صحافت کو داغدار کرنے کی کوشش

0

شاہد زبیری
صحافت جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جا تا ہے وہ صحافت جس نے ہمیں انگریزی سامراج سے آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کیا وہ صحافت جو بے آوازوں کی آواز تھی،مظلوموںکی ڈھارس ، کمزوروں کا سہارا تھی ،وہ صحافت جس نے اپنے طے شدہ اصولوں اور سیکولر اقدار کی حفاظت کیلئے فرقہ پرستی کو بے نقاب کیا ،جس کا سماج میں اعتماد تھا، اعتبار تھا ،جو اقتدار وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرتی تھی، آج اقتدارکی دہلیز پر سجدہ ریز ہو گئی اور سرمایہ داروں ومنافع خوروں کی کنیز بن گئی ہے ، مشن سے پروفیشن ہو گئی ۔ صحافیوں کے ایک طبقہ نے اقتداروقت کی ایماء پر صحافت کو نفرت کا کاروبار اور صحافت کو داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ آج ہماری صحافت کی عوام کی نگاہ میں کچھ ایسی ہی تصویر بنادی گئی یا بن گئی ہے۔ پرنٹ میڈیا سے زیادہ الیکٹرانک میڈیا اور اس کے اینکروںنے اس میں نمایاں کردار اداکیا ہے، صحافت کو داغدار کرنے والے کیا ایسے اینکر اور صحافی بے نقاب نہیں ہونے چاہیے سوال یہ ہے ؟سوال یہ بھی ہے کہ آزادی کا مطلب یہ کب سے ہوگیا کہ آپ کی چھڑی کی زد میں دوسرے کی ناک بھی آجائے، اظہار آزادیٔ کی جگہ گالی گفتارلے لے، اقلیتوں کی دل آزاری روز آنہ کا معمول بن جائے اور نفرت کازہر سماج کی نسوں میں دوڑ نے لگے اور یہاں تک کہ آئین کی حرمت خطرہ میں پڑجائے ۔’انڈیا ‘نے 14اینکروں کو بے نقاب کر کے اور اس بحث کو چھیڑ کرصحافت پر ہی نہیں اس ملک پر بھی احسان کیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر عوام کا ایک طبقہ الیکٹرانک میڈیا کے اس وطیرہ کی وجہ سے ٹی وی چینل دیکھنا بند کردے یا کوئی اخبار پڑھنا بند کردے تو کیا اس کو آزادئی اظہار اور جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملہ قرار دے یا ناظرین کا پسند اور نا پسند کا جمہوری حق مانا جائے؟ بی جے پی اپنے میڈیا ترجمانوں کو اپنے ناپسندیدہ ٹی وی چینلوں پر جانے سے کیوں روکتی رہی ہے؟ ابھی زیادہ دن کی بات نہیں جب حکمراں جماعت بی جے پی نے این ڈی ٹی وی کے روش کے پرائم ٹائم شو میں جانے سے روک دیا تھا ،انگریزی کے معروف صحافی کرن تھا پر کے انٹرویوکے درمیان آخر مودی جی مائک اتار کر کیو ں چلے گئے تھے ۔ اطلاعات کے مطابق آج بھی بی جے پی تمل ناڈو کے کئی ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم شو میں اپنے ترجمان نہیں بھیجتی ۔ہماری نظر میں جمہوریت میں پسند یا نا پسند کا یہ اختیار جتنا بی جے پی کو ہے اتنا اختیا ر ’انڈیا‘کو بھی ہے ،ا س نے اسی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے 14 اینکروں کے شو میں نا جا نے کا فیصلہ کیا ۔خبر ہے کہ ’ انڈیا‘ ایسے ہی 10اور اینکروں کی لسٹ جاری کرنے والا ہے۔آخراس فیصلہ سے بی جے پی کیوں چراغ پا ہے؟ٹی وی اسکرین پر سمت پاترا کیوں ہائے توبہ مچا رہے ہیں ؟سوائے بی جے پی کے کوئی دوسری جماعت جو ’یوپی اے ‘ یا ’انڈیا‘ میں شامل نہیں ہے وہ تو ان اینکروں کی حمایت میں آگے نہیں آئی۔ لگتا ہے کہ ’ انڈیا‘نے نفرت کا کاروبار کرنے اور صحافت کو داغدار کرنے والے اینکروں کے شو میں نہ جانے کا فیصلہ لے کر بی جے پی اور ان اینکروں کی نفرت کی پائپ لائن میں پنکچر کر دیا ہے اور ’سناتن ‘کے نام پر بی جے پی نے ٹی وی پر ’ انڈیاکو گھیرنے کا جو منصوبہ بنا یا تھا اس کو ناکام کردیاہے ۔ کاش اپوزیشن جماعتیں یہ کام پہلے کرتیں تو ٹی وی چینلوں پر روز آنہ 24گھنٹہ نفرت کی جو گرم بازاری ہے اور ہندو مسلم کا جو کھیل کھیلا جا رہا تھا اس کا دائرہ اتنا وسیع نہ ہوتا۔ قارئین کو یاد دلادیں یہ پہل جو ’ انڈیا ‘ نے آج کی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس سے پہلے کرچکا ہے، جب ایک ٹی وی چینل پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے میڈیا ترجمان اور ایک سپریم کورٹ کی خاتون وکیل کے درمیان مسلم خواتین کے مسئلہ پر ہاتھا پائی تک کی نوبت آگئی تھی یہ اور بات ہے کہ اس شرمناک واقعہ کے بعد بھی علماء کے لبادہ میں کچھ پیشہ ورغیر علماء اس طرح کے چینلوں کی زینت بنتے رہے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ پاکستانی نژاد کنا ڈا میں رہنے والے نام کے مسلم شہری کے نام پر ایک ٹی وی چینل نے ’فتح کا فتویٰ‘کے نام کا شو شروع کیا اور اسلام کی شبیہ مجروح کی، اس پروگرام میں بھی علماء کے لبادہ میں غیر علماء اسلام کی رسوائی اور مسلمانوں کی جگ ہنسائی کراتے رہے ۔کچھ ایسا ہی معاملہ زرعی قوانین کیخلاف سڑکوں پر اترنے والے اور دہلی کا گھیرائو کرنے والے کسانوں کا ہے، ان کے ساتھ بھی اینکروں نے وہی سلوک کیا جو مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ وہ کرتے ر ہے ہیں کسانوں کی اس تحریک کوان اینکروںنے کبھی خالصتانی اور کبھی دہشت گرد بتاکر بدنام کرنے اور شبیہ کو داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، لیکن کسانوں نے میدان نہیں چھوڑا ایسے نام نہاد چینلوں کا علی الا علان بائیکاٹ کیا اور لکھ کر ٹانگ دیا کہ ’گودی میڈیا گو بیک‘ ۔کیا یہ جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملہ تھا اور کیا یہ اظہارآزادی پرقدغن تھا ؟ اس وقت نہ تو گودی میڈیا نے اس کو اظہارِ رائے کی آزادی اور جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملہ قرار دیا تھا اور نہ پریس کی آزادی کی حفاظت کی دعویدار تنظیمیں اور بی جے پی حمایت میں سینہ سپر ہوئی تھی اب آخر ایسا ’انڈیا ‘نے کیا کردیا اگر اس نے 14اینکروں کے پروگراموں میں اپنے میڈیا ترجما نوں کی جانے پر پابندی لگادی، اس پابندی کو ’انڈیا‘نے بائیکاٹ کانام نہیں دیا اس کو عدم تعاون بتایا۔ ’انڈیا‘کو شکایت ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے یہ 14اینکر اپنے پرائم ٹائم شو میںسرکار سے سوال پوچھنے کی بجائے صرف اپوزیشن جماعتوں سے سوال کرتے رہے ہیں اور اپوزیشن کوہی کٹہرے میں کھڑا کررہے ہیں اور عوام کے جو بنیادی ایشوز ہیں سرکار سے اس پر سوال نہیں پوچھتے ہیں جو ان کی اصل ذمہ داری ہے، اپوزیشن جماعتوں کے میڈیا ترجمانوں کو پرائم ٹائم شو میں بلاتے ہیں تو ان کو بولنے نہیں دیا جا تا کیمرہ ہٹا دیا جاتا ہے یا مائک بند کردی جا تی ہے، جبکہ بی جے پی کے ترجمانوں اور ان کے ہمدردوں کو کھلی چھوٹ ہوئی تھی کہ وہ اپوزیشن پر جم کر حملہ بولتے رہیں۔ انہوں نے عوام میں اپوزیشن کو ملک کا غدّار ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیںچھوڑی تھی ۔ ’انڈیا‘کو اصلی شکایت تو ان اینکروں سے یہ ہے ۔لگے ہاتھوں ’انڈیا‘ نے نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کے مسئلہ کو بھی چھیڑ دیا اور ہندو مسلم کا کھیل کھیلنے کی بھی شکایت کی ہے، لیکن یہ کام یہ اینکر صرف 2014 سے نہیں اس سے پہلے اپوزیشن سرکاروں میں بھی کرتے رہے ہیں یہ ضرور ہے کہ 2014کے بعد اس میں شدت آئی ہے۔ ایک چینل تو یوپی ایس سی کے امتحان میں اپنی محنت سے کا میاب ہونے والے مسلم نوجوانوں پر یو پی ایس سی جہاد کا الزام لگا تا رہا ، دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کا حلف دلانے والوں میں اس کا مالک پیش پیش ریا ۔لو جہاد ،لینڈ جہاد، تین طلاق اور کثرتِ ازدواج کے نام پر اسلام پر حملے کرنے کا یہ کام دوسرے چینلوں پر بھی جاری رہا اور آج بھی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ جو قدم آج اٹھا یا وہ قدم اپوزیشن جماعتوں نے گودی میڈیا اور اس کے اینکروں کے خلاف پہلے کیوں نہیں اٹھا یا، تب کیوں نہیں بولے، اب تک ان کے منہ میں بھی کیوں دہی جمی رہی؟ ۔ ‘انڈیا’ سے بھی یہ سوال تو پوچھا ہی جا نا چاہئے ؟ ’انڈیا‘کی طرح ملک سے محبت کرنے والا ہر شخص چاہتا ہے کہ جمہوریت کو بچا یا جائے اور جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والی صحافت کو داغدار کرنے اور نفرت کا کاروبار کرنے والے والے صحافیوں کو بے نقاب کیا جا نا ضروری ہے تو صرف اینکر یاصحافی پر ہی پابندی کیوں چینلوںکے مالکان اور ایڈیٹر س کیوں نہیں؟۔ آ خر روش کمار ، پرفل باجپئی ،ابھیسار شرما ، اجیت انجم اور عارفہ خانم شیروانی جیسے نامی گرامی اینکر اورصحافیوں کوکیوں چینل چھوڑ نے مجبور کیا گیا یا نکالا گیا جو بھی ہے، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ان لوگوں کو اس لیے نشانہ بنا یا گیا کیونکہ ان لوگوں نے نفرت کی اس سوداگری اور صحافت کی اس درگتی کیلئے حکمرانوں کا ٹول اورمالکان کی کٹھ پتلی بننے سے انکار کردیا تھا ۔ ایسے اور بھی اینکر اورصحافی ہیں جوا ندھیرے میں اجالے کی کرن اورصحافت کی آبرو ہیں اور صحافتی اقدار کے محافظ ہیں ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS