ڈاکٹر سیّد احمد قادری
ایک طرف ہم چاند پر کمندیں ڈال کر عالمی سطح پر اپنی کامیابیوں پر فخر کر رہے ہیں اور دوسری جانب سیاسی مفادات کے لئے کچھ لوگ پورے ملک میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا زہر پھیلا کر ملک کی پوری فضا کو مسموم کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ملک کے اندر آئے دن کوئی نہ کوئی ایساسانحہ سامنے آتا ہے، جو بین الاقوامی سطح پر نہ صرف شرمسار، ذلیل و رسوا کرتا ہے بلکہ ملک کی شاندار شبیہ کو کریہہ و داغدارکرتا ہے۔ دراصل ملکی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کے لئے پورے ملک میں مذہبی منافرت ، عداوت ، عدم رواداری ، فرقہ واریت کے جو بیج بوئے گئے تھے وہ اب لہلہا اٹھے ہیں اور ہر طرف انتشار ، خلفشار ، نفرت ،عناد، تعصب، فرقہ پرستی ، شدت پسندی کی مسموم فضا چھاگئی ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ممبئی کی ایک ٹرین میں آر پی ایف کا ایک جوان چیتن کمار پورے ہوش و ہواس میںاپنے مذہبی جنون کے نشہ میں چور ہو کر ٹرین میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تین مسلمانوں کو قتل کرتا ہے اور اپنی شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خود کار رائفل سے ایک متشرح شخص کو گولی مار کر اس کے خون میں ڈوبے جسم کے قریب کھڑا ہو کر بہت ہی واضح لفظوں میں کہتا ہے کہ’ اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو مودی اور یوگی کو ووٹ دینا ہوگا ‘۔ اس جنونی کی زبان سے ادا ہونے والا یہ جملہ ہی اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اس کے دل ودماغ میں کیا چل رہا تھا اور وہ اپنی انتہا اور شدت پسندی میں یہ بھی بھول گیا کہ وہ اس وقت اس ٹرین میں سفر کرنے والے تمام مسافروں کی جان ومال کی محافظت پر معمور ہے،لیکن اس کے ذہن و دماغ میں جو زہر سراعت کرایا گیا ہے، وہ اسے کچھ بھی مثبت بات سوچنے نہیں دیتی اور یہی وجہ رہی کہ اس نے مذہبی جنون میں اپنے افسر تک کی بات نہیں مانی اور ا سے بھی اپنی سرکاری بندوق سے گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ اس حادثہ کی بازگشت ابھی سرد بھی نہیں پڑی ہے کہ دو روز قبل مظفر نگر کے قریب نیہا اسکول کی ایک ٹیچر ترپتاتیاگی نے ایک ایسی غیر انسانی ، غیر اخلاقی اور غیر آئینی حرکت کی ہے، جس نے پوری دنیا کے اساتذہ اور انسانیت کے سر کو شرمندگی سے جھکا دیا ہے۔ اسکولوں میں ٹیچر کے ذریعہ طالب علموں کی پٹائی عام بات ہے، ہم لوگوں نے بھی اپنے ٹیچر کی پٹائی کی سختی دیکھی ہے ۔ لیکن اس پٹائی میں محبت اور پیار کی جھلک پنہاں ہوتی تھی ، نفرت نہیں ، لیکن نیہا اسکول کی ا س ٹیچر نے تو انتہا کر دی کہ پانچ کا ٹیبل یاد نہیں کئے جانے پر التمش کوکلاس کے دوستوں سے یہ کہہ کر کہ زور سے تھپّڑ مارو یہ محمڈن ہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ ا س تھپڑ کھانے والے التمش کی اپنی ٹیچر کے ایسے نازیبا جملوں کے ساتھ اپنے دوستوں سے پٹتے وقت کیا کیفیت رہی ہوگی، اس پر کیسے کیسے نفسیاتی اور منفی اثرات مرتب ہو رہے ہوںگے، نیز اپنے مسلم دوست کو اپنی ٹیچر کے یہ کہنے پر کہ زور سے مارو یہ محمڈن ہے ، ان معصوم بچوں کو کیسا لگ رہا ہوگا ۔ کیا یہ ٹیچر پورے کلاس کے معصوم اور ناپختہ ذہن کے بچوں کو پُر تشدّد بنا کر خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت ، فرقہ واریت اور مذہبی جنون کا زہر بھرنے کا کام ایک منصوبہ کے تحت کر رہی ہے ۔ ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سانحات پر فوری طور پر قدغن لگنا بہت ضروری ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سانحہ پر ملک کا انصاف وامن طبقہ نے پوری شدت کے ساتھ اس واقعہ کی مذمت کی ہے ۔ معروف فلم اداکار پرکاش راج نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مظفر نگر کا یہ واقعہ انسانیت کا سیاہ ترین دن ہے۔ اسی طرح دوسرے مکتبۂ فکر کے غیر مسلم بھائیوں نے بھی اس سانحہ کی زبردست مذّمت کرتے ہوئے ا س ٹیچرکے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔ بات بات پر مسلمانوں کے مکانات اور اداروں پر بلڈوزر سے مسمار و منہدم کرنے والی اترپردیش کی یوگی حکومت اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے بلکہ اندر ہی اندر لیپا پوتی میں مصروف ہے۔ پٹنے والے بچہ التمش کے والد آگے کسی کاروائی کے لئے تیار نہیں ہیں کہ انھیں کیا انصاف ملے گا وہ انھیں معلوم ہے ۔ ممکن ہے الٹا انھیں ہی مجرم قرار دے دیا جائے اور مذکورہ اسکول ٹیچر کو اس ’’کارنامۂ ستائش ‘‘کے صلہ میں بدنام زمانہ اور منافرت پر مبنی فلم ــکشمیر فائل ‘‘ کی طرح قومی یکجہتی کا ایوارڈ بھی مرحمت کیا جائے ۔ اس لئے میرے خیال میں اسکول ٹیچر ترپتا تیاگی کو گرفتار کئے جانے اور نیہا اسکول پر بلڈوزر چلائے جانے کا مطالبہ کرنے والوں کا یہ مطالبہ یقینی طور صدائے بہ صحرا ثابت ہوگا۔ حالانکہ زیادہ دن نہیں گزرے ہیں کہ مدھیہ پردیش کے دموہ میں ایک مسلم اسکول پر صرف اس بنا پربلڈوزر چلا کر منہدم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی منظوری کو ختم کر دیا گیا تھا کہ اس اسکول کے سلسلے میں کچھ شر پسندوں نے یہ شکایت درج کرائی تھی اس اسکول میں غیر مسلم بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے ، جبکہ اس سلسلے میں کوئی صداقت نہیں تھی ۔ اس اسکول میں ستّر فی صد مسلم بچیاں اور تیس فی صد ہی غیر مسلم بچیاں زیرتعلیم تھیں۔ دیکھا جائے تو اس اسکول کے انہدام کی وجہ بھی یہی رہی ۔ اب دیکھنا ہے کہ پوری دنیا میں انسانیت کو شرمشار کرنے والی اس اسکول ٹیچر اور اس اسکول کے ساتھ یوگی حکومت کیا سزا تجویز کرتی ہے ۔ ویسے یہ طے ہے کہ اسکول کی اس ٹیچر کونہ کوئی سزا دی جائے گی اور نہ ہی اس اسکول پر بلڈوزر چلے گا۔ چند روز قبل ہندوتو کی تجربہ گاہ گجرات میں بھی ایک ایسا سانحہ ، گرچہ یہ ریاست توسانحوں کی ریاست ہے ، اس لئے یہاں جو بھی ہو ، ان پر نہ افسوس کرنا چاہئے نہ ہی حیرت کا اظہار ہونا چاہئے ۔ بہرحال گجرات کے شہر احمدآباد کے ایک اسکول میں طالبات کے درمیان کوئی تعلیمی مقابلہ ہوا ۔ جس میں پورے اسکول میں ایک مسلم لڑکی نے اوّل مقام حاصل کیا ، لیکن مذہبی نفرت کی آندھی سے متاثر اس اسکول کی انتظامیہ نے، صرف اس بنا پر اس لڑکی کو اوّل انعام نہیں دیا کیونکہ یہ لڑکی مسلم سماج سے تعلق رکھتی ہے اور اس مسلم لڑکی کا حق چھین کر زعفرانی سوچ والی اسکول انتظامیہ نے دوسرا مقام حاصل کرنے والی غیر مسلم لڑکی کو دیا۔ اس عمل سے پورے ملک ومعاشرے میں کیسا پیغام دیا گیاہے ۔ یہ سوچنے والی بات ہے ۔ یہ لڑکی روتی بلکتی گھر پہنچی اور ساری بات اپنے والدین کو بتائی،تو والدین بھی اپنی بے بسی پر آنسو بہائے بنا نہیں رہ پائے ہوںگے ۔
ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی ہے ۔ اس وقت سے پورے ملک میں گجرات ماڈل (2002 ) کے نام پر اور آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈوں کو نافذ کرنے نیز ملک کو ہندو راشٹربنانے کیلئے ملک کے اقلیتوں خصوصاََمسلمانوں کی زندگی تنگ کرنے کی دانستہ اور منظم طور پر کوششیںہورہی ہیں ۔ کبھی حجاب کے نام پر، کبھی حلال کے نام پر، کبھی ماب لنچنگ، کبھی کاشی ، کبھی متھرا کی صدیوں پرانی مساجد و درگاہ پر زبردستی قبضہ کی کوشش، کبھی تاج محل ، قطب مینار یا پھر اجمیر شریف کی درگاہ پر بھی متنازع اور نفرتی بیان دے کر نفرت ، تعصب ، فرقہ واریت ، عدم رواداری ، بد امنی ، انتشار ، خلفشار ، ظلم ، تشدد، بربریت اور سفّاکی جیسی غیر آئینی اور غیر انسانی مسموم فضا دانستہ طور تیار کی جاری ہے ۔ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی دانستہ کوششیں ہو رہی ہیں ۔ ایسے بدترین حالات پیدا کرکے ان فرقہ پرستوں کے ذہنی دیوالیہ پن کے مطابق ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں عوامی بیداری آئے گی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے اندر یکجہتی ،اخوت ، گنگا جمنی تہذیب اور آپسی اتحاد و اتفاق کی جڑیں اتنی گہرائی تک پیوست ہیں کہ اتنی آسانی سے ایسی شاندار اقدار و روایت نہ ختم ہو سکتی ہیں اور نہ ہی ہندو ، مسلم سکھ ، عیسائی کے درمیان جوصدیوںسے آپسی محبت اور بھائی چارگی قائم ہے ان کا خاتمہ ممکن ہے ۔یہی وجہ رہی کہ ملک کے اندر ہندو مسلم کے نام پر جب جب سیاسی کھیل کھیلنے کی کوششیں کی گئیں ، اقلیتوں دلتوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر ظلم و تشدد بھرے سانحات ہوئے ، ان کے خلاف ملک کے محب وطن دانشوروں ، فنکاروں ، ادیبوں ، شاعروں ، سابق فوجیوں ، سابق نوکر شاہوں مثلاََ اشوک واجپئی ، منوج جھا،ششی تھرور، رومیلا تھاپر، اپوروانند، پرشانت بھوشن ، رام پنیانی ، ڈی راجا ، عرفان حبیب ، آنند پٹوردھن ، گوہر رضا ، کویتا کرشنن ، ایس وائی قریشی ، پرشوتم اگروال ، سپریا سولے ، شبنم ہاشمی ، دھوروینا ، بھاشا سنگھ اور جگتی ساگوان وغیرہ نے یہ کہتے ہوئے کہ آج کے میڈیا پر حکومت نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے اس لئے ہم لو گ ملک میں بڑھتے ناگزیر حالات کے پیش نظر سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں اور ملک کے اندر امن و امان، آئین بحال کرنے ، ملک میں گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے نیز فاشسٹ قوتوں کے ناپاک ارادوں کو روکنے کے لئے اپنی تقاریر ریکارڈ کرکے انھیں یو ٹیوب ، فیس بک، انسٹا گرام، وہاٹس ایپ اور ٹوئیٹروغیرہ پر اپلوڈ کر رہے ہیں تاکہ نفرت ، محبت میں بدل جائے اور ہمارے ملک کی یکجہتی ، مساوات ، اتحاد کی صدیوں پرانی روایت اور قدریں برقرار رہیں۔ لیکن افسوس کہ ایسی ساری گذارشات کو اقتدار کے نشہ میں، قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ ان گذارشات پر عمل درآمد تو دور ،ایسے لوگوں کو دیش دروہ تک کہا جاتا ہے اور ایسے سوال اٹھانے والوں کو خاموش کرنے کے لئے طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگا کر ان کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں ۔ سی بی آئی ، ای ڈی اور انکم ٹیکس وغیرہ جیسے ایجنسیوں کے ذریعہ پریشان کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ ایسے لوگوں میں کچھ لوگوں نے جیل جانا پسند کیا ، پولیس کے ڈنڈے کھائے ، حکومت کے ہر ظلم و تشدد کو برداشت کیا ۔ لیکن خاموش نہیں رہے ۔ افسوس اس بات کا ہے ہمارے ملک کے برسر اقتدار رہنماؤں نے ان تمام اعتراض اور مشوروں پر توجہ نہیں دی ، جس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج بھارت دنیا کے سامنے رسوا ہو رہا ہے اورملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے ۔ تعجب تو اس بات پر بھی ہے کہ ان تمام منظر نامے میں ملک کے سربراہ نے مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ اگر یہ ملک میں ہونے والے ظلم و ناانصافیوں پر زبان کھولتے اور ان کی مذمت کرتے تو بات اتنی دور تک نہیں جاتی اور اسلام و مسلمان دشمنوں کے حوصلے پست ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں خیر سگالی اور یکجہتی کا ماحول بنتا ۔ لیکن افسوس کہ اتنی دور اندیشی بھی نہیں دکھائی دی، لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ لوک سبھا کا انتخاب بس اب سر پرہے عوامی مفادات کے لئے کچھ عملی اور مثبت اقدام کئے نہیں، ا س لئے اب مندر ، مسجد، مذہبی منافرت ، عداوت، انتشار ، خلفشار ، تشدد، ہندوتو، گؤ رکچھا وغیرہ ہی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہیں اور ان ہی تنکوں کے سہارے یہ لوگ ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہونے کے لئے بے چین اور بے قرار ہیں ۔ اس لئے مجھے نہیں لگتا ہے سپریم کورٹ کی بار بار سخت تنبیہ، برہمی اور ہدایات کے بعد بھی حقوق انسانی و آئینی پامالی، مذہبی آمریت فرقہ واریت ، مذہبی جنون اور تشدد ، مسلمانوں کے سماجی ومعاشی بائیکاٹ، نفرت انگیز تقاریر و دھمکیوں کا سلسلہ کم ہوگااور ایسے مسئلوں میں کوئی کمی آئے گی بلکہ جیسے جیسے انتخاب قریب آئے گا ان کی شدت پسندی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔
[email protected]