صبیح احمد
’ہم بھارت کے لوگ‘پورے جوش و خروش کے ساتھ جشن آزادی مناتے ہیں۔ اس موقع پر پورا ملک حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہوتا ہے۔ ہر طرف قومی پرچم ترنگا لہرا رہا ہوتا ہے اور قومی نغمہ کی گونج ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔ ہر ہندوستانی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوتی ہے اور سبھی کا سر فخر سے اونچا ہوتا ہے۔ کیوں نہ ہو؟ بڑی قربانیاں دے کر حاصل ہونے والی آزادی کو ہم نے اب تک سنبھال کر جو رکھا ہے۔ ان 76 برسوں میں ہم نے صرف اپنی آزادی کا تحفظ ہی نہیں کیا بلکہ تمام شعبوں میں قابل فخر ترقی بھی کی ہے۔ ہمیں دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا فخر حاصل ہے۔ ہم نے تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، صحت، زراعت، اقتصادیات اور فن و ثقافت یعنی تمام شعبوں میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے اور یہ سب بحیثیت قوم ہماری اجتماعی کوششوں اور محنتوں کا ثمرہ ہے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے یہ سب بلا تفریق کندھے سے کندھا ملا کر متحد ہو کر اور مشترکہ طور پر قومی جذبہ کے تحت حاصل کیا ہے۔ بہرحال جہاں ہمیں یہ کامیابیاں اور حصولیابیاں ملی ہیں، وہیں اسی کے ساتھ ساتھ ہم سے کئی بڑی بھول اور غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں جن کی تلافی اگر نہیں ہوئی تو چاند میں گہن لگنے کے مترادف ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں لیکن 1970 کی دہائی میں ہمیں ایمرجنسی کا وہ دور بھی دیکھنا پڑا جس میں ہمارے بنیادی حقوق تک چھین لیے گئے۔ تعلیم کے شعبہ میں ہماری شرح خواندگی بلا شبہ پہلے سے کافی بہتر ہوئی ہے لیکن تعلیم کا جو اصل مقصد ہے، وہ ابھی تک ہم سے دور ہی ہے۔ صرف دستخط کر لینے سے شرح خواندگی میں اضافہ تو ہو سکتا ہے لیکن تعلیم کا جو اصل مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوپاتا۔ ہم نے ’چندریان‘ کو کامیابی کے ساتھ خلا میں نصب کر دیا اور ایک ساتھ 100 سے زائد سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ خلا میں چھوڑ کر ایک ریکارڈ تو قائم کر لیا ہے۔ اب سورج کے مطالعہ کے لیے بھی ’آدتیہ ایل1-‘ مشن کی تیاری ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اب بھی مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے رہتے ہیں جبکہ ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔‘ ایمس اور اس جیسے دیگر اداروں نے صحت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں لیکن اب بھی بی آر ڈی میڈیکل کالج سانحہ جیسے واقعات اکثر وبیشتر پیش آتے رہتے ہیں۔ آج بھی ہمیں پینے کا صاف پانی نصیب نہیں۔ رفع حاجت کے لیے آج بھی بڑی تعداد کھلے میدان کا استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ زراعت کے شعبہ میں ویسے تو ہم خود کفیل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کسانوں کی خودکشی کے واقعات اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ غربت اور بھکمری کی وبا سے اب بھی ہمیں مکمل طور پر نجات نہیں مل سکی ہے۔ ملک کی معیشت کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ فی الحال دنیا کی پانچویں سب سے بڑی اور اگلے 5 سال میں تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ نسبتاً 90 کی دہائی کے بعد سے ملک کی معیشت کے شعبے میں کافی بہتری آئی ہے لیکن ابھی تک اس کا فائدہ عام لوگوں تک جتنا پہنچنا چاہیے، نہیں پہنچ سکا ہے۔ سماجیات ہمارے ملک میں سب سے غیر توجہ یافتہ شعبہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی و معاشرتی پسماندگی دور کرنے میں ہمیں خاطرخواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے اور اس کا راست اثر قومی یکجہتی اور اتحاد پر پڑ رہاہے۔
حالانکہ ہم نے ابھی تک جو بھی کامیابی حاصل کی ہے اس میں سماج کے ہر طبقہ و فرد کا کردار رہا ہے لیکن اس کے باوجود احساس اجتماعیت کا جو جذبہ بطور شہری سبھی لوگوں میں ہونا چاہیے، اس کا واضح فقدان نظر آتا ہے۔ آزادی کے بعد سے حکومتی سطح پر برداشت، رواداری، سیکولرازم اور قومی اتحاد و سالمیت کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری رہیں۔ ملک کے آئین میں تمام لوگوں کو بلا تفریق مذہب، ذات، نسل اور جائے پیدائش یکساں مواقع فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بہت ’غور و فکر‘ کے بعد ہندی کو ملک کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک سماج میں خلا برقرار ہے اور اتحاد کا جذبہ تیزی سے مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ مادر وطن پر مر مٹنے کے جذبہ کے بجائے مذہب اور زبان سے وابستگی کو فوقیت حاصل ہے۔ ابھی ملک میں قومی اتحاد کو سب سے بڑا خطرہ فرقہ واریت، علاقائیت اور لسانی اختلافات سے درپیش ہے۔ عدم برداشت اور ذاتی مفاد پرستی جیسے ایشوز نے سماج کو تقسیم کی راہ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ بد قسمتی سے آج کل حکومتی سطح پر آپسی بھائی چارہ اور ہم آہنگی کو بڑھاوا دینے کے سلسلے میں کو شش کرنے کے بجائے ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں اور ایسے فیصلے لیے جاتے ہیں کہ لوگوں میں احساس عدم تحفظ پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حب الوطنی ہرگز تھوپی نہیں جا سکتی۔ یہ ایک داخلی کیفیت اور احساس ہے جو انسان کے اندر اپنے وطن سے محبت کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ چیز کسی فارمولہ یا قانون سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ساز گار ماحول اور موافق حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تحفظ، رواداری اور خیرسگالی کا خوشگوار ماحول، جس میں ہر آدمی کو یہ احساس ہو کہ یہ ملک اسی طرح اس کا بھی ہے جس طرح کہ دوسروں کا، تبھی قومی اتحاد ممکن ہوسکے گا۔ اس مقصد کو پانے کے لیے ملک کے ہر شہری کو سب سے پہلے خود کی شناخت ایک ہندوستانی کے طور پر کرنی ہوگی، بنگالی پنجابی، ساؤتھ انڈین یا نارتھ انڈین کے طور پر بعد میں۔ آج صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ شناخت ملک کی بنیاد پر نہیں بلکہ ریاست، علاقہ، زبان، مذہب، ذات اور کلچر کی بنیاد پر ہونے لگی ہے۔ بحیثیت ہندوستانی ہماری مشترکہ شناخت ہونی چاہیے اور اپنی اس شناخت پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔
فرقہ پرستی سب سے بڑا چیلنج ہے جو ہمارے سماج میں دراڑ پیدا کر رہا ہے، اس لیے قومی اتحاد و سالمیت کے فروغ کے لیے ہمیں فرقہ پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنی ہوگی۔ ہمیں اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ زبان ما فی الضمیر کی ادائیگی اور ترسیل کا صرف ایک ذریعہ ہے ، یہ کسی کی شناخت کا وسیلہ نہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے مذہب اور زبان کا ہر حال میں احترام کرنا ہوگا۔ ہمارے آئین میں کئی زبانوں کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن ہم بحیثیت فرد صرف ایک ہی زبان کو تسلیم کرتے ہیں جسے ہم بولتے ہیں جبکہ دیگر تمام کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کا تقاضہ ہے کہ ہم ان تمام زبانوں کا احترام کریں جو ملک میں بولی جاتی ہیں۔ ہمیں اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہندوستان مختلف مذاہب، زبانوں، پوشاک، خوراک وغیرہ والا ایک متنوع ملک ہے، اس لیے ملک میں قومی اتحاد کے فروغ کے لیے اس تکثیریت کا احترام بے حد ضروری ہے۔ان تمام چیزوں کا دار و مدار لوگوں کی ذہنیت پر ہے۔ ہم لوگ اسی طرح سوچتے اور کام کرتے ہیں جس طرح ہمارا سماج ہم سے سوچنے اور کام کرنے کی توقع کرتا ہے۔ تمام سماجی توہمات کی چھان بین اور انہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم صحیح راستے پر چل سکیں۔ لوگوںکی ذہنیت کو بدلنے میں تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم کے ساتھ ساتھ والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں اور ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں۔
قومی اتحاد درحقیقت موافق حالات ہیں جو ملک کے لوگوں کو ایک ساتھ پروتے ہیں۔ ملک و قوم کی تعمیر اس میں بسنے والے لوگوں کے ذریعہ ہوتی ہے، اس لیے مجموعی طور پر ترقی کے لیے تمام لوگوں میں اتحاد اور مشترکہ شناخت ضروری ہے۔کسی بھی ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ داخلی طور پر اتحاد و سالمیت کا جذبہ ہو۔ ایک ملک کے اندر اتنی طاقت لازمی طور پر ہونی چاہیے کہ اس کی وحدت کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو وہ دور کرسکے۔ یہ رکاوٹیں بہت عام ہیں: ہم لوگ ذات، مذہب اور زبان کی بنیاد پر وقفہ وقفہ سے بہت سارے پرتشدد ٹکرائو دیکھ چکے ہیں۔ اس طرح کے معاملوں سے ملک کمزور ہونے لگتا ہے اور اس سے ہند مخالف طاقتوں کو ہمارے قومی اتحاد کو کمزور کرنے کا حوصلہ مل سکتا ہے۔ ہمیں اس کی قطعی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
[email protected]