تین دہائی قبل اہل فلسطین میں قیام امن کے لیے سمجھوتہ ہواتھا،مگراتنا طویل عرصہ بیت جانے کے بعد وہاں ہردم کشت وخون کا بازار گرم ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو برباد کرنے کے لیے آمادہ ہیں اور یہ مسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا جارہاہے۔ فلسطینی اتھارٹی جس کا قیام ایک خود مختار مملکت فلسطین کے قیام کی راہ میں پہلا قدم بتایا جارہا تھا، آج اپنی اہمیت اور سیاسی وجود کھوتی جارہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمودعباس اپنی بڑھتی ہوئی عمر، ضعیفی اور اس طویل عرصہ کے دوران بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے لگاتار اہمیت کھورہے ہیں۔ محمودعباس کو خود کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ وہ اس مدت کے دوران کسی سمجھوتے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اس سمجھوتے کے تناظر میں کسی فائدہ کی امید ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا حفاظتی نظام یا کوئی بھی نظام فلسطینیوں کے روزمرہ کے مسائل کا ازالہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہ گیا ہے اور حالات سے مایوس ہونے کے بعد کچھ تنظیموں نے فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔ عام فلسطینی جن کو لگتا ہے کہ اتھارٹی کے نوجوانوں کی خواہشات کی تکمیل تو کیا ان کی زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان کی ماں،بہنوں، بچوں اور ان کی خود کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ پتا نہیں کب کدھر سے کوئی میزائل، راکٹ ان کے گھر پر گرے اور ساعت واحد میں سب کچھ ختم ہوجائے۔
اسرائیل کے خود کے اندر ایک بڑے طبقہ کو یہ لگتا ہے کہ اس صورت حال کا فائدہ ایسے عناصر اٹھا رہے ہیں جن کو وہ دہشت گرد کہہ کر دل کو تسلی دلاتے ہیں اور ان کے بہانے معصوم اور بے گناہ افراد، عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کے قتل کو بھی درست قرار دیتے ہیں۔
یاسر عرفات کی مشتبہ حالات میں موت کے بعد صدارت کی مسند پر بیٹھنے والے محمودعباس نے بدلتے حالات کے ساتھ چلنے کی کوشش کی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا نظام وانصرام چلانے والے دیگر ممالک کے علاوہ اسرائیل کی طرف سے جوفنڈ ملتاہے، اس میں کٹوتی کے بعدانتظامیہ سے وابستہ افراد اور ملازمین کے کام کاج میں تبدیلی آنا فطری ہے۔ یہ فلسطینی اہلکار جو کہ اپنے ہم وطن بھائیوں کے تحفظ اور ان کی زندگی کو آسان بنانے اور ان کو سہولیات مہیا کرانے میں مصروف ہونے چاہیے تھے، اسرائیل کے لیے خفیہ اطلاعات فراہم کرانے اور دہشت گردوں کی نشان دہی کرنے سے بھی گریزنہیں کررہے تھے۔ مغربی کنارہ غزہ کی پٹی میں فلسطین اتھارٹی کے پولیس اہلکاروں اور حماس کے افراد میں تصام کے مناظر نے اہل فلسطین کو ایک نئے بحران سے دوچار کردیا اور ایسا لگا کہ ارض فلسطین میں برادرکشی کا وہ دور شروع ہوگیاہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ بہرحال 2006 میں فلسطینی اتھارٹی کا الیکشن ہواتھا اور تب سے اب تک وہاں کچھ نہیں بدلا۔ مغربی کنارے اور نہ ہی غزہ پٹی میں کوئی سیاسی سرگرمی ہے۔ ہرطرف وہی قتل وتباہی، آہ وبکاہے۔
محمودعباس کی بے بسی اور حالات کو بدلنے میں ان کی نااہلی یا عدم دلچسپی کے علاوہ صہیونیوں کی ریشہ دوانیاں، مغرب خصوصاً امریکہ، برطانیہ وغیرہ کی عدم دلچسپی نے محمودعباس کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی ہیں۔ اسرائیل میں سخت گیر عناصر کی حمایت اور نتن یاہو کی قیادت والی سرکار نے ظلم وتشدد کے نہ صرف گزشتہ ریکارڈ توڑے ہیں، بلکہ ملک کے سیاسی نظام کو بدلنے کے لیے ایسے غیرمعمولی اقدامات نافذ کرنے کی کوشش کی ہے جو عدلیہ کو بھی سیاسی قیادت کے سامنے محکوم بنادے مگر عالمی برادری خصوصاً امریکہ کے دباؤ میں آکر موجودہ حکومت نے ان جوڈیشل اصلاحات کو سردخانے میں ڈال دیا ہے اور اب نہ تو اسرائیل کے اندر کوئی بدامنی یا تحریک اورنہ ہی اسرائیل کے حکام کوئی تادیبی کارروائی انجام دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ وہ اپنے اندرونی معاملات میں کوئی خارجی مشورہ قبول کرتا ہے، غلط ہے۔ اسرائیل میں اس وقت اب تک کی سب سے شدت پسند حکومت کا اقتدار ہے۔ نتن یاہو کرپشن کے معاملات میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کی کابینہ کے بھی کئی وزرا قابل اعتراض قول وعمل کے لیے قانون کا سامنا کررہے ہیں اور کئی ممالک میں ان کی آمدکے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی موجودہ اور اس سے قبل کی تمام حکومتیں طاقت کے زور پر فلسطینیوں اور پڑوسی عرب ملکوں کو دھمکا کر رکھنا چاہتی ہیں۔ یہ رویہ اس کے سرپرستوں کو بھی فائدہ پہنچاتاتھا، مگر اب حالات بدل رہے ہیں اور تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ چندسال قبل مغربی ایشیا، عرب وفارس میں پیٹرولیم کے ذخائر دریافت ہوئے تھے، اس زمانے میں کئی ملکوں کو لگتاتھا کہ ان کے تحفظ کے لیے امریکہ اور برطانیہ جیسی کئی سپرپاور کی سرپرستی اور نگرانی ضروری ہے۔ اس کا فائدہ مغربی طاقتوںنے اٹھایا ہے۔ اسرائیل جیسے سفاک ملک ظالم حکمرانوں کو سرپرستی دے کر اس کے ہر قول وفعل کادفاع کیا گیا اور آج بھی کیاجارہاہے مگر اب اہل مغرب کے سامنے سپرڈالنے کی بجائے مغربی ایشیا کے ممالک نے اپنی اس ’ذمہ داری‘ سے سبکدوش کردیا ہے۔ عرب ممالک کے غیرمعمولی وسائل اور ذخائر کا استعمال کرنے اور اس کے ذریعہ پوری دنیا پر اپنی حکومت اور قیادت کا سکہ جمانے والے ممالک کو ان تمام بہانوں سے محروم کردیا جو کبھی ایران اور کبھی صدام اور قذافی کی شکل اور روپ میں دکھائی دیتے تھے۔ سعودی عرب گزشتہ ایک سال کے اندر حالات کے غیرمعمولی تبدیلی کانقیب بناہے۔ مغربی ایشیا کے تمام ممالک میں آپسی خلفشار ختم کرانے کی کوششوں کو ایران کے ساتھ تعلقات کو استوار کرکے پورا ماحول ہی تبدیل کردیا۔ رقابتوں کو رفاقتوں میں تبدیل کرکے صہیونیوں کے منصوبوں کو ناکام کرنے کی طرف پہل کرنے کے بعد شام، عراق، یمن، بحرین، یواے ای، کویت، تیونس، مراقش، الجیریا اور تمام ملکوں میں جو آپسی کثافتیں اور کدورتیں تھیں، ان کو کم کرنے اور شاندار مستقبل کی راہ دکھانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ مغربی ایشیا میں ایران کو ہوّابنا کر دکھاگیا اوراس کو تمام عرب حکمرانوں کے لیے خطرہ قرار دیاگیا۔ اس کا نیوکلیئر پروگرام جواس کے اپنے دفاع اور اپنی توانائی ضروریات کے لیے ہے، پورے علاقہ کے لیے خطرہ قرار دے دیاگیا جب کہ اسرائیل کے پروگرام کو اس کے دفاع کے حق کے طورپر تسلیم کرلیاگیا ہے۔ اس کے تمام حربی آلات بنانے کے کارخانوں اوراسلحہ ساز فیکٹریوں اور غیرانسانی ہتھکنڈوں پر پوری دنیا خاموش ہے۔ اسی سال یکم 2023سے اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں میں اب تک 130فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ یہ سب خون ناحق ہے۔ اسی طرح تصادم میں اسرائیلی بھی موت کے گھاٹ اتارے گئے ہوں گے اگرعالمی امن پسند اورجمہوریت پسند طاقتیں ذرا بھی مخلص ہوتیں تو یہ مسئلہ بہت جلد ہی حل ہوجاتا مگر اسرائیل کو بنا کر اور اب ہر طرح کی بندش اور اخلاقی اورقانونی پابندی سے آزاد کرکے دنیا کو ایک بدترین تنازع اور بحران سے دوچار کررکھاہے۔
ارض فلسطین میں اب دونوں طرف سے کارروائی اور جوابی کارروائی ہورہی ہے۔ قتل اور جوابی قتل کا یہ سلسلہ قیام امن کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ بائیڈن کی جدہ کانفرنس میں شرکت کے موقع پرذرائع ابلاغ میں یہ خبریں خوب چلیں کہ علاقے میں قیام امن کے لیے مذاکرات کرانے کا ابھی ماحول نہیں ہے۔ ابھی بھی یہی کہاجارہاہے، قیام امن کے لیے ماحول سازگار نہیں— امن اورصلح کے لیے خلوص نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔اب بھی وقت ہے قبل اس کے کہ حالات خراب سے خراب ترہوں تمام صاحب معاملہ مل بیٹھیں اور مسئلہ کاحل نکالنے کی کوشش کریں۔n
فلسطینی اتھارٹی اہمیت کھو رہی ہے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS