلئے ریزرویشن دیا جارہا ہے۔ کیا 15 سال ریزرویشن دے دینے سے خواتین مردوں کے برابر ہوجائیں گی ؟
آئندہ 5ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوں گے، ان کے بعد لوک سبھاانتخابات ہوں گے۔ کیا ان انتخابات سے پہلے خواتین کو ریزرویشن دے دیا جائے گا؟ کانگریس کا کہناہے کہ بل کانفاذ ابھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ واجپئی سرکارنے یہ قانون بنایا تھاکہ 2026کے بعد جب پہلی مردم شماری ہوگی اوراس کے اعداد و شمار سامنے آجائیں گے، اس کے بعد حدبندی کاکام ہوگا۔بتایاجاتاہے کہ بل میں حدبندی کے بعداس کے نفاذ کی بات کہی گئی ہے۔ابھی 2021 والی مردم شماری نہیں ہوئی ہے اورمستقبل قریب میں بھی نہیں ہونے والی۔ اس کے بعد 2031کی مردم شماری کا نمبر آئے گا۔اسی لیے کہا جارہاہے کہ 2024کیا 2029 کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے خواتین کو ریزرویشن ملنامشکل ہے۔ ایک اوربات ہے کہ لوک سبھا میں اس وقت 82خواتین ہیں، موجودہ نشستوں کے حساب سے 181سیٹیں خواتین کیلئے ریزروہوجائیں گی۔کوٹہ کے اندرکوٹہ چلے گا۔ ایس سی کی 84میں سے 28اورایس ٹی کی 47میں سے 16سیٹیں خواتین کیلئے ریزروہوں گی۔باقی 412 سیٹوں میں سے جنرل اور اوبی سی خواتین کیلئے 137 سیٹیں ریزروہوں گی۔اوبی سی کیلئے پہلے بھی لوک سبھامیں سیٹیں ریزرو نہیں تھیں اوراب خواتین ریزرویشن میں بھی ان کیلئے سیٹیں ریزرو نہیں ہوں گی،جبکہ ماضی میں بل کی منظوری میں سب سے بڑی رکاوٹ سب کوٹے میں اوبی سی اوراقلیتی خواتین کو ریزرویشن نہ ملنا ہی تھی۔ اس طرح یہ مسئلہ اب بھی حل طلب رہے گا۔
[email protected]
خواتین ریزرویشن بل
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS