کچھ حل ایسے ہوتے ہیں جو مسئلہ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔مسائل کے ایسے حل قبول کرنے پر اصرار بہت سی بدگمانیاں بھی پیدا کرتا ہے جیسا کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) کے ایک حالیہ ہدایت نامہ کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار پر نظر رکھنے والا مقتدر کمیشن یوجی سی نے متنی مواد یعنی کتابوں اور مضامین کے ترجمے سے متعلق طلبا اور فیکلٹی ریسرچرز کے خدشات کو دور کرنے کیلئے رہنما خطوط جاری کیے ہیں۔ جن میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹیاں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف مضامین کے مطالعاتی مواد کا ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کر سکتی ہیں۔
اس سلسلے میںآل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کا مصنوعی ذہانت پر مبنی تیارکردہ کمپیوٹرآلہ ترجمہ ’ انووادنی ‘ کے استعمال کی سفارش کرتے ہوئے یو جی سی نے کہا ہے کہ اس کا ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔تحقیق جیسے دقیق کام کیلئے مصنوعی ذہانت والے مشینی ترجمہ کے فوائد کاشمار کراتے ہوئے یوجی سی کاکہنا ہے کہ ترجمہ کا پہلا دور اس ٹول کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، اس کے بعد ٹول کا استعمال کرتے ہوئے مزید دستی ترمیم کی جا سکتی ہے۔ گائیڈ لائنز کے مطابق پیچیدہ تکنیکی اصطلاحات انگریزی میں ہندوستانی زبان کے مساوی الفاظ کے بعد بریکٹ میں دی جاسکتی ہیں۔ اگر ہندوستانی زبان کے مساوی دستیاب نہیں ہے تو انگریزی لفظ کو ہدف کی زبان کے رسم الخط میں بھی نقل کیا جا سکتا ہے۔یو جی سی کاکہنا ہے کہ کمیشن برائے سائنسی اور تکنیکی اصطلاحات نے مختلف مضامین کی معیاری لغتیں بھی تیار کی ہیں جنہیں ترجمہ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ طلبا آسانی سے سمجھ سکیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب یو جی سی نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو عمل درآمد کیلئے رہنما خطوط جاری کیے ہیں تاکہ وہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق ہندوستانی زبانوں میں کورسز شروع کرسکیں۔
اس میں کوئی کلام نہیںترجمہ انسانی تہذیب میں بنیاد کی اینٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ترجمہ عالمی ثقافت، عالمی برادری، اتحاد اور ہم آہنگی کو قائم کرنے کا ایک ایسا پل ہے جس کے ذریعے انسان علاقائیت کے تنگ اور محدود دائرے سے نکل کرعالمی علم و سائنس کے مرکز تک پہنچ سکتا ہے۔آج دنیا کی طنابیں کھنچ چکی ہیں، ملکوں کے درمیان فاصلوں میں کمی کے نتیجے میں باہمی لسانی تبادلے میں اضافہ ہوا ہے۔تصوراتی، نظریاتی، معاشی، معاشرتی اور صنعتی بنیادوں پر اس تبادلہ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں انسانی تہذیب و تمدن، علم و فنون کی منتقلی کیلئے ترجمہ ناگزیر حیثیت اختیار کرچکا ہے۔دوسرے ممالک کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کیلئے لازم ہے کہ ہم سائنسی، سماجی اور ثقافتی میدان میں دنیابھر میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ رہیں، یہ آگاہی اور معلومات ترجمے کے ذریعے ہی ملتی ہیں۔اس میں پیچھے رہ جانے والی قومیں ترقی میں پیچھے رہ جائیں گی۔ ترجمہ کی اسی ناگزیر ضرورت کے پیش نظر یوجی سی نے مصنوعی ذہانت کے استعما ل سے ترجمہ کی تجویز پیش کی ہے اور مصر ہے کہ اس کا یہ اقدام مطالعاتی متن کا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرکے اس کے دائرۂ کار اور فہم کو بڑھائے گا۔
بظاہر ترجمہ کی ضرورت کا یہ ایک حل نظر آرہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حل مسئلہ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ ناقص اور غیر معیاری نتیجہ تو اپنی جگہ ہے ہی، مصنوعی ذہانت کے ذریعہ مشین سے ہونے والے ترجمے لفظ بہ لفظ معنی دیتے ہیں اور جب یہ الفاظ ایک ساتھ رکھے جاتے ہیں توزیادہ تر ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔اس عمل میں ماخذ کی زبان سے ہدف کی زبان میں ان حصوں کا ترجمہ نہیں ہوسکتا ہے جو اس کی بنیادی ثقافت کی طرف زیادہ مرکوز ہیں۔ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اصلاحات کے ذریعہ مصنوعی ذہانت اور مشینی ترجمہ کی کارکردگی میں اضافہ ہو اور یہ زیادہ قابل اعتماد ترجمے دے سکیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیاہوگا، اگر لوگوں کو ترجمے کی ذمہ داری سے بتدریج آزاد کر دیا جائے تو ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ ترجمہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں گے۔ سیکھنے کے بہت سے دوسرے عمل کی طرح ترجمہ بھی انسانی عقل و دانش کی انتہائی ضروری مشق ہے۔ یہ مشق صرف الفاظ اور جملوں کے معنی تلاش کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ متعلقہ مضامین اور زبان کے بارے میں سوچنے کے نئے راستے کھولتی ہے۔یہ کام جتنا زیادہ مشین کے سپرد کیا جائے گا ذہن، عقل و دانش اتنا ہی زوال کا شکار ہو جائے گی۔تعلیم کی توسیع اور ترجمہ کی مشکلات سے نمٹنے کیلئے یو جی سی کا تجویز کردہ حل نتیجہ کے اعتبار سے تعلیم کی جڑیں کاٹنے والا انتہائی خطرناک حل بھی ہوسکتا ہے۔ اس پر عمل درآمد سے پہلے اس کے تمام عواقب و نتائج کا جائزہ لیاجانا انتہائی ضروری ہے۔
[email protected]
حل:مسئلہ سے زیادہ خطرناک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS