بی جے پی نے دو ریاستوں کے آئندہ چند ماہ میں ہونے والے انتخابات کے لیے اپنے کچھ امیدواروں کی لسٹ جاری کردی ہے ، اگرچہ بی جے پی کا یہ قدم غیر متوقع نہیں تھا اور بی جے پی کرناٹک اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد اپنی حکمت عملی از سر نو وضع کررہی ہے۔ دو ریاستوں چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بالترتیب 21اور 39سیٹوں پر اپنے امیدواروں کے نام کا اعلان کرنے سے پارٹی کو دونوں ریاستوں میں کانگریس پارٹی کا مقابلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔خیال رہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس اقتدار میں نہیں ہے اور چھتیس گڑھ میں وہ مقتد رپا رٹی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی سینٹرل الیکشن کمیٹی کی میٹنگ میں یہ اعلان کیا گیا ہے۔ اس طرح کی میٹنگ میں چند ماہ کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی حکمت عملی پر غور کیا جائے گا۔
مدھیہ پردیش کے اسمبلی میں 230ارکان ہیں۔ پچھلے انتخابات میں 15سال کی مسلسل حکومت کے بعد اقتدار سے باہر ہوگئی تھی، مگر درمیان میں ہی کانگریس کے ممبران اسمبلی کی بغاوت کے بعد تختہ پلٹا اور کمل ناتھ کی قیادت والی حکومت اقتدار سے بے دخل ہوگئی اور جیوتی رادتیہ سندھیا کی قیادت میں کئی ممبران اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا۔ بعد ازاں ان حلقوں میں الیکشن کرایا گیا تو بی جے پی کی ممبران منتخب ہوئے۔ اب مدھیہ پردیش میں تقریباً 17سال کی حکومت کے بعد ایک مرتبہ بی جے پی کو الیکشن کا سامنا کرنے پڑے گا اور کئی حلقوں میں اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت والی حکومت سے ریاستی عوام نہ خوش ہیں۔ شاید اسی اندیشے کے پیش نظر رکھتے ہوئے بی جے پی نے اپنی سیاسی سرگرمیاںتیز کردی ہیں ، اگر چہ کانگریس اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے ہی شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت کے خلاف مہم چلائے ہوئے ہیں، مگر بی جے پی نے 39سیٹوں پر امیدواروں کا اعلان کرکے کانگریس کو شاید ششدر کردیا ہو کیونکہ کانگریس پارٹی اس طریقے سے انتخابات کی تیاری نہیں کررہی تھی۔ بی جے پی نے کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد شاید ہوش کے ناخون لیے ہیں اور آخری وقت پر امیدواروں کے نام کا اعلان کرنے کا رسک نہ لیتے ہوئے قبل از وقت اعلان کرکے امیدواروں کو زیادہ مہم چلانے کا موقع دینے کی کوشش کی ہے۔ دراصل گزشتہ 6ماہ سے ہی ریاست کے سیاسی ماحول میں کافی حدت محسوس کی جا رہی ہے ۔ پچھلے دنوں ایک قبائیلی کے اوپر پیشاب کرنے کے معاملہ کے بعد بی جے پی کو لگا تھا کہ ریاست کے قبائیلی علاقوں میں اس کی مقبولیت کو دھکا پہنچا ہے اسی وجہ سے شیوراج سنگھ چوہان نے نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی اور اس قبائیلی شخص کے گھر جا کر اس کے پائوں دھوئے اور اس کو پکا مکان بنا کر دینے کا اعلان کیا، مگر یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مدھیہ پردیش میں لگاتار ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جہاں قبائیلیوں اور دلتوں کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی ہیں ۔ قبائیلیوں کو گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹنے کے واقعات کو بھی بی جے پی کو نقصان پہنچایاہے، جبکہ اندرونی محاذ پر شیوراج سنگھ چوہان کے خلاف بی جے پی کے لیڈروں میں بے اطمینانی ہے، کیونکہ وہ لگاتار 17سال سے زیادہ عرصہ سے بی جے پی کی سب سے اہم عہدے پر فائز چلے آرہے ہیں۔ دوسری جانب کانگریس کو داغ مفارقت دے کر بی جے پی میں جانے والے سندھیا خیمے کے ممبران اسمبلی نے بھی بے چینی ہے ، بے چینی دوطرفہ ہے۔ بی جے پی کے لیڈر سندھیا کے وفاداروں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ا ن میں کئی ایسے لیڈر ہیں جن کا ٹکٹ کاٹ کر بی جے پی نے ضمنی انتخابات کے دوران ٹکٹ سندھیا کے لوگوں کو ٹکٹ دیا تھا۔ ظاہرہے کہ یہ کشمکش بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا کرنے والی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی اس طرح کے اعلانات کرکے کس طرح اپنی حکومت برقرار رکھ پائے گی۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے نقطہ نظر سے بھی مدھیہ پردیش ایک اہم صوبہ ہے جس میں لوک سبھا کی 29 سیٹیں ہیں جن میں سے 28پر بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور ایک سیٹ کانگریس کو ملی تھی۔
دوسری جانب چھتیس گڑھ بھوپیش بگھیل کی قیادت والی سرکار ہے اور بگھیل ایک منجھے ہوئے منتظم اور وزیراعلیٰ ہیں ۔ انہوںنے پارٹی کے اندر کسی بھی متوازی لیڈر شپ کو سر اٹھانے نہیں دیا اور ریاست کے قبائیلی اور ہندو اکثریتی فرقے کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ کار گر فیصلے کیے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں عام آدمی کو مہنگائی اور اقتصادی پریشانیوں سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ بی جے پی کے تین مرتبہ کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ کو بے اثر کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ خیال رہے کہ 90سیٹوں والی چھتیس گڑھ اسمبلی میں کانگریس کو غیر معمولی 71سیٹیں ملی تھیں، جبکہ بی جے پی کو 15اور بی ایس پی کو 2سیٹیں ملی تھیں ، ایک سیٹ جے سی سی کے پاس گئی تھی۔ مدھیہ پردیش کی طرح چھتیس گڑھ میں لوک سبھا میں بی جے پی کو زبردست سبقت حاصل رہی ہے۔ چھتیس گڑھ میں لوک سبھا کی 11سیٹیں ہیں ، بی جے پی کے پاس 10سیٹیں ہیں اور ایک سیٹ کانگریس کو ملی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کس طرح بھوپیش سنگھ بگھیل کی ایک اچھے منتظم کی شبیہ کو متاثر کرتی ہے اور ان کے مقابلے میں کس کو وزیراعلیٰ کے چہرے کے طور پر پیش کرے گی۔
بی جے پی کے سامنے کانگریس کو شکست دینے کا چیلنج
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS