آج کی دنیا میں تمام پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل یا خدمت کے بجائے بھاری منافع کا حصول رہ گیا ہے۔ صنعت و تجارت اور کاروبار زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیںہے جہاں خالص ’خدمت‘ کی بنیاد پر کام کیاجاتا ہواور منافع کا مقام ثانوی ہو۔ہر جگہ لالچ، ہوس اور بھاری منافع بنیادی اور اولین مقصد ہے۔تجارت اور کاروبار میں لالچ و ہوس کا ایک اہم شعبہ دواسازی بھی ہے۔کہنے کو تو یہ شعبہ دکھی انسانیت کی خدمت کرنے میں لگا ہوا ہے لیکن اس کا حقیقی مقصد مریضوں کو دوا اور علاج دینے کے بجائے دولت کے پہاڑ اکٹھے کرنا ہے۔ ہندوستان میں اگر صحت کے حوالے سے نظرڈالی جائے تو ایک طرف حکومت کی سنگین بے حسی نظر آتی ہے تو دوسری جانب دواساز کمپنیوں کی لوٹ کھسوٹ کا دل خراش منظر ہے۔ 2021 میں ہندوستان میں دواسازی کی صنعت کا حجم41بلین یعنی 4100کروڑ امریکی ڈالر تھا،رواں سال یہ50 بلین یا 5000 کروڑ امریکی ڈالر ہے، اگلے سال 2024 میںیہ بڑھ کر 65 بلین یا6500کروڑ امریکی ڈالر اور 6برس بعد2030میں 130 بلین یعنی 13000 کروڑ امریکی ڈالر ہوجائے گا۔اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی اس صنعت کا منافع بھی اسی حجم سے ہے۔ ہندوستان میں دوائوں پر منافع کی شرح 76.5 فیصد کے آس پاس ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دواساز کمپنیاں اور بیشتر ڈاکٹر مریضوں کو مریض سمجھنے کے بجائے ’گاہک‘ اور اپنی نقد کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔منافعوں اور کمائی کی ہوس میں مبتلاہونے کی وجہ سے ایسی ریسرچ پر بھی توجہ نہیںدی جاتی ہے کہ جس سے بیماری یا مریض کا شافی و کافی علاج ہو جائے۔ بیشتر دواساز کمپنیاں اور ان کے ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے ادارے ایسی ہی دوا ایجاد کرنے پر زور صرف کرتے ہیں کہ جن کے مریض انہیں ساری عمر استعمال کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ جیسے بلڈ پریشر کی دوا، اس میں ایک دن کے ناغہ کوبھی ڈاکٹر، مریض کیلئے انتہائی خطرناک بتاتے ہیں۔منافع کی اس بھاری شرح کو مسلسل برقراررکھنے کیلئے ایسی ہر کوشش کو ناکام بنادیاجاتا ہے جس سے سستی شرح پر مریضوں کو فوری راحت اور مستقل علاج حاصل ہوسکے۔
مریضوں کو سستا علاج مہیاکرنے کی ایسی ہی ایک کوشش ایک بار پھر ناکام بنادی گئی ہے۔نیشنل میڈیکل کمیشن (این ایم سی) نے کل اپنی وہ ہدایت واپس لے لی جس میں ڈاکٹروں سے کہاگیاتھا کہ وہ اپنے اپنے نسخوں میں برانڈیڈ دوائوں کے ساتھ جنرک دوائیں بھی لازمی طور پر لکھیں گے۔این ایم سی اگر اپنے موقف پر قائم رہتا تو اس کی نئی ہدایت کے بعد تمام ڈاکٹروں کیلئے جنرک ادویات تجویز کرنا لازمی ہوتا اور ایسا نہ کرنے یا صرف برانڈڈ ادویات لکھنے پر ان کا لائسنس منسوخ بھی ہوسکتا تھا۔
2020میں میڈیکل کائونسل آف انڈیا کی جگہ لینے والا نیشنل میڈیکل کمیشن ہندوستان میں صحت کا خودمختار نگراں ادارہ ہے۔اس کے مفوضہ کاموں میں مریضوں کوملنے والے علاج میں بہتری اور ارزانی کی نگرانی بھی شامل ہے۔اس نگراں ادارہ نے اسی ماہ 14 اگست کو ہندوستان بھر کے ڈاکٹروں کیلئے رہنما اصول جاری کرتے ہوئے جنرک ادویات کی تجویز کو لازمی قرار دیا تھا تاکہ مریضوں کو کم قیمت پر دوائیں دستیاب ہوسکیں۔ لیکن نہ تو دواساز کمپنیوں کو یہ گواراتھا کہ ان کا منافع کم ہو اور نہ ڈاکٹر ہی اس کے حق میں تھے۔این ایم سی کی اس ہدایت کے اگلے دن سے ہی ملک بھر کے ڈاکٹروں کی تنظیمیں اور دواساز کمپنیاں احتجاج پر اتر آئیں۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) نے این ایم سی کے اس قدم کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ اس سے مریضوں کو معیاری ادویات حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔آئی ایم اے نے یہ دلیل دی کہ ہندوستان میں ایک فیصد سے بھی کم دواؤں کے معیارکو جانچا جاتا ہے۔ ایسے میں اسے لازمی قرار دینے سے مریضوں کو ملنے والی جنرک ادویات کے معیار پر سوال اٹھیں گے۔آئی ایم اے یہ بودی دلیل سامنے سے دے رہی تھی، دوسری جانب دواساز کمپنیاں بھی پس پردہ اپنی ڈور ہلانے میں مصروف ہوگئیں اور این ایم سی پر ایسا دبائو بنا کہ ٹھیک 10 دنوں بعد 24اگست کو اس نے اپنی ہدایت واپس لے لی، جس کے بعد ڈاکٹروں کی یہ چھوٹ بحال ہوگئی کہ وہ جتنی چاہیں اتنی مہنگی دوائیں اپنے مریضوں کو تجویز کرسکتے ہیں،کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
ڈاکٹروں پر جنرک ادویات تجویز کرنے کی شرط لگانے سے مریضوں کو سستی دوائیں مل سکتی تھیں کیوں کہ جنرک دوائیں برانڈیڈ کے مقابلہ عام طور پر سستی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دواکا بنیادی نام اس سے منسلک مرض کے مد نظررکھاجاتا ہے اور یہ پوری دنیا میں ایک ہی ہوتا ہے، ہر دواساز کمپنی اس کوپیٹنٹ کرانے کے بعد مختلف برانڈناموں سے اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کرتی ہے۔ لیکن بنیادی نام سے ملنے والی جنرک ادویات کی قیمتوں کے تعین میں حکومت مداخلت کرتی ہے، اس لیے جنرک ادویات کی من مانی قیمتیں طے نہیں کی جاسکتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اگر ڈاکٹر مریضوں کو عام ادویات تجویز کریں تو اس سے صحت کے اخراجات میں 80 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔لیکن ہندوستان کا ’فرماسیوٹیکل مافیا ‘یہ نہیں چاہتا ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو سستا علا ج ملے اور اس کے منافع میں کمی آئے۔ جنرک دوائوں کے معاملے میں فیصلہ واپس لے کر این ایم سی نے ’فرماسیوٹیکل مافیا ‘ کی خواہش کو عوام کا مقدر بنادیاہے۔
[email protected]
سستا علاج پھر خواب بنا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS