عبدالعزیز
اپوزیشن اتحاد کی پہلی میٹنگ پٹنہ میں ہوئی تھی اور دوسری میٹنگ بنگلور میں۔ بنگلور میں اپوزیشن اتحاد کا مختصر نام ’’انڈیا‘‘ رکھا گیا۔ انڈیا نام آتے ہی وزیر اعظم نریندر مودی فکر مند ہوگئے اور اس نام کے اثر کو زائل کرنے کے لئے طرح طرح سے نام بگاڑنے کی کوشش کرتے رہے، مگر کوئی تدبیر، کوئی کوشش ان کی کامیاب نہیں ہوئی۔ (31اگست) سے انڈیا اتحاد کا تیسرا اجلاس ممبئی میں شروع ہوگیا۔ نریندر مودی نے اجلاس سے ایک روز پہلے رسوئی گیس کی قیمت میں 200روپئے تخفیف کردی یہ کہہ کرکہ یہ بہنوں کے لیے رکشابندھن تہوار کا تحفہ ہوگا۔ حالانکہ 9-10سال میں ایک تہوار نہیں بلکہ رکشان بندھن کے9-10 تہوار ہوئے اور وزیر اعظم کو بہنوں کو تحفہ دینے کے بجائے بہنوں کی بے عزتی، عصمت دری کے بے شمار واقعات رونما ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ بہت سی عصمت دری کے واقعات کا تعلق بی جے پی کے لیڈروں سے ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو لوگ عصمت دری کے واقعات میں ملوث ہیں ان کو راحت دی جاتی ہے اور ان کی رہائی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ گجرات کی بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے والے اور ان کے خاندان کے کئی افراد کو قتل کرنے والوں کی جلد رہائی کی کوشش کی گئی کہ وہ اچھے کردار کے قیدی ثابت ہوئے۔
کشمیر کی ایک کم سن بچی کے ساتھ جن لوگوں نے عصمت دری کی اور قتل کیا ان کی رہائی کے لئے بی جے پی ایم ایل اے اور وزیروں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ بے شرمی اور بے حیائی بی جے پی کا طرۂ امتیاز بن گیا ہے۔ پہلوان عورتوں کے ساتھ ان کے ایم پی نے جو نازیبا اور ناروا سلوک کیا اس کی مدافعت کے لئے بھی مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتیں آج تک کوشاں ہیں۔ جنتر منتر پر پہلوان عورتوں کی بھوک ہڑتال اور احتجاج بھی بی جے پی کے بے حیاافراد کو ہلا نہ سکی۔ کئی مہینوں کے بعد سپریم کورٹ کی ہدایت پر بے حیا ایم پی برج بھوشن کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کیا گیا۔ دہلی پولس اس ایم پی کی ضمانت کے حق اور مخالفت میں خاموش رہی اور آسانی سے مجرم کی ضمانت ہوگئی۔ منی پور میں دو خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ انھیں ننگا کرکے ان کا پریڈ کرایا گیا اور ان میں سے ایک کو قتل کردیا گیا اور ایک کو نیم مردہ چھوڑ دیا گیا۔ منی پور کی پولس نے دونوں خواتین کو خونخوار انسان نما حیوانوں کے حوالے کردیا تھا۔ حیوانوں کے خلاف نہ کوئی کارروائی ہوئی اور نہ کوئی ایف آئی آر درج کیا گیا۔ جب اس واقعہ کا ویڈیو وائرل ہوا تو ایف آئی آر درج کرانے کی نوبت آئی اور کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ تین چار مہینے تک مودی جی خاموش رہے۔ پارلیمنٹ کے باہر مشکل سے چھ سات منٹ منہ کھولے اور پارلیمنٹ کے اندر بھی دو تین منٹ مجبوراً بولے۔ آج وہ ان کو بہن کہہ رہے ہیں اور ان بہنوں کے لئے راکھی بندھن کے تہوار پر تحفہ دے رہے ہیں 200 روپئے رسوئی گیس کی قیمت کم کرکے۔
اسے بہنوں کا تحفہ کہا جاسکتا ہے یا اپوزیشن کے اتحاد انڈیا کا ڈر کہا جاسکتا ہے۔ میرے خیال سے گھریلو گیس کی قیمت میں200روپئے کی کمی کی اس کی دو وجہیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک انڈیا اتحاد اور راہل گاندھی کی مقبولیت اور دوسرے مہنگائی کی مار سے عوام میں شدید قسم کا غصہ۔ تین چار ریاستوں کا الیکشن دسمبر میں ہونے جارہا ہے اور ان چاروں ریاستوں میں بی جے پی کی حالت دگرگوں ہے۔ بی جے پی کے اندر سے اور باہر سے بھی نریندر مودی اور امیت شاہ کو یہ بتایا گیا ہوگا کہ مہنگائی سے غصے کو کم کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ پبلک ان دو سو روپئے سے کسی طرح بھی خوش نہیں ہوگی، کیونکہ جو رسوئی گیس مودی جی حکومت سے پہلے 400روپئے میں دستیاب تھی وہ 2023ء میں گیارہ ساڑھے گیارہ سو روپئے میں دی جاتی ہے۔ اور یہ سب انڈیا اتحاد کے خوف اور الیکشن میں پسپائی کے ڈر سے کیا جارہا ہے اور اسے رکشا بندھن سے جوڑ نا ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں اور وہ بھی اپنے آپ سے مذاق۔ اپنا مذاق اڑانا بی جے پی کو نہ کبھی محسوس ہوا ہے اور نہ محسوس ہونے کا امکان ہے۔ کیونکہ بے حیائی اور ڈھٹائی بی جے پی کی صفت اور علامت بن گئی ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار والے مسلمان مرد اور عورت دونوں کے کھلے دشمن ہیں۔ اچانک مسلم خواتین سے رکشا بندھن کے موقع پر اپنے ہاتھوں پر راکھی بندھوانے کا خیال آیا۔
ممبئی میں انڈیا اتحاد کا اجلاس کامیاب ہوگیا۔ کنوینر کی تقرری اور سیٹ شیئرنگ سمیت حکمت عملی طے نہیں ہوئی لیکن مشترکہ منی پروگرام بھی تیار کیا گیا۔ جس سے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے لئے مزید پریشانی بڑھ گئی ہے اور ان کی نیندیں حرام ہوگئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن سے پہلے اتحاد میں وزیر اعظم کے چہرے کی بحث شروع نہ ہو اور نہ ہی بی جے پی یا نریندر مودی کی حکمت عملی کو اپنانے کی کوشش کی جائے۔ نریندر مودی کی حکمت عملی یہی ہے کہ نریندر مودی بمقابلہ راہل گاندھی ہوجائے اس صدارتی طریقۂ انتخاب کو بی جے پی اور نریندر مودی بے حد پسند کرتے ہیں۔ انڈیا کو اس جال میں پھنسنا نہیں چاہئے۔ اس بارے میں سابق وزیر اعلیٰ مہاراشٹر اودھو ٹھاکرے کی ممبئی میں گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں جو کچھ کہا وہی جواب اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کوبھی دینا چاہئے۔ جب ایک رپورٹر نے اپوزیشن کے وزیر اعظم کے چہرے کے بارے میں سوال کیا کہ کون وزیر اعظم ہوگا؟ تو اودھو ٹھاکرے نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ یہ سوال بی جے پی سے کرنا چاہئے کہ نریندر مودی کے علاوہ وزیر اعظم کے لئے کوئی دوسرا چہرہ ہے۔ انڈیا اتحاد میں تو کئی چہرے ہیں۔ کسی بھی چہرے کو پسند کرلیا جائے۔ یہ جواب اس لئے صحیح ہے کہ جنتا پارٹی نے الیکشن سے پہلے اندرا گاندھی کے مقابلے میں کسی چہرے کو پیش نہیں کیا تھا۔ آسانی سے مرار جی ڈیسائی کو وزیر اعظم بنا لیا گیا۔ اسی طرح جنتادل کے الیکشن سے پہلے کسی کو راجیو گاندھی کے مقابلے میں سامنے نہیں لایا گیا تھا۔ الیکشن کے بعد آسانی سے وی پی سنگھ کو وزیر اعظم کے عہدہ کے لئے منتخب کرلیا گیا۔
بی جے پی کی وجہ سے راہل گاندھی کا قد چھوٹا نہیں بڑا ہورہا ہے۔ بی جے پی نے راہل گاندھی کے قد کو چھوٹا کرنے کی ہر طرح سے کوشش کی۔ بہت دنوں تک انھیں پپو بنانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں راہل گاندھی تو پپو نہیں بنے بلکہ نریندر مودی خود پپو بن گئے۔ ترنمول کانگریس کی شعلہ بیان مقرر مہوا موئترا نے پارلیمنٹ میں کئی باتوں کا حوالہ دے کر ایک بار نہیں کئی بار سوال کیا کہ پپو کون ہے؟ اور ان کا اشارہ نریندر مودی کی طرف تھا کہ وہ اپنے کاموں اور حماقتوں کی وجہ سے پپو ہوگئے ہیں۔ راہل گاندھی کو ای ڈی کے ذریعے بھی دبانے اور مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ ان پر مقدمہ کرکے ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی ختم کردی گئی اور ان کو ان کے بنگلے سے بھی محروم کردیا گیا۔ ہر طرح کے دباؤ کے باوجود راہل گاندھی نہ جھکے، نہ رکے بلکہ قدم آگے بڑھاتے گئے اور اپنے عزم و ہمت کا بھرپور ثبوت دیتے رہے۔ ’بھارت جوڑو‘ یاترا سے ان کے عزم میں مزید اضافہ ہوا اور ان پر مقدمہ کرنے پر ان کی ہمت متزلزل نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ان کا عزم اور یقین بڑھ گیا۔ پارلیمنٹ میں انھوں نے جو پندرہ منٹ کی تقریر کی وہ نریندر مودی کی 2گھنٹے 13منٹ کی تقریر پر بھاری پڑگئی۔ راہل گاندھی کی تقریر کو نریندر مودی کے مقابلے میں زیادہ لوگوں نے سنی اوردیکھی ۔ حالانکہ پارلیمنٹ کی پندرہ منٹ کی تقریر میں راہل گاندھی کا چہرہ صرف چار منٹ اسکرین پر دکھایا گیا جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی لمبی چوڑی تقریر کے دوران کیمرہ ان کے چہرہ پر ہی ٹکا رہا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جب اللہ کی طرف سے کسی کے جانے اور کسی کے آنے کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو جانے والا لاکھ کوشش کرے آنے کے لئے، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس کے آنے کی ہر تدبیر الٹی ثابت ہوتی ہے۔ اور آنے والے کی ہر تدبیر نشانہ پر لگتی ہے اور کامیاب ہوتی ہے۔ یہی حال اس وقت نریندر مودی کا ہے کہ ان کی ہر تدبیر الٹی ثابت ہورہی ہے ؎ ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘۔ اس کے برعکس راہل گاندھی کی میل جول کی تدبیر کارگر ثابت ہورہی ہے۔ وہ بچے، جوان، بوڑھے، مرد، عورت، امیر، غریب، محروم و مظلوم سبھی سے گھل مل رہے ہیں اور اس کے درد اور دکھ کو سن رہے ہیں اور اس کا مداوا کرنے کی بھی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے عوام اور خواص کے جذبات کو انھیں سمجھنے کا موقع مل رہا ہے۔ ہندستان کی اصل حالت کا بھی انھیں علم ہورہا ہے۔ ان کی ذہنی پختگی بھی بڑھ رہی ہے۔ کرناٹک کے اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی کامیابی بھائی بہن (راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی) کا حوصلہ بڑھ رہا ہے۔ راہل گاندھی کے ہاتھ میں کسی ریاست کا ماڈل نہیں تھا۔ اب کرناٹک کا ماڈل ان کے ہاتھ آگیا ہے۔ ان کو سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ الیکشن کیسے جیتا جاسکتا ہے؟ الیکشن میں کس طرح کے وعدے کئے جاسکتے ہیں اور ان وعدوں کو کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے؟ اب کسی کے پاس یہ کہنے کے لئے نہیں ہے کہ راہل گاندھی الیکشن جتانے میں کامیاب نہیں ہوںگے۔ چار ریاستوں میں (مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور میزوم) الیکشن جیتنے کے لئے کانگریس ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق چاروں ریاستوں میں کانگریس کے کامیاب ہونے کا امکان ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ’انڈیا‘ اتحاد مزید مستحکم اور مضبوط ہوگا اور جو پارٹیاں کنارے کھڑی ہوکر انڈیا اتحاد کا جائزہ لے رہی ہیں یا نظارہ کر رہی ہیں وہ بھی انڈیا میں شامل ہوجائیں گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کانگریس اتحاد میں اپنا مقام پیدا کرلے اور راہل گاندھی کے چہرے پر لوک سبھا کے الیکشن کے بعد اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کی مہر لگ جائے۔ qqq