محمد نجیب قاسمی سنبھلی
وصیت کیا ہے: کوئی شخص انتقال کے وقت یہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائداد میں سے اتنا مال یا اتنی زمین فلاں شخص یا فلاں دینی ادارہ یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ کو دے دی جائے تو یہ وصیت کہلاتی ہے۔ وصیت کو دو گواہوں کی موجودگی میں تحریر کرنا چاہئے تاکہ بعد میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ میں وصیت کا قانون بنایا گیا ہے تاکہ قانون میراث کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں حصہ نہیں پہنچ رہا ہے اور وہ مدد کے مستحق ہیں مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت زدہ ہے یا کوئی بھائی یا بہن یا کوئی دوسرا عزیز سہارے کا محتاج ہے تو وصیت کے ذریعہ اس شخص کی مدد کی جائے۔ وصیت کرنا اور نہ کرنا دونوں اگرچہ جائز ہیں لیکن بعض اوقات میں وصیت کرنا افضل وبہتر ہے۔
ایک تہائی جائیداد میں وصیت کا نافذ کرنا وارثوں پر واجب ہے، یعنی مثلاً اگر کسی شخص کے کفن دفن کے اخراجات، دیگر واجبی حقوق اور قرض کی ادائیگی کے بعد ۹ لاکھ روپئے کی جائیداد بچتی ہے تو ۳ لاکھ تک وصیت نافذ کرنا وارثین کے لئے ضروری ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کرنے اور نہ کرنے میں وارثین کو اختیار ہے۔کسی وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کے لئے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت سے محروم رکھے گا (کچھ عرصہ کے لئے)۔
انتقال کے بعد ترکہ (جائداد یا رقم) کی تقسیم صرف اور صرف وراثت کے قانون کے اعتبار سے ہوگی۔ ابتداء اسلام میں جب تک میراث کے حصے مقرر نہیں ہوئے تھے، ہر شخص پر لازم تھا کہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کرے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کا حق مارا جائے۔ لیکن جب بعد میں تقسیم وراثت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اصول وضوابط بنادئے جن کا ذکر سورۃا لنساء میں ہے تو پھر وصیت کا وجوب ختم ہوگیا، البتہ دو بنیادی شرائط کے ساتھ اس کا استحباب باقی رہا۔ ۱) جو شخص وراثت میں متعین حصہ پارہا ہے اس کے لئے وصیت نہیں کی جاسکتی ہے، مثلاً ماں، باپ، بیوی، شوہر اور اولاد۔ جیساکہ حضور اکرم ؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابۂ کرام کے مجمع کے سامنے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کا حصہ مقرر کردیا ہے، لہٰذا اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں مزید وضاحت موجود ہے کہ میراث نے ان لوگوں کی وصیت کو منسوخ کردیا جن کا میراث میں حصہ مقرر ہے، دوسرے رشتہ دار جن کا میراث میں حصہ نہیں ہے، اُن کے لئے حکم وصیت اب بھی باقی ہے۔ ۲) وصیت کا نفاذ زیادہ سے زیادہ ترکہ کے ایک تہائی حصہ پر نافذ ہوسکتا ہے۔ الا یہ کہ تمام ورثاء پوری وصیت کے نفاذ پر راضی ہوں۔ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جن رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، اب ان کے لئے بھی وصیت کرنا فرض ولازم نہیں ہے،کیونکہ فرضیت وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ یعنی بشرطِ ضرورت وصیت کرنا مستحب ہے۔
وصیت کی مشروعیت قرآن کریم سے:
۱) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑکر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آجائے، وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔ یہ متقی لوگوں کے ذمہ ایک لازمی حق ہے۔ پھر جو شخص اس وصیت کو سننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا، تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جو اس میں تبدیلی کریں گے۔ یقین رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔ ہاں اگر کسی شخص کو یہ اندیشہ ہوکہ کوئی وصیت کرنے والا بے جا طرف داری یا گناہ کا ارتکاب کررہا ہے اور وہ متعلقہ آدمیوں کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
وصیت کا لازم اورفرض ہونا ، یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ وراثت کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وصیت کا حکم بتدریج نازل فرمایا۔ غرضیکہ مذکورہ بالا آیت میں وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے، البتہ استحباب باقی ہے۔
۲) اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں جہاں وارثوں کے متعین حصے ذکر فرمائے ہیں، متعدد مرتبہ اس کا ذکر فرمایا: ’’یہ ساری تقسیم اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہے، یا اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد‘‘۔ سورۃ النساء میں متعدد مرتبہ وصیت کے ذکر سے وصیت کی مشروعیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ ۳) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کے لئے گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں) یا اگر تم زمین میں سفر کررہے ہو، اور وہیںتمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں (یعنی غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہوجائیں ۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضر کے ساتھ سفر میں بھی وصیت کی جاسکتی ہے اوروصیت کرتے وقت دو امانت دار شخص کو گواہ بھی بنالیا کرو تاکہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔
وصیت کی مشروعیت حدیث نبوی سے: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جس کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی چیز ہو، درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کئے بغیر گزاردے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء نے کہا ہے کہ اس سے مرادایسا شخص ہے جس کے ذمہ قرضہ ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو یا اس کے ذمہ کوئی واجب ہو جسے وہ خود ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے لئے وصیت میں یہ تفصیل لکھ کر رکھنا ضروری ہے، عام آدمی کے لئے وصیت لکھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔
وصیت کی مشروعیت اجماع امت سے: قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا وصیت کے جواز پر اجماع ہے، جیسا کہ علامہ ابن قدامہؒ نے اپنے مشہور کتاب میں وصیت کے جواز پر اجماع امت کا ذکر کیا ہے۔
وصیت کی حکمتیں: وصیت کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے انتقال کے بعد وراثت قرابت کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے نہ کہ ضرورت کے پیش نظر، یعنی جو میت سے جتنا زیادہ قریب ہوگا اس کو زیادہ حصہ ملے گا خواہ دوسرے رشتہ دار زیادہ غریب ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن شریعت اسلامیہ نے انسان کو یہ ترغیب دی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کو مدد کا زیادہ مستحق سمجھتا ہے اور اس کو میراث میں حصہ نہیں مل رہا ہے، اس کے لئے اپنے ایک تہائی مال تک وصیت کرجائے۔ مثلاً کسی شخص کے کسی بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے اور پوتا پوتی حیات ہیں تو انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی جائداد میں سے ایک تہائی مال تک اپنے یتیم پوتے اور پوتی کو وصیت کرجائے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں اس کی ترغیب بھی دی ہے۔
وصیت کی اقسام: واجب وصیت: ۱) اگر کسی شخص کا قرضہ ہے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔ ۲) اگر زندگی میں حج فرض کی ادائیگی نہیں کرسکا تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔ ۳) اگر زکوٰۃ فرض تھی، ادا نہیں کی تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔ ۴) اگر روزے نہیں رکھ سکا تو اس کے بدلہ میں صدقہ ادا کرنے کی وصیت کرنا واجب ہے۔ ۵) اگر کوئی قریبی رشتہ وصیت کے قانون کے مطابق میراث میں حصہ نہیں حاصل کرپارہا ہے، مثلاً یتیم پوتا اور پوتی اور انہیں شدید ضرورت بھی ہے تو وصیت کرنا واجب تو نہیں ہے لیکن اسے پوتا اور پوتی کا ضرور خیال رکھنا چاہئے۔بعض علماء نے ایسی صورت میں وصیت کرنے کو واجب بھی کہا ہے۔
مستحب وصیت: شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ایک تہائی کی کسی بھی ضرورت مند شخص یا مسجد یا مدرسہ یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ کو وصیت کرجائے تاکہ وہ اس کے لئے صدقۂ جاریہ بن جائے اور اس کو مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب ملتا رہے۔
مکروہ وصیت: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ؐ میری عیادت کے لئے تشریف لائے، میں اس وقت مکہ مکرمہ میں تھا (حجۃالوداع یا فتح مکہ کے موقعہ پر)۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابن عفراء (سعد) پر رحم فرمائے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال ودولت کی وصیت (اللہ کے راستے میں) کردوں؟ آپ ؐ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا پھر آدھے کی کردوں؟ آپ ؐ نے اس پر بھی فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تہائی مال کی کردوں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ تہائی مال کرسکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے۔ اگر تم اپنے رشہ داروں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑ دو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اس میں کوئی شبہ نہ رکھو کہ جب بھی تم کوئی چیز جائز طریقہ پر خرچ کرو گے تو وہ صدقہ ہوگا۔ وہ لقمہ بھی جو تم اٹھاکر اپنی بیوی کے منہ میں دو گے (وہ بھی صدقہ ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں)، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفا دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ غرضیکہ اگر اولاد ودیگر وارثین مال وجائداد کے زیادہ مستحق ہیں تو پھر دوسرے حضرات اور اداروں کے لئے وصیت کرنا مکروہ ہے۔
وضاحت: حضور اکرم ؐ کی شفا کی دعا کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تقریباً پچاس سال تک باحیات رہے اور انہوں نے عظیم الشان کارنامے انجام دئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے ہی ۱۷ ہجری میں کوفہ شہر بسایا تھا جو بعد میں علم وعمل کا گہوارہ بنا۔ آپ ہی کی قیادت میںایران جیسی سوپر پاور کو فتح کیا گیا۔ آپ نے ہی دریا دجلہ میں اپنے گھوڑے ڈال دئے تھے۔