نئی دہلی میں 9اور 10ستمبر کو ہو نے والے بیس ملکوں کے گروپ جی 20-ممالک کا اجلاس کامیابی کے ساتھ ختم ہوا ہے۔یہ اجلاس کئی معنوں میں غیر معمولی اہمیت کا حامل رہاہے۔یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے،جب پوری دنیا کووڈ 19-کے اثرات سے متاثر ہوکرکمزورمعیشت سے جوجھ رہی ہے اور دوسری جانب یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی نے دنیا کو ایک بڑے بحران سے دوچار کررکھاہے۔ 20 ممالک کی اعلیٰ ترین گروپ جو کہ دنیا کی بڑی معیشتوں ،آبادیوں اور فوجی طاقتوں پر مشتمل ہے ، جب ایک چھت کے نیچے جمع ہوگئی تو انہوں نے دنیا کو درپیش سنگین ترین مسائل کو حل کرنے کی طرف ایک مشترکہ کا حکمت عملی وضع کرنے کی کوشش کی۔ اگر چہ چند ممالک اس عظیم اجتماع میں شریک نہیں ہوپائے، مگر اس کے باوجود اس چوٹی کانفرنس کے بڑے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیابی ملی ، یہ کامیابی اس معنی میں بھی غیر معمولی تھی کہ کوئی بڑا اختلافی مسئلہ مشترکہ اعلامیہ میں روکاوٹ نہیں بنا اور اس سے بڑی بات یہ رہی ہے کہ روایت سے الگ ہٹ کر مشترمہ اعلامیہ کے نکوش دوروزہ اجلاس کے پہلے ہی سامنے آنے کی بشارت سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں آگئی تھیں۔ کئی معنوں میں دہلی میں ہونے والا یہ اجلاس اہمیت کا حامل رہاہے۔
راجدھانی دہلی سے دورسمندرپارکے براعظم افریقہ میں اس اجلاس کی کامیابی کی ارتعاش محسوس کی گئی تھی اور گروپ 20-کے اس بڑے خاندان میں ایک اور ممبر کی شمولیت ہوئی،اگر چہ یہ ممبر ایک اکائی تھی اور وہ اکائی 55ممالک کی نمائندگی کرنے والی اکائی تھی۔ ہندوستان کی راجدھانی دل والوں کی دہلی نے بڑی کامیابی کے ساتھ براعظم افریقہ کے اس نمائندہ ادارے کو اس تنظیم میں جگہ دلانے میں کامیابی حاصل کی ، جو مغربی طاقتوں اور استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور سامراجیت کا شکار رہاہے۔ افریقی یونین کی گروپ 20-میں شمولیت دنیا کو ایک راہ دکھائے گی اور یہ ہندوستان اور دہلی کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارے آسمان کے نیچے اس عظیم خاندان میں افریقہ کے 55ممالک کی نمائندہ تنظیم شامل ہوئی ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ افریقی ممالک غیر معمولی انسانی وسائل ،بے پناہ معدنی وقدرتی دولت سے مالا مال ہیں، مگر دنیا کے مختلف فورموں میں اگرچہ کسی حد تک ان ممالک کو انفرادی سطح پر تھوڑی بہت نمائندگی ملی ہوئی ہے ،مگر گروپ 20-میں بھی اب تک اس کی نمائندگی ان معنوں میں علامتی تھی، کیونکہ 55 ممالک میں سے صرف جنوبی افریقہ ہی اس عظیم گروپ کا حصہ تھا۔جبکہ یوروپ کے کئی ممالک اسپین ، اٹلی، فرانس اوربرطانیہ گروپ 20-کے ممبرہیں۔ اس کے علاوہ یوروپین یونین کوبھی ممبرممالک کا درجہ حاصل تھا۔یہ ہندوستان اور ہندوستان کی حکومت بطور خاص وزیر اعظم نریندر مودی کی قاعدانہ اور مدبرانہ قیادت ہی تھی کہ جس کے بدولت اجلاس کی کارروائی کی ابتدا میں ہی افریقی یونین کو ایک شاندارخیر مقدم کے دوران اس کا حصہ بنالیاگیا۔
ہندوستان اور افریقہ کے پرانے ثقافتی سیاسی رشتے ہیں ، نا وابستہ تحریک کے ابتدائی بنیاد گزاروں میں ہندوستان نے افریقہ کے اس وقت کے ایک عظیم لیڈر جمال عبد الناصرکے ساتھ مل کر ناوابستہ تحریک کی بنیاد ڈالی۔ہندوستان اور افریقہ کے رشتہ ان معنوں میں بھی ناقابل فراموش ہیں ،کیونکہ ہندوستان کے عظیم قائداور جنگ آزادی کے عظیم رہنما موہن داس کرم چند گاندھی جن کو ہم محبت اور عقیدت میں بابائے قوم کہتے ہیںاورجن کی عظمت کو پوری دنیا نے قبول کیا اور اس کے آگے سرتسلیم خم کیا۔باپو نے ناانصافی اور غلامی کے خلاف جدوجہد کی ابتداجنوبی افریقہ میں وہاں کی نسل پرست اور تھوپی گئی سفید فام حکومت کے خلاف احتجاج کرکے کیا۔جنوبی افریقہ اور ہندوستان کے رشتے بڑے مضبوط اور گہرے ہیں۔اسی تعلق کو آزادی کے بعد ہمارے ملک کی حکومتوں کے ارباب اقتدار اور سیاست دانوں نے مضبوط کیا۔ہندوستان کی شاندار پیشہ ورانہ اور اعلیٰ تربیت یافتہ افواج نے افریقہ کے کئی ممالک میں قیام امن کے لئے اپنی جانوں کو نچھاور کیا اور بلا غرض سرزمین افریقہ پر قیام امن کے لئے اپنی غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔ہندوستان کے راجدھانی دہلی میں افریقہ کو جو یہ اعزاز ملا ہے اس کا کریڈٹ ہندوستان اور یہاں کی قیادت کو جاتاہے۔
9ستمبر کی صبح کو جب ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے افریقی یونین کے صدر ازالی اسومانی کو جی 20- ممالک کے اجلاس میں بحیثیت مستقل رکن کے مدعوکیا تواس وقت نئی دہلی کے فضائوں میں تالیوں کی گڑگڑاہٹ دور تک سنی گئی۔ اس طرح اجلاس کے بعد گروپ20-کا نام بدل کر گروپ 21-ہوجائے گا۔
بنیادی طور پر گروپ 20-دنیا کو درپیش اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لئے بنایاگیاتھا۔لیکن آہستہ آہستہ اس گروپ کی اہمیت اور افادیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ دنیا کے تمام اہم ایشوز پر ممبرممالک تبادلہ خیال کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ تمام امور میں یکسانیت آجائے اور تمام درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے دنیا ایک زاویہ نگاہ اورتال میل سے کام کرے۔ گروپ20-کے ممبران میں 19 ممالک ہیںاور 27یوروپی ممالک کی نمائندہ تنظیم یوروپین یونین کو بھی ایک رکن کا درجہ حاصل ہے۔اس طریقے سے یہ گروپ ایک بڑا طاقتورگروپ ہے جس میں یوروپ کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک شامل ہیں۔کئی ہلکوں میں یہ الزام لگتا رہاہے کہ یہ گروپ مغربی ممالک کے غلبہ والا گروپ ہے ، مگر نئی دہلی میں ہونے والے اس تاریخی اجلاس میں عالمی سیاست میںایک نیا باب شامل کرلیا گیاہے۔اگر چہ افریقی ممالک تمام وسائل سے مالا مال ہیں، مگر بدترین غربت ، فاقہ کشی ، آپسی رقابتیں ، قبائیلی ،لسانی رقابتوں اور خارجی فوجی مداخلت نے ان ممالک کو پنپنے نہیں دیا۔آج اگر چہ ان ممالک کی نمائندہ تنظیم افریقی یونین اس گروپ میں شامل ہوگئی ہے تواس سے اس گروپ کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔جی 20-پر اب یہ الزام عائد کرنا آسان نہیں ہوگا کہ یہ گروپ مغرب کے پروردہ خوشحال ممالک کے مفادات کو آگے بڑھانے والا ہے۔اب ہم گروپ21-ممالک کو دوعظیم براعظموں اور افرادی ،اقتصادی وجغرافیائی اعتبار سے ایک مضبوط اور نمائندہ ادارہ کہہ سکتے ہیں۔ گروپ 20-کو یہ عظمت دینے والا عظیم ملک ہندوستان ہی ہے۔حالیہ اجلاس سے امید اور قوی ہوگئی ہے کہ یہ گروپ دنیا کو درپیش مسائل پر بہتر طریقے تبادلہ خیال کرے گا اور جامع اور مربوط حکمت عملی وضع کرے گا۔
جی 20-سربراہی اجلاس کا شاندار باب ہند افریقہ دیرینہ تعلقات کی تجدید کاناقابل فراموش لمحہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS