سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے پیش رو لال بہادر شاستری کے نعرے ’جے جوان، جے کسان‘ میں ’جے وگیان‘ کا اضافہ کیا تھا تو اس وقت شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ ہندوستان کے لوگوں کے لیے بھی ’چندا ماما دور کے‘ نہیں رہیں گے مگر گزشتہ دو دہائی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہندوستان نے جو کامیابی حاصل کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سلسلے میں پیش کرنے کے لیے مثالیں بہت سی ہیں۔ حالیہ مثال چندریان-3 کی ہے۔ اس کی مکمل کامیابی کا انتظار ہے۔ اس انتظار میں شدت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ چندریان-2 سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، ان پر وہ مکمل طور پر پورا نہیں اترا تھا، البتہ امید کی جاتی ہے کہ اس بار مایوسی نہیں ہوگی۔ چندریان-3 ہندوستان کی کامیابی کا پرچم چاند پر لہرائے گا اور دنیا کے دیگر مون مشن، جن میں امریکہ کا مشن بھی شامل کر لیا جانا چاہیے، کے لیے رہنما ثابت ہوگا۔ چندریان-3 کی کامیابی کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ روس کا لونا-25 ایئرکرافٹ، چندریان-3 سے زیادہ لاگت سے بنا تھا اور یہ بات کہی جا رہی تھی کہ چندریان-3 اور لونا-25 ایئرکرافٹ میں ریس لگی ہے کہ آگے کون رہتا ہے مگر وہ قابو سے باہر ہوگیا اور سطح چاند پر کریش ہوگیا جبکہ چندریان-3 نے اب تک کا سفر بڑی کامیابی سے طے کیا ہے۔ اس کے طویل سفر کا آغاز 14 جولائی، 2023 کو دوپہر 2بج کر 35منٹ پر آندھرا پردیش کے شری ہری کوٹا میں واقع ستیش دھون اسپیس سینٹر سے ہوا تھا جب اس کی لانچنگ ہوئی تھی۔ 23 اگست کو چندریان-3 کے چاند کے جنوبی قطب پر لینڈ کرنے کا امکان ہے اور جیسے جیسے یہ وقت قریب آرہا ہے، اس مشن سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی ہیں، کیونکہ یہ کوئی عام مشن نہیں ہے۔ اس کی کامیابی کا مطلب یہ ہوگا کہ چاند کو تسخیر کرنے، زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور اس پر پانی کی تلاش کرنے کے امکانات کے کئی دروازے ایک ساتھ کھل جائیں گے۔ دراصل چندریان-3 کے روبوٹک آلے کے چاند کے اس حصے شیکلیٹن کریٹر (Shackleton crater) پر اترنے کی امید ہے جہاں ابھی کسی مون مشن کی کامیابی ایک خواب رہی ہے۔ چاند کے جنوبی قطب کی اس جگہ اندھیروںکا بسیرا ہے، یہاں اربوں سال سے سورج کی روشنی نہیں پہنچی۔ اس جگہ کا درجۂ حرارت -267ڈگری فارین ہائٹ ہے۔ سائنس دانوں کا یہ قیاس ہے کہ یہاں ہائیڈروجن کی کافی مقدار ہے، چنانچہ اس جگہ پانی کی موجودگی کا امکان ہے بلکہ سمجھا جاتا ہے کہ 10,000 کروڑ کلو کرسٹلائز پانی ہو سکتا ہے۔ ان باتوں کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ چندریان-3 کے مشن کی کامیابی نئی دنیا کی تلاش آسان بنا سکتی ہے، کیونکہ کرسٹلائز پانی کی تلاش میں کامیابی مل گئی تو پھر انسانوں کی چاند سے قربت کچھ اور بڑھ جائے گی۔ وہاں گھر بسانے کی خواہش کی تکمیل کی کوشش کی جائے گی، اس لیے چندریان-3 پر ہندوستان کے لوگوںکے ساتھ عالمی برادری کی بھی نگاہیں ہیں۔ سپرپاور امریکہ کی بھی نگاہیں ہیں۔ امریکہ بھی اپنے مون مشن، آرتمیس پروگرام پر کام کر رہا ہے۔ چندریان-3 کی کامیابی آرتمیس کے لیے آسانیاں پیدا کر دے گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آرتمیس پروگرام کے مقابلے چندریان-3 کا بجٹ کافی کم ہے۔اس کا بجٹ 615کروڑ روپے ہے جبکہ آرتمیس پروگرام کا بجٹ 8.125 ارب ڈالر ہے۔ ہندوستانی کرنسی میں ڈالر کی قدر 83 روپے مان لی جائے تو یہ رقم 674.375 ارب روپے ہوگی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسرو کا کام اعلیٰ درجے کا بھی ہے اور سستا بھی ہے۔
1969 میں چاند پر قدم رکھنے والے دنیا کے پہلے انسان، امریکہ کے ایسٹروناٹ اور ایروناٹیکل انجینئر نیل آرمسٹرانگ نے کہا تھا، ’یہ جو آدمی کے لیے چھوٹا سا قدم ہے، انسانیت کے لیے بڑی چھلانگ ہے۔‘ یہ بات بلا تامل کہی جا سکتی ہے کہ چندریان-3 کی کامیابی سائنس، خاص کر اسپیس سائنس کے لیے چھوٹا مگر بڑا قدم ثابت ہوگی۔ چندریان-3 کی کامیابی چاند سے ہندوستان اور دنیا بھر کے ملکوں کے طلبا اور لوگوں کی دلچسپی بڑھائے گی، اس لیے انتظار کی گھڑیاں بڑی بے چینی کے ساتھ گزر رہی ہیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے، امید بڑھتی جا رہی ہے کہ اسرو اور اس سے وابستہ سائنس داں تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں، مون مشن کے نئے باب کی ابتدا کرنے جا رہے ہیں۔
[email protected]
چندر یان-3: مکمل کامیابی کا انتظار!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS