امریکہ اور مغربی ایشیا: ایک قدم آگے دوقدم پیچھے

0

شاہنواز احمد صدیقی

امریکہ مغربی ایشیا میں زبردست عمل دخل رکھتاہے۔ اقتصادی سفارتی اور دیگر تمام محاذوں پر دونوں خطوں میں تعاون اور باہمی افہام وتفہیم ہے۔ خاص طورپر مغربی ایشیا کی سب سے بڑی طاقت سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعاون اس کی مثال نہیں ملتی۔ بدلتے حالات اور سعودی عرب میں جب سے نئی نسل کے ہاتھ میں قیادت آئی تب سے حالات نے وہ کروٹ لی ہے، جس کے بارے میں مغربی ممالک بطور خاص امریکہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔اس بدلی ہوئی صورتحال کو کئی مبصرین آنکھیں دکھانا کہتے ہیں۔یہ تبدیلی خطے اور پورے ایشیا کے منظر نامہ میں دوررس نتائج کا کئی طرف واضح اشارہ کرتی ہے۔امریکہ اور اس کے حواری اس بدلی ہوئی صورتحال سے اس قدر پریشان ہیں اور ان کو لگتاہے کہ علم روحانیت ،مادی دولت اور معدنی وسائل سے مالا مال مغربی ایشیا ان کی دسترس سے باہر نکلتا جارہاہے۔خلیجی ممالک اسی دولت اور وسائل کی وجہ سے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اگر چہ یہ علاقے دنیا کے دوسرے علاقوں کی طرح آزاد ہوگئے تھے، مگر مغربی ممالک نے آزادی دینے کے باوجود ان ملکوں کو اپنی دسترس اور گرفت میں رکھنے کی کوشش کی اور ایک ایسا فساد کا بیج (اسرائیل )اس علاقہ میں بودیاجو ان ممالک کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتاہے، اس نے کئی عرب ملکوں کی زمین پرغاصبانہ قبضہ کررکھا ہے اور آج تک معصوم لوگوں کو بدترین صدمات سے دوچار کررہاہے اور اس نومولود ملک کو تمام حربی اور عسکری ،ہتھیار اور سفارتی اور اخلاقی قوت سے آراستہ کرکے زخموں کو کرید نے کا کام کرایا جاتاہے۔اس صورت کو مد نظر رکھتے ہوئے خلیجی ملکوں نے اپنے تحفظ کے لئے ایک مضبوط اور جدید حفاظتی حصار قائم کیا جس کو خلیج تعاون کو نسل یاجی سیاسی کہتے ہیں ، یہ کونسل ان بیرونی طاقتوں کے خلاف حفاظتی حصار ہے اور صدام حسین جیسے سرپھرے حکمرانوں کے خلاف بھی ایک اتحاد ہے جو اپنی ذاتی خواہشات کی وجہ سے پڑوسی ملکوں کے تحفظ اور امن وامان کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں اور بنی نو انسان کو ایسے خطرات سے دوچار کرتے ہیں جو دہائیوں تک تکلیف دیتے ہیں۔
بہرکیف آج کے بدلے ہوئے حالات میں جی سی سی ممالک نے نہ صرف خطے میں اپنے گرد حفاظتی گھیرامضبوط کیا ہے بلکہ یہ ممالک خطے اور دیگر طاقتوں کے ساتھ اپنا تعاون ،ترسیل اور لین دین بڑھا کر اپنے قدموں پر کھڑے ہورہے ہیںاور اپنی ضروریات کے لئے کسی ایک طاقت یا مکتب فکر کے دستِ نگر نہیں رہے ہیں۔ اپنی طاقت عالمی اداروں میں اپنی اجارہ داری کے نشہ میں بدمست ان مغربی طاقتوں کو اب ان ممالک نے ٹھینگادکھانا شروع کردیاہے، جو اب تک ان کو اپنا پچھولگو سمجھتی رہی ہیں۔
سعودی عرب نے موجودہ باعمل اور سرگرم قیادت سے پورے خطے میں برادرکشی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے،وہ ان حریص خارجی طاقتوں پر بہت ہی کاری وار ہے۔ان کو لگتاہے کہ مغربی ایشیا میں ایران یا دیگر ممالک کا خوف دکھا کر اب خلیجی ممالک کو احساس عدم تحفظ میں مبتلا نہیں کیا جاسکتاہے۔ یہ ممالک بیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں اپنی لگام دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایران ،ترکیہ اور چین وغیرہ کے ساتھ تجارتی ،صنعتی تعاون کو فروغ دے کر 2011کے بعد کے ماحول سے چھٹکارہ حاصل کرکے اور مصنوعی بحرانوں سے دامن جھٹکنا شروع کردیا گیا ہے۔ ایران کی معیشت جو مغربی ممالک کے بائیکاٹ کی وجہ سے بدترین دور سے گزررہی ہے اور اس کو اپنے یہاں اور پڑوس ممالک کی طر ف سے سہارا مل جانے کے بعد قوت فراہم کرائی جاسکتی ہے۔اس طرح ترکیہ جو یوروپ کی بڑی فوجی اور سیاسی طاقت ہے اور ناٹو ممبر ہونے کے باوجود اس کو الگ تھلگ کرنے اور یوروپی یونین کی مکمل ممبرشپ نہ دے کر ترقی میں روڑے اٹکانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے،مگر عرب ممالک نے ان دونوں طاقتوں کے ساتھ مذاکرات ،ترسیل اور تعاون کے دروازے کھول کر مضبوط قوت ارادی ،ملت اسلامیہ کے عزت نفس پرزوردینے کا ثبوت دیاہے۔ترکی کی معیشت کو سعودی عرب نے ایسے برے وقت میںسہارا دیاہے ،جب حلیف اس کو ٹھینگا دکھارہے تھے۔ یو اے ای ، قطراس کی جدید ٹیکنالوجی ، عسکری قوت اور مہارت کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اس تناظر میں سعودی عرب کو لگتاہے کہ خطے سے خارجی عمل دخل کو ختم کرکے آگے بڑھاجائے۔ Abraham Accordکے ذریعہ تصادم اور ٹکرائوکو ختم نہیں کیا جاسکتاہے، تو کم ضرور کیاجاسکتاہے اور اصل مسئلہ کو حل کرانے کے لئے مغربی ممالک کو دبائو ڈالا جارہاہے کہ وہ نسل پرست ریاست کو لگام دے۔اس وقت امریکہ سعودی عرب پر دبائو ڈالنے کی کوشش کررہاہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ راوبط استوار کرے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کئی عرب ملکوں کی زمین پر قبضہ کرکے اپنے بڑے جغرافیائی علاقوں پر قبضہ کرنے والی قوت اپنے ناپاک عزائم اور غیرانسانی حرکتوں اور ہتھکنڈوںکے باوجود کس طرح قابل قبول ہوسکتی ہے۔ارض فلسطین میں ہرروز معصوم لوگوں کاخون بہہ رہاہے ،پوری عالمی برادری ،بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں محض تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ایسے حالات میںفرضی جمہوریت نوازی ایک نسل ، ایک قوم اور ایک عقیدے کے لئے جابرانہ نظام اور دوسرے کے لئے جمہوری اقدار کی حکمت عملی مغرب کی دوہری اور دوغلی پالیسی کا خاتمہ ضروری ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS