کیپشن کا کھیل معمہ نہیں دیوانوں کا!

0

تصویروں کے کیپشن پر کئی لوگوں کی نگاہ نہیں جاتی، کئی لوگ اسے پڑھتے ہوئے زیادہ توجہ نہیں دیتے مگر کیپشن کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کئی تصویروں پر تو صرف یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ تصویر کہاں کی ہے یا تصویر کس کی ہے وغیرہ مگر کئی تصویروں پر کوئی طنز و مزاح کی لائن لکھ دی جاتی ہے یا اس سے متعلق کوئی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ تصویرکہاں کی اور کس موقع کی ہے مگر اصل کھیل تصویروں سے متعلق جو اطلاع دی جاتی ہے، اس میں ہوتا ہے،تصویروں کے مختصر تعارف میں نہیں۔ مثلاً : سیلاب کی وجہ سے کوئی سڑک متاثر ہو گئی ہے، اس کا کچھ حصہ ٹوٹ گیاہے۔ اس ٹوٹی ہوئی سڑک کے بارے میں اگر صرف یہ لکھا جاتا ہے کہ فلاں جگہ کی سیلاب سے متاثرہ ایک سڑک یا فلاں جگہ سیلاب نے سڑکوں کوبہت نقصان پہنچایا ہے تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں مگر اسی تصویر کے بارے میں اگر یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ حال ہی میں اس سڑک کا افتتاح فلاں لیڈر کے ہاتھوں ہوا تھا تو پھر بات الگ ہوجاتی ہے۔ اس کیپشن سے ضروری نہیں کہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہو، سیلاب اتنا تباہ کن آیا ہے کہ نئی سڑکوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، ممکن ہے کہ بتانے کا مقصد یہ ہو کہ سڑک اچھی نہیں بنی تھی، اسی وجہ سے سیلاب سے متاثر ہو گئی یا یہ کہ سڑک بنانے میں بدعنوانی ہوئی ہے۔ یہ تصویر کس رسالے میں شائع ہوئی ہے اور اس کا جھکاؤ کس طرف ہے، یہ دیکھتے ہوئے بھی کیپشن کوسمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اگر رسالہ حکمراں جماعت کا حامی ہے توظاہر ہے، کیپشن لگانے کا مقصد یہی رہا ہوگا کہ سیلاب اتنا تباہ کن آیا ہے کہ نئی سڑکوں کو بھی نقصان پہنچا ہے مگر رسالہ اگر حکمراں جماعت کا حامی نہ ہو تومقصد یہ ہوسکتا ہے کہ سڑک بنانے میں بدعنوانی ہوئی ہے۔ عالمی سطح کے اخبار و رسائل میں تو کیپشن کا خوب کھیل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کسی ایک اخبار یا رسالے کا نام لینا مناسب نہیں ہے لیکن کسی رسالے یا اخبار کو مسلسل پڑھنے اورکیپشن میں مستعمل الفاظ پر توجہ دینے پر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کا جھکاؤ کس طرف ہے اوراس میں کیپشن میں کس طرح کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے مان لیجیے کہ ایک رسالے کے لوگ خاص ذہن سے کام کر رہے ہیں تو ایشیا کے ایک ملک میں اگر 2000 کلومیٹر تک مار کرنے والی ایک میزائل کا ٹسٹ کیا جاتا ہے تووہ لکھتے ہیں، اس کی رینج فلاں ملک تک ہے اوراگر یہی میزائل یوروپ کا کوئی ملک ٹسٹ کرتا ہے تووہ لکھتے ہیں، اس کی رینج 2000 کلومیٹر تک ہے۔ پہلے کیپشن میں نشانہ بتاکر ایک ملک کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے اوردوسرے کیپشن میں توجہ میزائل کی رینج بتانے پر دی گئی ہے۔ ایک ہی اخبار یا رسالے میں اگر اس طرح دو ملکوں کے لیے دو طرح کا کیپشن لگتا ہے تو کیا اس سے وابستہ لوگوں کو یہ حق ہے کہ وہ یہ کہیں، ان کی صحافت کسی تعصب یا امتیاز پر مبنی نہیں؟ سچ تویہ ہے کہ کئی صحافی اس طرح تیزی دکھاتے ہیں جیسے ان کی تحریروں کو پڑھنے یا ان کے پروگرام دیکھنے والے تمام لوگ حالات حاضرہ سے بے خبر ہیں، ان کی مکاری کوسمجھ نہیں سکتے۔ یہی وہ بات ہے جو صحافت کے معیار کو دن بہ دن گرا رہی ہے اور عام لوگوں کا اعتبار صحافت پر سے ختم کر رہی ہے، اس لیے عام لوگ خود سچ دکھانے اور سچ بتانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے وہ سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں مگر کئی بار سچ دکھانے کی فکر میں وہ نئے مسئلے پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ بات طے سی نظر آتی ہے کہ صحافت کو اگر تعصبات سے پاک نہ کیا گیا توآنے والا وقت صحافت کے لیے بہت برا وقت ہوگا، البتہ سوشل میڈیا کی مقبولیت میںاضافہ ہوگا۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS