عمیر انس
ہندوستانی مسلمانوں کے سبھی مسائل اور چیلنجز میں ایک بات مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان ایک طویل فکری اور نظری افلاس سے گزر رہے ہیں۔ فکری اور نظری افلاس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جنگ جیتنے کے لیے فوجی ٹریننگ حاصل کرنے والے لاکھوں افراد کا ہونا ضروری ہے، جیسے مشینیں چلانے کے لیے ٹیکنیکل معلومات رکھنے والے افراد کا ہونا ضروری ہے، ویسے ہی سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کے لیے ان علوم کے ماہرین کا ہونا بھی بہت ضروری ہے، اگرچہ سماجی مسائل ایسے ہیں کہ جن پر ہر انسان اپنی دلچسپی کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ اظہار خیال کر سکتا ہے لیکن ماہرانہ گفتگو کرنے کے لیے ایسے ہی افراد کو ترجیح دی جاتی ہے جو ان علوم میں باقاعدہ اچھے اداروں میں اچھے اساتذہ کے تحت تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے اگر آپ دیکھیں کہ سماجی وسیاسی مسائل پر صبح شام متحرک رہنے والی بیس سب سے بڑی مسلم جماعتوں میں سیاسی اور معاشی علوم کے ماہرین کی تعداد کتنی ہے؟ جب کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے لیے ماہرین پر مشتمل دو چار فورمز ایک نہیں ہیں، اگر چند افراد نہ ہوں تو گویا کہ پوری ملت کا فکری دیوالیہ قرار دے دیا جائے۔گزشتہ تحریروں میں میں نے تقریباً سبھی طرح کے مسائل پر گفتگو کی ہے اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی کے لیے کوئی انوکھی اسکیم کے نہیں بلکہ اسی اسکیم کے ضرورتمند ہیں جس کو اختیار کرکے باقی انسان ترقی کر رہے ہیں۔ سائنسداں بننے کے لیے، سماجی امور کا ماہر بننے کے لیے، دانشور بننے کے لیے، کامیاب تاجر بننے یا لیڈر بننے کے لیے انہیں وہ ساری محنت کرنی ہوگی جو سارے انسانوں کو کرنی پڑتی ہے، یہ بات تو سبھی جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں، لیکن اس بات پر ہمارے درمیان کافی غلط فہمیاں ہیں کہ ہماری ترجیحات کے مطابق کس ضرورت کے لیے کتنے وسائل لگانے کی ضرورت ہے، عموماً کامیاب قومیں اپنے درمیان اچھے سروے، تحقیق کراکر فیصلہ کرتی ہیں کہ انہیں مدرسے کی ضرورت ہے یا سائنس کالج کی، انہیں انجینئرنگ کالج کی ضرورت ہے یا اسکول کی، انہیں اچھے اساتذہ کی ضرورت ہے یا بلند عمارتوں کی۔ ہماری ضرورتیں بہت ہیں اور وسائل بہت محدود، ہمارے سامنے خطرات اور چیلنجز بہت زیادہ ہیں اور وقت بہت کم، ہمارے راستے کو روکنے والے بے انتہا ہیں اور تیز گام قافلے بہت کم، ایسے میں میں مشورہ دوں گا کہ ہمارے درمیان کم از کم ایک ادارہ ایسا قائم ہو جس کا کام صرف ایک ہو، وہ یہ کہ وہ صرف ہر وقت مطالعہ اور تحقیق کرتا رہے اور تمام مسائل کے سلسلے میں وہ معلومات فراہم کرے۔
اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ ہے، آبادی کے لحاظ سے ہندوستان دنیا میں تیسرا سب سے بڑا مسلم ملک ہے اور تمام ممالک کی فہرست میں ساتویں سب سے بڑی آبادی ہے، یہ آبادی تیس مختلف ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہے، اس لیے ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل بھی ان کی ریاستوں سے متعلق ہیں۔ آپ ہندوستان کے دلت آبادی کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات کرنا چاہیں کہ کتنے دلت سرکاری، نجی، خود کے تجارت سے وابستہ ہیں، آپ کو تقریباً تازہ معلومات حاصل ہو جائیں گی۔اگر آپ ان کے پروگراموں میں جائیں تو وہاں آپ کو مقررین بالکل متعین اعداد و شمار کی روشنی میں گفتگو کرتے اور نئی پالیسی اور منصوبوں کی سفارش کرتے نظر آئیں گے، لیکن آپ اگر صرف دیوبند، لکھنؤ، حیدرآباد، مالیگاؤں، جیسے علاقوں کے مسلمانوں کی اقتصادی حالت کے بارے میں اعداد و شمار کا پتہ کرنا چاہیں تو نہیں ملیں گے حالانکہ وہاں سیکڑوں ادارے اور ملی رہنما موجود ہیں، اعداد و شمار کے اعتبار سے تو ہندوستانی مسلمان یتیم بھی ہیں اور فقیر بھی ہیں۔ حکومت کو مسلمانوں کی ترقیاتی حیثیت کے بارے میں معلومات جمع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن خود مسلمانوں کو تو ہونی چاہیے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کے سلسلے میں بات کرنے میں حکومتی پالیسیوں کو متاثر کرنے کے لیے اور میڈیا اور دانشورانِ کو مطمئن کرنے والی گفتگو شاذ و نادر ہی ہوتی ہے اور جو ہوتی ہے وہ بیشتر نیک دل غیر مسلم دانشوروں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اب ہر ضلع کی سطح پر مسلمانوں کے اقتصادی مسائل اور سماجی مسائل پر ماہرانہ گفتگو کرنے والے افراد کی کمیٹیاں قائم ہوں اور ضلع کی سطح پر ہر محلے، گاؤں، علاقوں کے مسلمانوں کے بارے میں اعداد و شمار اور حقائق جمع کرنے کی روایت قائم ہو، اب آج کل انٹرنیٹ کے زمانے میں معلومات کو اسٹور کرنے اور منظم کرنے میں برائے نام وقت اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جو شہر کے دو چار کمپیوٹر ماہرین سے آسانی سے کرایا جا سکتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ اگر سبھی اضلاع میں صرف دو تین سال تک اس طرح کا کام ہوجائے تو آپ حکومت کیا سپریم کورٹ کے سامنے اپنے مسائل کو ثابت کر سکتے ہیں، ملک میں مسلمانوں کی پسماندگی پر بحث کرنے کا طریقہ ہی بدل جائے گا، اچھے سے اچھے دشمنان بھی ان اعداد و شمار کے سامنے کوئی رد عمل کرتے ہوئے احتیاط کریں گے، جیسے ملک کے اساتذہ جا جاکر سروے کرتے ہیں، ہماری سیکڑوں مساجد اور مدارس کا نیٹ ورک اہم معلومات جمع کرنے میں انتہائی مددگار ہوگا۔ اصل مشکل یہ ہے کہ مسلم قیادت اور متحرک سماجی اور سیاسی کارکنان اس ملک کے مسلمانوں کے بارے میں بالکل ویسے ہی سوچتے ہیں جیسے ایک روز مرہ کا مزدور اپنی ایک دن کی دیہاڑی کے بارے میں سوچتا ہے۔ طویل مدتی منصوبے اور طویل مدتی اہداف ایک منصوبہ بند اور منظم غور و فکر اور منظم مطالعے کا تقاضا کرتے ہیں جس میں محض ایک دو افراد کے نہیں بلکہ ہزاروں افراد کے لیے معاشی ترقی کا وژن بنانا ہوگا۔محض چالیس سالوں میں ہزاروں غیر مسلم نوجوان انتہائی غربت سے نکل کر کروڑ پتی بنے ہیں، آئی ٹی اور دیگر جدید خدمات کے سیکٹر میں زبردست ترقی میں ان نوجوانوں نے بھرپور حصہ لیا اور کامیاب ہوئے، یہ نوجوان مسلمان بھی ہو سکتے تھے لیکن اس لیے نہیں ہوسکے کیوں کہ ہم بروقت ان مواقع کو پہچاننے سے رہ گئے اور یہ غلطی اس لیے ہوتی ہے کیوں کہ ہم معاشی اور سماجی مستقبل کے منظم مطالعے پر توجہ نہیں دیتے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ غلطی کا سلسلہ اب رکنا چاہیے اور مسلمانوں کا ایک پلاننگ کمیشن اُبھرنا چاہیے۔
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]