کیسی ہے 9/11 کے بعد کی دنیا؟

0

بے قصور
لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے کوئی بھی واقعہ انجام دے، کہیں بھی واقعہ انجام دے، پوری دنیا کے انسان اس سے غمزدہ ہوتے ہیں جبکہ 11 ستمبر، 2001 کو امریکہ کی ریاست نیویارک کے شہر نیویارک سٹی کے علاقے لووَر مین ہیٹن میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاوروں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے دہلا دینے والے تھے۔ اس دن امریکہ میں یہی دہشت گردانہ حملے نہیں ہوئے تھے مگر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اتنے بھیانک تھے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی آدمی ایسا رہا ہوگا جو دہشت زدہ نہ ہوا ہوگا اور اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا نہ ہوا ہوگا کہ کیا اس طرح کے دہشت گردانہ حملے بھی کیے جا سکتے ہیں؟ ان حملوں میں 2,977 لوگوں کو جانیں گنوانی پڑی تھیں۔ 6,000 سے 25,000 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ کئی دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔ یہ حملے ایسے تھے کہ امریکی صدر کا دلبرداشتہ ہونا فطری تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا جنگ چھیڑنے کا اعلان کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 9/11 کے حملوں کے لیے القاعدہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کرکے انسان دوست لوگوں کے دلوں کی بات ہی کہی تھی۔ ان کا یہ اعلان قابل تعریف تھا کہ امریکہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے گا لیکن جارج ڈبلیو بش کا دہشت گردی مخالف جنگ کو ’صلیبی جنگ‘ کہنا ناقابل فہم تھا۔ بعد میں دنیا کے جو حالات بنے، امریکہ نے جس طرح دہشت گردی مخالف جنگ لڑی، اس سے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی کہ دہشت گردی مخالف جنگ اصل میں کیسی جنگ ہے؟
امریکہ نے دہشت گردی کومٹانے کی ابتدا افغانستان کے خلاف جنگ شروع کر کے کی تو اس وقت تک دہشت گردی کی ایسی تعریف پیش نہیں کی جا سکی تھی جس پرتمام ملکوں کا نہیں تو بیشتر ملکوں کا اتفاق ہو۔ بعد میں بھی ایسی کوئی تعریف پیش نہیں کی گئی۔ اسی لیے یہ سمجھنا مشکل ہو گیا کہ کس واقعے کو دہشت گردانہ واقعہ کہا جائے گا اور کس واقعے کو نہیں۔ کن لوگوں کو دہشت گرد کہا جائے، کن لوگوں کو نہیں۔ 9/11 سے پہلے چینی حکومت سنکیانگ کے علیحدگی پسند اویغوروں کو علیحدگی پسند کہا کرتی تھی، 9/11 کے بعد انہیں وہ دہشت گردکہنے لگی۔ 2008 میں اس نے ان اندیشوں کا بار بار اظہار کیا کہ بیجنگ میں منعقد ہونے والے ’2008 سمر اولمپکس‘ پر ’اویغور دہشت گرد‘ حملہ کر سکتے ہیں مگر اس کے ان اندیشوں پر عالمی برادری نے زیادہ توجہ نہیں دی، کیونکہ یہ بات ناقابل فہم نہیں تھی کہ وہ اس طرح کے اندیشوں کا اظہار اویغوروں کے خلاف زیادہ سے زیادہ سختی برتنے کے لیے کر رہی ہے۔اسی طرح دیگر ملکوںکی، جن میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں، حکومتوں نے بھی دہشت گردی کے خلاف شفاف پالیسی اختیار نہیں کی۔ اپنی سطح پر بھی دہشت گردی کی تعریف بتانے کی کوشش نہیں کی۔ حد تو اس وقت ہو گئی جب 15 مارچ، 2019 کو نیوزی لینڈکے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجدوں میں ایک شخص نے فائرنگ کرکے 51 لوگوں کو شہید اور 40 لوگوں کو زخمی کر دیا، اس واقعے کو ’دہشت گردانہ ‘ حملہ اور بے قصور نہتھے لوگوں پر فائرنگ کرنے والے کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن نے تو تاخیر نہیں کی مگر ایک سے زیادہ ملکوں کے لیڈروں نے دہشت گردی کے خلاف ایسا واضح موقف ظاہر نہیں کیا۔ اس سے ایک بار پھر یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوئی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب کیوں نہیں ہو سکی، امریکہ کے جنگ چھیڑنے کے باوجود دہشت گردی سے دنیا کو نجات کیوں نہیں دلائی جا سکی۔ امریکہ نے افغانستان سے کس طرح امریکی فوجیوں کو باہر نکالا اورافغان جنگ ختم کی، اس سے بھی دہشت گردی مخالف جنگ کے تئیں امریکہ کی سنجیدگی سمجھ میں آتی ہے۔
وطن عزیز ہندوستان پر کئی دہشت گردانہ حملے ہوئے، حکومت ہند نے پاک حکومت سے بار بار یہ کہا کہ وہ اپنی زمین سے دہشت گردی ختم کرے مگر پاک حکومت نے اس پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی خود پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اس دنیا کو انسانوں کے رہنے لائق بنائے رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے کسی بھی خطے میں دہشت گردی کو پنپنے نہ دیا جائے۔جہاں کہیں بھی دہشت گردی پنپ رہی ہو، اس کا خاتمہ کیا جائے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اس طرح نہ لڑی جائے کہ یہ شبہات کے گھیرے میں رہے، مصلحت پسندی یا مفاد کا خیال رکھتے ہوئے کسی کو دہشت گرد نہ بنایا جائے، اگر کوئی واقعی دہشت گردہو تو پھر اسے چھوڑا بھی نہ جائے مگر سب سے پہلے دہشت گردی کی ایسی تعریف ہونی چاہیے جو بیشتر ملکوں کے لیے قابل قبول ہو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS