کہاں اور کیوں غائب ہو رہی ہیں خواتین و لڑکیاں : ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

ملک میں خواتین و لڑکیوں کی حفاظت کے لیے پہلے سے ہی کئی قانون موجود ہیں۔ 16دسمبر 2012کی رات دہلی میں چلتی بس کے اندر نربھیا کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے ساتھ کی گئی درندگی کے دردناک واقعے سے ناراض عوام کے سڑکوں پر اُترکر مظاہرے کرنے کے بعد حکومت نے قانون کو مزید سخت بنایا،تاکہ مجرموں کو زیادہ سے زیادہ سزا دلائی جاسکے۔پہلے مجرم کی عمر18برس سے کم ہونے پر معاملے کو جوینائل جسٹس کے یہاں بھیجا جاتا تھا،لیکن یکم جنوری 2016 سے نافذ قانون میں مجرم کی عمر 16 سے 18سال کے درمیان ہونے پر اُسے سخت سزا سنائی جا سکتی ہے۔ پہلے کسی شخص کا کسی خاتون کا پیچھا کرنا جرم نہیں تھا، لیکن اَب اسے قانون کے دائرے میں لایاگیا ہے۔ ملک میں 18 برس سے کم عمر بچوں کی حفاظت کے لیے پوکسو ایکٹ(پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسوئل اوفینسس ایکٹ) بنایا گیا ہے۔ اس کے مطابق بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کو ناقابل معافی قرار دیا گیا ۔
حکومت کے ا قدام کے بعد اُمید کی جا رہی تھی کہ اَب اس طرح کی شرمناک اور غیرانسانی وارداتیں سننے اور پڑھنے میں نہیں آئیں گی،لیکن سخت قوانین کے باوجود ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے معاملات کو دیکھتے ہوئے اسی برس مارچ میںاین سی پی( نیشنلسٹ کانگریس پارٹی) کی رہنما فوزیہ خان نے نہ صرف ملک میں خواتین کے خلاف ہورہے جرائم کے اعداد و شمار کی معلومات چاہی،بلکہ ان وارداتوں کو روکنے کے لیے اُٹھائے جا رہے اقدام کی جانکاری کا مطالبہ بھی کیا۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ گزشتہ 5برسوں میں این سی آر بی( نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو) کے تحت خواتین کے خلاف جرائم کے تقریباً ایک کروڑ معاملے درج کئے گئے ۔ملک میں ہر سال تقریباً 4 لاکھ خواتین و لڑکیاں غائب ہو رہی ہیں۔ بیٹیوں کی حفاظت کے لیے بنائے جانے والے قوانین کے باوجود لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کے معاملوں میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ این سی آر بی کے حوالے سے مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2019 سے 2021 کے درمیان13.13لاکھ سے زیادہ خواتین و لڑکیاں غائب ہوئیں ۔ ان میں18برس سے کم عمر کی دوشیزاؤں کی تعداد 2,51,430 ہے، تو18سال سے زیادہ عمر کی خواتین کی گنتی 10,61,648 ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں خواتین ولڑکیاں کہاں چلی گئیں اور ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا،اس بابت کسی کے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے۔این سی آر بی کے مطابق سب سے زیادہ خواتین مدھیہ پردیش سے لاپتہ ہوئیں۔ وہاں 2019 اور2021 کے درمیان 1,60,180 عورتیں اور38,234لڑکیاں غائب ہوئیں۔ اس فہرست میں مغربی بنگال دوسرے نمبر پر ہے۔وہاں اس دورانیہ میں1,56,905خواتین اور 36,606 دوشیزائیں لاپتہ ہوئیں ۔مہاراشٹر میں 1,78,400 خواتین اور13,033لڑکیاں غائب ہوئیں۔ اُڈیشہ میں70,222 عورتیں اور 16,649 دوشیزائیں لاپتہ ہوئیں۔ چھتیس گڑھ میں 49,116 خواتین اور 10,817 لڑکیاں غائب ہوئیں۔ مرکز کی زیر نگراں ریاستوں میں دہلی کی صورت حال سب سے خراب ہے۔ وہاں 61,054 عورتیں اور22,919لڑکیاں لاپتہ ہوئیں،جبکہ جموں و کشمیر میں 8,617 خواتین اور 1,148دوشیزائیں غائب ہوئیں۔
ا س بابت حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں خواتین و دوشیزاؤں کی حفاظت کو لے کر کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔جنسی جرائم کے خلاف موثر روک تھام اورقدغن لگانے کے لیے پُرانے قوانین میں ترامیم کرنے کے ساتھ انہیں مزید سخت بنایا گیا ہے۔ان میں فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ 313کا نفاذ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ 2018 میں 12سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے ساتھ عصمت دری اور جسمانی زیادتی کے واقعات میں کئی دیگر سخت ترین سزاؤں کی دفعات بھی طے کی گئی ہیں۔ان میں مجرم قرار دیے جانے والے قصورواروںکے لیے موت کی سزا بھی شامل ہے۔ اس قانون کے تحت عصمت دری کے مقدمات کی تفتیش2مہینے کے اندر مکمل کرنے کے علاوہ چارج شیٹ داخل کرنے اور مقدمے کی سماعت اگلے دو مہینے میں پوری کرنے کو یقینی بنایا گیا ہے۔ خواتین اورلڑکیوں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے قوانین اور سخت اقدام کے باوجود ان کی حالت میں کوئی خاص بہتری یا تبدیلی نہیں آئی ہے ۔مستورات اور دوشیزاؤں کے ساتھ ہونے والے جرائم میں کمی نہیں آنا جہاں حکومت کے نظم و نسق پر سوال کھڑا کرتا ہے، وہیں پولیس اور مقامی انتظامیہ کی ناکامی کو بھی اُجاگر کرتا ہے۔ ملک میں لڑکیوں اور عورتوں کی حفاظت کا ایشو کئی دہائیوں سے اہم رہا ہے۔ اس پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جب تب تکرار اور بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ جولائی کے آخری ہفتے میں پارلیمنٹ میں مرکزی وزارت داخلہ نے اس پر جو اعداد و شمار پیش کیے،وہ یقینی طور پر حیرت میں ڈالنے کے ساتھ تشویشناک بھی ہیں۔قومی خواتین کمیشن ایکٹ، خواتین تحفظ قانون اور پوکسو ایکٹ کے باوجود ملک میں 2019 اور 2021 کے درمیان 13.13 لاکھ سے زیادہ غائب ہونے والی لڑکیاں اور خواتین کہاں گئیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی معلومات کسی کے پاس نہیں ہونا بھی اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے۔
کثیر تعداد میںلڑکیوں اور عورتوں کے لاپتہ ہونے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔کچھ لوگ گنگا جمنی خیالات، مغربی تہذیب، فیشن پرستی اورمخلوط تعلیم کو ایک وجہ مانتے ہیںتو کچھ لوگ والدین کے اپنے بچوں خاص کر لڑکیوں کی جانب توجہ نہیں دینے،انہیں آزاد اور بے مہار چھوڑنے کو ایک وجہ قرار دیتے ہیں۔ تعلیم یافتہ گھرانوں میں آزاد خیالی کی بنا پر والدین کے اپنی اولاد پر حد سے زیادہ اعتماد کو بھی اس کی بڑی وجہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔ خواتین و لڑکیوں کے غائب ہونے کے پیچھے موبائل فون کو سب سے بڑا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ موبائل فون ایک ایسا پلیٹ فارم ہے،جہاں دنیا بھر کی تمام تر چیزیں اور معلومات موجود ہیں۔ پہلے خبریں، گیت، ڈرامے،کھیلوں کی کمنٹری اور کھیتی باڑی کی معلومات وغیرہ کے لیے صرف ریڈیو ایک ذریعہ تھا۔بعد میں ٹیلی ویژن پر خبریں، فلمیں اور سیریل سمیت کئی قسم کے پروگرام دکھائے جانے لگے۔ پہلے بہت کم گھروں میں ٹیلی فون کی سہولت تھی۔اب کنبے کے ہر فرد کے ہاتھ میں مہنگا اینڈرائڈ موبائل فون موجود ہے۔ موبائل فون کے شوق کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک خاتون نے اینڈرائڈ سیل فون کے لیے اپنے8مہینے کے بچے کو فروخت کر دیا تھا۔ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سارے فساد کی جڑ یہی موبائل فون ہے۔ اس میں ہر قسم کا مواد موجود ہے۔ وبائی مرض کورونا وائرس کے دوران گھر بیٹھے آن لائن تعلیم نے موبائل فون کو بڑھاوا دیا۔کچھ طلبا و طالبات جہاںاس سے اَب بھی فیض حاصل کر رہے ہیں، وہیںبڑی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں سیل فون پر گندی تصاویرا ور فحش ویڈیو دیکھنے، عشق کی پینگیں بڑھانے اور چیٹنگ و میٹنگ کے بعد فراری کے منصوبے بناکر غلط راستے پر جا رہے ہیں۔سیما حیدر کا چار بچوں کے ساتھ بھارت آنا اور انجو کا اپنے دونوں بچوں کو چھوڑ کر پاکستان جانا اس کا زندہ ثبوت ہے ۔ خواتین و لڑکیوں کی خریدوفروخت، کوٹھوں کے لیے تجارت، ہوٹلوں میں سپلائی، دوشیزاؤں کو فلموں، دفتروں، کمپنیوں اور غیر ممالک میں کام دلانے کے نام پر ان سے ہوٹلوں میں جسم فروشی کرانے کے علاوہ کم سن بچیوں کو بہلا کر یا اغوا کرکے انہیں ہارمونس کے انجکشن دے کر قبل از وقت بالغ کرکے استحصال کرنے کے معاملے چھپے نہیں ہیں۔ محبت میں دھوکا اور مطالبہ پورا نہیں ہونے پر راستے سے ہٹانے جیسی تمام غیر انسانی وارداتوں اور خواتین و لڑکیوں کے غائب کرنے کے لیے مرد ہی ذمہ دار ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS