منی پورمیں امن: بے حد تنگ ہے آگے کا راستہ

0

پنکج چترویدی

ملک کی سب سے بڑی پنچایت پارلیمنٹ میں بحث تو منی پور کے بارے میں تھی لیکن اس بحث نے منی پور کو مزید زخمی اور مایوس کر دیا۔ ریاست کا ہر فرد آج آئین کے بجائے ہتھیارپر انحصار کر رہا ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں کے لوگ گزشتہ سو دنوں سے سوئے نہیں ہیں۔ ہزاروں لوگ خوف، بے خوابی، خوراک اور ادویات کی کمی کے باعث ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ تقریباً 12,600 لوگ جائے پناہ کے لیے پڑوسی ریاست میزورم چلے گئے۔ دہلی اور دوسری جگہوں پر ہجرت کرنے والے لوگ بھی ہزاروں میں ہیں۔ اب وہاں کے لوگ پارلیمنٹ سے نا امید ہوگئے ہیں اور ہتھیاروں پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔ ہو بھی کیوں نہیں، ہر ایک کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور سیکورٹی فورسز کے ہتھیاروں کا ذخیرہ لٹ چکا ہے۔
ادھر پولیس تھانوں میں جرائم کے اتنے معاملے درج کیے گئے ہیں کہ منی پور پولیس کے پاس نہ تو اتنا عملہ ہے اور نہ ہی عدالتی نظام کی اتنی صلاحیت کہ سبھی کو انصاف مل پائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس سے بے اطمینانی میں اضافہ ہوگا اور وہاں سماج کے پاس جس طرح کے ہتھیار ہیں، ان پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا۔6 مئی سے30 جولائی تک ہی ریاست میں6523 کیس درج کیے گئے۔ اس کے علاوہ زیرو ایف آئی آر کی تعداد 11,414 تک پہنچ گئی ہے۔ اب تک درج معاملوں میں قتل کے صرف 72 معاملے ہیں جبکہ وہاں اموات کی تعداد 178 سے زیادہ ہے۔ اجتماعی عصمت دری کے3، خواتین سے ناروا سلوک کے 6 کیس ہیں۔ 4454 معاملوں میں آگ زنی اور 4148 کیسوں میں لوٹ کی دفعہ لگی ہے۔ 46 کیس عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے ہیں جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے جرائم سو سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر جرائم سیشن ٹرائل کے ہیں یعنی جن میں سات سال سے زیادہ کی سزا کا التزام ہے۔ اب منی پور میں نہ اتنی پولیس ہے جو ان کی تفتیش کرسکے، نہ اتنی عدالتیں ہیں کہ مقدمات کی سماعت کر سکیں، نہ سرکاری وکیل ہے۔ اس سے ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔
بشنو پور، تشدد سے متاثرہ منی پور کا ایک قصبہ، آبادی بہ مشکل 23 ہزار لیکن منی پور کا ثقافتی دارالحکومت کہلاتا ہے- یا کہلاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ کبھی بھگوان وشنو کا مسکن تھا یہاں۔ کئی خوبصورت اور پانچ سو سال پرانے وشنو مندر ہیںیہاں۔ دنیا کی انوکھی لوکٹک جھیل یہیں ہے اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آئی این اے نے سب سے پہلا جھنڈا اسی ضلع کے موئرنگ میں لہرایا تھا۔ یہاں سے سڑک سے چلیں تو17 کلومیٹر دور ہی میانمار کی ارم میجرو سرحد ہے۔ بیچ میں ہے، جہاں چند ماہ قبل میانمار کی فوج کے ذریعے باغیوں پر فضائی حملہ کرنے کے دوران بم کے ٹکڑے بھی گرے تھے۔ میانمار کا یہ علاقہ عسکریت پسندوں کے کیمپ کے لیے بدنام ہے۔ اتنے حساس مقام پر ابھی 3 اگست، جمعرات کو جو ہوا، وہ اس سے پہلے شاید صرف سنیما میں ہی ممکن تھا۔ 45 گاڑیوں میں سوار تقریباً 500 لوگ صبح ساڑھے نو بجے نرسینا میں واقع انڈیا ریزرو بٹالین ’آئی آر بی‘2 کے صدر دفتر پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ آدھے گھنٹے تک وہاں ان لوگوں کا قبضہ رہتا ہے۔ اگر موئرانگ پولیس اسٹیشن میں آئی آر بی کے کوارٹر ماسٹر او پریمانند سنگھ کی شکایت پر یقین کیا جائے تو حملہ آوروں نے صبح 9:45 بجے کے آس پاس مین گیٹ پر گارڈ اور کوارٹر گارڈ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ پھر ان لوگوں نے اسلحہ خانے کے دو دروازے توڑ کر بڑی تعداد میں اسلحہ، گولہ بارود، جنگ کے سامان اور دیگر سامان لوٹ لیے۔ اس میں ایک اے کے سیریز کی اسالٹ رائفل، 25 انساس رائفل،4 لیتھل رائفل،5 انساس ایل ایم جی، 5 ایم پی-5 رائفل، 124ہینڈ گرینیڈ، 21 ایس ایم سی کاربائن،195 ایس ایل آر، سولہ9 ایم ایم پستول، 134 ڈیٹونیٹر، 23 جی ایف رائفل، اکیاسی 51 ایم ایم ایچ ای بم کے ساتھ 19 ہزار کارتوس بھی ہیں۔ دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ ہجوم پر قابو پانے کے لیے 320 راؤنڈ فائرنگ کی گئی اور آنسو گیس کے20 گولے داغے گئے۔ حیرت کی بات ہے کہ نہ تو اس سے کوئی زخمی ہوا اور نہ ہی پکڑا گیا۔
منی پور میں جب سے فسادات شروع ہوئے ہیں، تبھی سے سیکورٹی فورسز کے ہتھیار تو لوٹے ہی گئے، امپھال شہر کی ہتھیار کی کئی دکانوں کو بھی لوٹ لیا گیا۔ تقریباً 40 لاکھ آبادی والی ریاست میں پہلے سے ہی ایک لاکھ بندوق کے لائسنس ہیں۔ کئی کالعدم تنظیمیں اپنے ہتھیار اپنے پاس رکھ سکتی ہیں، اس کا باقاعدہ معاہدہ مرکزی حکومت کے ساتھ ہے۔ ایسے ہتھیاروں کی تعداد کتنی ہے؟ کسی کو نہیں پتہ!
یہ سرکاری اعداد و شمار ہی ہیں کہ 3 اگست سے پہلے پورے منی پور میں 37 مقامات پر ہتھیاروں کی لوٹ مار ہوئی۔ پولیس ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق منی پور پولیس ٹریننگ کالج سے 446 ہتھیار لوٹے گئے۔ 7 منی پور رائفل سے 1598 ہتھیار لوٹے گئے۔ 8 آئی آر بی سے 463 ہتھیار لوٹے گئے۔ لوٹے گئے ہتھیاروں میںایل ایم جی، ایم ایم جی، ایسالٹ، انساس اے کے، ایم پی-5، اسنیپر، پستول اور کاربائن شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ 10 جگہ سے کوکی برادری نے ہتھیار لوٹے اور 27 جگہ سے میتئی نے۔ لوٹے گئے کارتوسوں کی تعداد 6 لاکھ ہے۔
ایک ایسی ریاست جو گزشتہ 100 دنوں سے تشدد، عداوت اور انارکی کی آگ میں جل رہی ہے، وہاں ایک طرف سیکورٹی فورسز کے ہتھیار لوٹ لیے گئے ہیں وہیں دوسری طرف فساد کرنے والے فوج سے مقابلہ کرنے لائق ہتھیار لے کر گھوم رہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ لگتی ہے کہ سارے عام لوگ کسی نہ کسی کے پیچھے کھڑے ہیں اور کسی کو انتظامیہ اور پولیس پر بھروسہ نہیں ہے۔ کوکی نہیں چاہتے کہ ان کے علاقے میں ریاستی پولیس آئے، میتئی اَسم رائفلز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اسی وشنوپور میں ابھی 4 اگست کو ہی دونوں سیکورٹی فورسز آمنے سامنے آگئیں۔ پہلے بھی اس طرح کے افسوسناک واقعات یہاں ہوتے رہے ہیں۔ آمریت، انارکی اور تشدد جیسے ریاست کی سانسوں میں پیوست ہو گئی ہے۔
یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ گزشتہ دو برس میں میانمار کے تقریباً ایک لاکھ پناہ گزیں، جوکہ کوکی- چن قبائل سے ہیں، میزورم میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی وہاں کے مقامی سیکورٹی فورسز اور فائر سروس سے تھے اور کئی حکومت مخالف مسلح تنظیموں سے۔ منی پور کی لپٹیں صرف اس ریاست کی حد تک ہی محدود نہیں ہیں، تمام شمال مشرقی ریاستیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اب وہاں دونوں برادریوں کے لوگ یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ (UNLF)، پیپلز لبریشن آرمی(PLA)، کانگلیئی یاوول کنا لُپ(KYKL) اور پیپلز ریوولیوشنری پارٹی آف کانگلیئی پاک(PREPAK) جیسی کالعدم تنظیموں کو حمایت اور فروغ دے رہے ہیں۔ ہتھیاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
خطرہ یہ بھی ہے کہ کئی دہشت گرد اور منظم جرائم پیشہ گروہ اب منی پور اور میزورم کے ایسے لوگوں سے رابطے میں ہیں جن سے وہ ہتھیار خریدسکیں۔ منی پور میں افیون کی کاشت اور اس پیسے کا غلط استعمال بھی مشہور ہے۔ حکومت کو اب یہاں پر امن کی کوششوں پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا اور اس کا راستہ اسی وقت آسان ہوگا، جب سیکورٹی فورسز سے لوٹے گئے اور سرحد پار سے غیر قانونی طور پر آئے ہتھیاروں کو ضبط کرنے کی متعینہ وقت کی مہم چلائی جائے۔ عوام کا اعتماد جیتنے کے لیے منتخب نمائندے، مذہبی لیڈران اور انتظامیہ ایک ساتھ متحرک ہوں۔ ہندوستان کے کسی بھی دوسرے حصے میں اتنی بڑی تعداد میں اتنے مہنگے ہتھیار غیر سیکورٹی فورسز کے پاس نہیں ہیں جتنے منی پور میں ہیں اور اس کے تئیں لاپروائی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ اتنے ہتھیار کافی ہیں، مزید اور ہتھیار لوٹنے کے لیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS