عبدالسلام عاصم
سائنس کی دریافتیںعلم سے خوف کھانے والوں کے نزدیک یوں تو ہر عہد میں متنازعہ رہیں لیکن اس نزاع کی وجہ سے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ علم دشمنوں نے سائنس سے خود استفادہ نہ کیا ہو۔ پرنٹنگ پریس سے لاؤڈ اسپیکراور برقی نشریات سے انٹرنیٹ تک ہر انقلاب کو ظلمت پسندوں نے بھی اپنے کاز کیلئے خوب بھنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روشنی اور تاریکی میں آنکھ مچولی کا کھیل مصنوعی ذہانت کی کامیاب سائنسی تلاش کے موجودہ عہد میں بھی جاری ہے۔
مصنوعی ذہانت ہے کیا! اور اہلِ جنوں اس سے کیا کام لینا چاہتے ہیں کہ فرزانے اس قدر پریشان ہیں !! جہاں تک قربِ قیامت کی نشانیوں کا تعلق ہے تو ہر عہد کی نئی ایجاد کو کل بھی قربِ قیامت کی نشانی کا ہی نام دیا گیا تھا اور آج بھی اسی کا ورد جاری ہے۔ ان ایجادات سے بہرحال قیامت تو کبھی قریب نہیں آئی، البتہ قیامت کے تصور کو شعوری طور پر سمجھنے میں آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ کچھ اہلِ مذاہب دنیا وما فیہا اور اس کے تما م تر متعلقات کے تعلق سے اب بہت حد تک نارمل طریقے سے سوچنے اور سمجھنے لگے ہیں۔ بہر حال یہ سلسلہ ابھی اتنا آگے نہیں بڑھا کہ ماننے اور منوانے والوں کا وہ کاروبار ٹھپ ہو جائے جس کی وجہ سے انسانی زندگی کے تقدس کی بدترین پامالی ہو رہی ہے۔
مصنوعی ذہانت کی جستجو کا سفر اسی روز شروع ہو گیا تھا جس دن انسانی دماغ نے زندگی کے معاملات میں صنعت و حرفت کو بڑے پیمانے پر دخیل کرنے کا خاکہ تیار کیا اور پھر عملاً اس رُخ پر سرگرمیوں کا آغاز کر دیا گیا۔ صنعتی انقلاب کے عہد بہ عہد سفر میں عصری دنیا اس تغیر کے چوتھے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ پہلا صنعتی انقلاب 1765 میں شروع ہوا تھا۔ دوسرا 1870 میں برپا ہوا۔ تیسرے انقلاب سے دنیا 1969 میں بہرہ ور ہوئی اور چوتھے صنعتی انقلاب کومصنوعی ذہانت کا نام دیا گیا ہے جس سے ہم سبھی گزر رہے ہیں۔
اولین صنعتی انقلاب میں سب سے بڑی تبدیلی میکانائزیشن کی شکل میں آئی۔ اس نے زراعت کو سماجی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی میں تبدیل کر دیا۔ دوسرے صنعتی انقلاب میں زبردست تیکنالوجیائی پیش رفت ہوئی اور بجلی، گیس اور تیل کے ذریعہ توانائی کے نئے وسائل سامنے آئے۔ تیسرا صنعتی انقلاب نیوکلیائی توانائی کا تھا جس سے دنیا بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں فیض یاب ہوئی۔ چوتھا صنعتی انقلاب ہمارے لیے مجازی حقیقت کی دنیا تشکیل کرتا ہے جس میں انسان طبیعات کے قوانین کا رُخ موڑ سکتا ہے۔ انسان اپنی اس اہلیت سے آگاہ نہیں تھا۔ اسے مرحلہ وار عطائی علم نے اس سے آشنا کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہانت کسی سوچنے والے انسان کی جگہ ہرگز نہیں لے سکتی، بلکہ وہ ایک ایسی تیکنالوجیائی مشین ہوگی جو انسانی انداز میں سوچنے کی متحمل ہوگی۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ وہ غرض پرست انسانوں کی طرح از خود غلط قدم بھی اٹھا نا شروع کر دے۔ البتہ اس کے اندر جاننے اور سمجھنے کی جستجو رکھنے والے انسان کی طرح غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت ہوگی جس سے وہ ازخود استفادہ کرے گی۔ اس کے برعکس جاننے اور سمجھنے سے معذور انسان فطری طور پر اس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ صرف ماننے اور منوانے کی ضدپر یقین رکھتے ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھا اور سمجھا جائے تو مصنوعی ذہانت کے طور پر انتہائی انقلاب آفریں ٹیکنالوجی دنیا کے سامنے آرہی ہے۔ اس کے نتیجے میں آنے والی دہائیوں میں ہم دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں دیکھیں گے۔ اس ذہین ترین نظام سے ایسے کئی بھرم ٹوٹیں گے جو عام ذہنوں میں مبنی بر اندیشہ موجود ہیں یا ٹھونس دیے گئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت والا ٹیکنالوجیائی کمپیوٹرایک ایسا آلہ ہے جو نہ صرف انسانی انداز میں سوچنے اور عمل کرنے کا متحمل ہے بلکہ یہ اپنی ہی غلطیوں سے سیکھنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کرتے رہنے کی صلاحیت سے بھی لیس ہوگا۔
صنعتی انقلاب کے اس چوتھے دور کو مصنوعی ذہانت کا نام پہلی بار سابقہ صدی میں 1956 میں دیا گیا تھا۔ اس ذہانت کو سامنے لانے کا بنیادی مقصد ویسے تو سابقہ مشینی کوششوں کا دائرہ بڑھانا تھا لیکن ابتدائی کامیابی کے دوران ہی اس مشینی عمل کو ذہنی طور پر متحرک پایا۔ اس طرح عام تفہیم کیلئے اسے مصنوعی ذہانت کا نام دے دیا گیا۔ صنعتی انقلاب کا آغاز جہاں پیداواری صلاحیت میں اضافے کی نیت سے کیا گیا تھا، وہیں اس کے چوتھے مرحلے کا ٹارگیٹ بھی وہی ہے۔ اس میں بہرحال انسانی دخل کا دائرہ محدود کیا جا رہا ہے تاکہ یہ اپنے طور پر ممکنہ اندیشوں کو ٹال کر آگے بڑھے اور امکانات کے در وا کرے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کا اپنے طور پر خود کار ہونا انسانی زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں تبدیلیوں کا موجب ہوگا۔
اس کی عام تفہیم اگر بہت آسان نہیں تو اتنی مشکل بھی نہیں کہ حقیقی اور سائنٹفک علمی ذہن رکھنے والے زند گی کے دوسرے شعبوں کے وابستگان اسے سمجھ نہ پائیں۔ اطلاع کے مطابق امریکہ میں سان فرانسسکو کی بعض سڑکوں پربغیر ڈرائیور والی بہت سی ایسی گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں جن پر عام مسافر بھی سفر کر رہے ہیں۔ حکومت بھی اس کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ سر دست یہ حوصلہ افزائی بہرحال اس تجربے کو دیکھنے اورسمجھنے تک محدود ہے لیکن امید کی جاتی ہے کہ متعلقہ سرکاری ادارے عنقریب اس کوشش کو باقاعدہ عام کرنے کی منظوری دے دیں گے۔ اس انقلابی اقدام سے بغیر ڈرائیور والی باقاعدہ ٹیکسی سروس کا آغاز عمل میں آ جائے گا۔ ایک دوسری اطلاع یہ ہے کہ کیلی فورنیا میں ایک ہزار سے زیادہ سیلف ڈرائیونگ گاڑیاں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں اور رواں سال کے اخیر تک مزید پانچ ہزارایسی گاڑیاں سڑکوں کی زینت بن جائیں گی۔ آئندہ سال سیلف ڈرائیونگ بس سروس بھی شروع ہونے کا امکان ہے۔
کہتے ہیں کچھ لوگ جہاں امکانات کے رخ پر آگے بڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور عملاً سرگرم رہتے ہیں، وہیں کچھ لوگ ہر تبدیلی کے منفی پہلو پر غور کرکے اندیشوں کا کاروبار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے تعلق سے بھی بعض حلقے بے پر کی اڑانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جہاں تک اس نئی ٹیکنالوجی کے ذیلی اثرات کا تعلق ہے تو بلاشبہ اس سے مینویل کام کاج کا دائرہ مزید محدود ہوگا لیکن اس حوالے سے یہ سوچنا کہ ایکدم سے بے روزگاری پھیل جائے گی، اتنا ہی غلط ہے جتنا کمپیوٹر کو متعارف کراتے وقت لوگ سوچ رہے تھے۔دفتروں میں کام کرنے والے کلرک ہاتھ میں کٹورا لے کر احتجاجی جلوس نکالنے لگے تھے کہ اب تو سارا کام کمپیوٹر کرے گا اور ہم لوگ بھیک مانگتے پھریں گے۔ کمپیوٹر کے عام ہونے کے بعد حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ آج حالت یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں کام کرنے والے کیلئے کمپیوٹر جاننا ضروری ہے۔
باوجودیکہ مصنوعی ذہانت کے تعلق سے کچھ سرکاری حلقوں نے تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق امریکہ میں تیکنالوجیائی صنعت کے اہم ذمہ داروں کو وہائٹ ہاؤس طلب کر کے ان سے کہا گیا ہے کہ اس بات کا پاس رکھا جائے کہ مصنوعی ذہانت سے عام لوگوں کی زندگی محفوظ رہے۔ برطانیہ میں بھی مصنوعی ذہانت سے متعلق مارکیٹ قوانین پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بعض حلقے مصنوعی ذہانت کو اس طرح پیش کر رہے ہیںجیسے یہ انسانیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو۔ مصنوعی ذہانت سامنے لانے والوں کا بہر حال کہنا ہے کہ انسان کی اپنی بایولوجی ایک مختلف چیز ہے اور مصنوعی ذہانت بشمول روبوٹ وغیرہ کی حیثیت محض ایک میکانزم کی ہے اور یہ انسانی ذہن کی اپنی تخلیق ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت کی بات چیت کے بوٹس انسانوں سے زیادہ ذہین ہو سکتے ہیں۔ لیکن چیٹ جی پی ٹی وغیرہ سے اتفاق اور اختلاف کرنے والوں میں بھی ایک حلقے کا خیال یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت محض ایک سرچ انجن ہے اور یہ انسانی ذہن سے آگے نہیں نکل سکتی۔ ماہرین اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے اس استدلال سے کام لیتے ہیں کہ کمپیوٹرائزیشن کی طرح مصنوعی ذہانت کے آلے بھی یومیہ انسانی زندگیاں آسان بنائیں گے۔ اس سے عام سماجی زندگی بھی مثبت طور پر متاثر ہوگی یعنی لوگ معاملات کرنے میں الجھنے کے بجائے ایک دوسرے کے موقف تک آسان رسائی کے متحمل ہوجائیں گے اور یہ تبدیلی بتدریج بہتر ہمسائیگی کے حق میں بھی سود مند رہے گی۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]