2 ریاستوں میں بی جے پی کے سامنے خلفشار پر قابو پانے کا چیلنج

0

اس وقت دوریاستوں مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان دونوں ریاستوںمیں اگرحالات ایسے ہی رہے تو اسمبلی الیکشن ایک ساتھ ہوسکتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی حکمراں پارٹی ہے جبکہ راجستھان میں وہ اپوزیشن میں ہے۔ دونوںریاستوں میں پارٹی کی اندرونی کھٹ پٹ عروج پر ہے۔ شیوراج سنگھ چوہان جوکہ ایک معمولی وقفہ کے علاوہ لگاتار 17سال سے مدھیہ پردیش میں وزیراعلیٰ کی کرسی سے چپکے ہوئے ہیں۔ اب جبکہ ریاست میں الیکشن کے لئے بی جے پی نے اپنے امیدواروں کی پہلی لسٹ جاری کردی ہے۔ اس کے باوجود پارٹی کی اندرونی خلفشار رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پہلی لسٹ کے آنے کے بعد پارٹی متحدہوکر انتخابی مہم چلائے گی، مگر حالات ایسے نہیں ہیں۔
اجودھیا میں مندر کی تعمیر کو لے کر جومہم 1989 میں شروع کی گئی تھی اس میں جن شعلہ بیان لیڈروںکا نام آتا ہے ان میں اومابھارتی اہم ہیں۔ وہ رام مندر تحریک سے شروع سے ہی وابستہ رہی ہیں اور انہوںنے مختلف علاقوں میں جلسے جلوس نکال کر بی جے پی کے لئے زبردست ماحول بنایا تھا۔ ان کے زہرآلودبیانات نے فضا کو اس قدر مکدر کردیا تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ یہ ایک آتش فشاں ہے جوکبھی بھی پھٹ سکتا ہے مگر آج جبکہ مرکز میں گزشتہ 9سال سے بی جے پی کی مکمل اکثریت والی حکومت اقتدار میں ہے اورمدھیہ پردیش جہاں کی وزیراعلیٰ بھی رہ چکی ہیں اپنے ہی گھر میں اوراپنی ہی پارٹی میں الگ تھلگ پڑی ہوئی ہیں۔ پارٹی میں تو کوئی ان کو پوچھتا بھی نہیں۔ مدھیہ پردیش کی سیاست میں بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش میں حکمراں جماعت انتخابی ماحول بنانے کے لئے جن آشیرواد یاترا شروع کر رہی ہے۔ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ ایک سینئر لیڈر ہونے کے ناطے اومابھارتی کو عزت واحترام دیا جاتا، مگر اس قدر نازک موقع پر جب بی جے پی کے سامنے مدھیہ پردیش کی ریاست کے اقتدار کو بچانے کا چیلنج ہے انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ دوروز قبل جب 64سالہ لیڈر اوما بھارتی سے پوچھا گیا کہ کیا ان کو مدھیہ پردیش کی جن آشیروادیاترا میں مدعوکیا گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے بھی بلایا جاتا تو میں نہ آتی۔ انہوںنے اس موقع پرایک تیر سے کئی شکار کرتے ہوئے کہا کہ جیوتی رادتیہ سندھیا ان کے بھتیجے کی طرح ہیں اوروہ ان سے بہت محبت کرتی ہیں۔ قارئین کویاد ہوگا کہ جیوتی رادتیہ سندھیا کانگریس چھوڑکر بی جے پی کی حکومت بنوانے کے لئے اپنے ممبران کے ساتھ حکمراں پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کے اس قدم سے کانگریس پارٹی اقتدار سے باہر ہوگئی تھی۔ اب جبکہ انتخابات قریب ہیں بی جے پی میں رہتے ہوئے جیوتی رادتیہ سندھیا کونظراندازکیاجارہا ہے اور بی جے پی کے پرانے لیڈر جو سندھیا کے قریبی سمجھے جانے والے ممبران اسمبلی سے ہارے تھے اب موقع جان کر سندھیا کے وفاداروں کو ’نکو‘ بنائے ہوئے ہیں۔ سندھیا کو بی جے پی کا کوئی پرانا لیڈر قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مرکز میں بھی سندھیا کے پاس کوئی خاص قلمدان نہیں ہے۔ یہی حال ان کی بوا(پھوپھی) کا راجستھان میں ہے۔ راجستھان میں وسندھرا راجے نے تین میقات تک وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا، مگر آخر میں 2018 میں ان کی شکست ہوگئی۔ اس شکست کے پس پشت عوامل میں بی جے پی کی اندرونی خلفشار کے علاوہ کانگریس کے جواں سال لیڈر سچن پائلٹ کی غیرمعمولی سرگرمیاں اور پارٹی کو قدموں پہ کھڑا کرنے کی مہم بتائی جاتی ہے۔ راجستھان میں وسندھرا راجے اگرچہ بہت طاقتور لیڈر ہیں۔ پارٹی کے علاوہ ان کی خودکی زبردست گرفت ہے۔ پارٹی کی تنظیم کے علاوہ عوامی سطح پر بھی ان کو دیگر بی جے پی کے لیڈروں کے مقابلے میں زیادہ قبولیت اور مقبولیت حاصل ہے۔ وہ لگاتار مقامی سطح پر پارٹی کی نائب صدر ہونے اور سابق وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود بھی بی جے پی کی مین اسٹریم کا حصہ نہیں بن پائیں۔ اس کی دووجوہات ہیں۔ ایک تویہ کہ ان کے انداز شاہانہ ہیں، کیونکہ وہ سندھیا خاندان کی چشم وچراغ ہیں، ان کے تیور دوسرے لیڈروں سے برداشت نہیں ہوتے۔ دوسرے یہ کہ راجستھان کا کوئی بھی لیڈر چاہے وہ گجیندر سنگھ شیخاوت ہوںیا گلاب سنگھ کٹاریا ہوںیا کوئی اور وسندھرا کے مرتبے اور مقبولیت تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ مرکز میں وزیر ہونے کے باوجود شیخاوت ریاست میں وہ مقام حاصل نہیں کرپائے ہیں جو وسندھرا راجے کا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ جب سے ریاست میں اشوک گہلوت کی سرکار اقتدار میں آئی ہے اس نے بی جے پی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دیا کہ ریاست میں غریب اور پسماندہ عوام پریشان ہیں۔ مرکزی سرکار کی طرف سے حال ہی میں گیس سلنڈروںپر جو رعایت ملی ہے وہ رعایت راجستھان میں بہت پہلے سے مل رہی ہے۔ اب مرکز اورریاست دونوں کی رعایتوں کا فائدہ ریاستی عوام اٹھا رہے ہیں۔ راجستھان کے لوگ دیگرریاستوںکے مقابلے میں 200روپے کم قیمت کا سلنڈر حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ غریب طبقے کو دوسری اور رعایتیں مل رہی ہیں۔ اگرچہ اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ میں پرانی چپقلش ہے اس کے باوجود بھی اس کا براہ راست کوئی منفی اثر ریاستی عوام کونہیں پہنچا ہے۔ گہلوت سرکار نے اپنی سرکار کا آخری بجٹ بہت شاندار اور عوامی فلاحی بجٹ پیش کیا تھا۔ یہ کانگریس سرکار کی بڑی کامیابی ہے۔ راجستھان کے علاوہ مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ عوام کو راجستھان کی طرح دوسری رعایتیں فراہم کرائے گی۔ کانگریس پارٹی خواتین کو نقد ماہانہ وظیفہ فراہم کرانے جیسے دلفریب وعدے کر رہی ہے۔
مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی سرکار کئی محاذوںپر ناکام ہے۔ دلت اور قبائلی لوگ گزشتہ دوتین ماہ کی انسا نیت سوز وارداتوں سے اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ ایک قبائلی خاتون کے سر پر رفع حاجت کی ویڈیو نے غریب اور قبائلی لوگوںکو بہت ٹھیس پہنچائی۔ اس سے قبل ایک قبائلی کو گاڑی سے گھسیٹنے کی واردات نے پورے میڈیا میں سرخیاں بٹوری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شیوراج سنگھ چوہان کس طرح اس صورت حال کا مقابلہ کرتے ہیں۔ خاص طورپر ایسے حالات میں جب ان کی پارٹی کے کئی سینئر لیڈر ان کے خلا ف ہیں۔ 17سال کا اقتدار کوئی کم نہیں ہوتا۔ کئی سینئر لیڈر وزیراعلیٰ کے عہدے کا ارمان سجائے ہوئے ہیں، اگربی جے پی ان کو دوبارہ وزیراعلیٰ کا امیدوار بناکر پیش کررہی ہے تو یہ لیڈر کس طرح دلجمعی کے ساتھ ان کا ساتھ دیںگے یہ تووقت ہی بتائے گا۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS