یکساں سول کوڈ سے پہلے مختلف پرسنل لاز درست کیے جائیں : عبدالسلام عاصم

0

عبدالسلام عاصم

کثرت میں وحدت سے اگر کوئی یہ مفہوم اخذ کرتا ہے کہ سب لوگ اپنی جداگانہ شناخت مٹا کر ایک ہو جائیں تو یہ پڑھے لکھے اور نیم پڑھے لکھے کسی بھی معاشرے میں ممکن نہیں۔ ہمارے معاشرے کے ذمہ داران اگر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر انہیں یہ بھی مان بلکہ جان لینا چاہیے کہ شادی بیاہ، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے عائلی قوانین میں حائل خرابیاں تو جلد بدیر دور کی جا سکتی ہیں لیکن کسی صورت ان کو بلا تفریق مذہب و ملت یکساں نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کی دوٹوک وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اپنی انفرادی شناخت کے ساتھ اجتماعیت کا حصہ بننے والے لوگوں کی اپنی انفرادی ترجیحات ہوتی ہیں۔ یکساں سول کوڈ کی موافقت کرنے والوں کو اگر اس کا ادراک ہے تو پھر ہنگامہ ہے کیوں برپا! اور اگر ادراک نہیں ہے تو پھر انہیں وحدت میں شامل کثرت کے عائلی معاملات کی جداگانہ شناخت مٹانے کی لاحاصل کوشش ترک کر دینی چاہیے۔
یکساں سول کوڈ کے ذریعہ حکومت شادی بیاہ، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے مختلف فرقوں اور ذاتوں کے عائلی قوانین کو بظاہر یکساں بنانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے بہرحال ابتدائی قدم جہاں سے اٹھایا گیا ہے، وہاں سے حقیقی کامیابی کی طرف آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ہی نہیں۔ عائلی قوانین جن عقائد اور نظریات سے جڑے ہیں، اصل اصلاح وہاں کرنے کی ضرورت ہے، جہاں واقعی خرابیاں ہیں۔ لیکن کوئی بھی حکومت جاننے سے زیادہ ماننے والے عوام سے ان کی آرا معلوم کرکے یہ کام نہیں کرسکتی۔ کیا حکومت کو یہ نہیں معلوم کہ ہمارے معاشرے میں عوام کی اکثریت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی متحمل نہیں۔ بہ الفاظِ دیگر سیاسی، سماجی اور مذہبی شعبدہ باز حلقوں کی طرف سے انہیں جان بوجھ کر اس حالت میں پہنچا دیا گیا ہے کہ وہ از خود کوئی فیصلہ کرنے کے متحمل نہیں۔ ایسے میں کوئی بھی عصری حکمراں آمنا و صدقنا کی رٹ لگانے والوں کو کل اپنے خلاف صف آرا ہونے سے نہیں روک سکتا۔ استحصالی قوتیں ویسے بھی ہمیشہ مخالف کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔
جہاں تک یکساں سول کوڈ کے بارے میں کسی متفقہ ڈرافٹ کی تیاری کا تعلق ہے تو ابھی تک حکومتیں اور اس کی وکالت کرنے والے حلقے اس میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ اس کی بہت حد تک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ رنگا رنگی کی جگہ یک رنگی کا کاروبار کرنے والے ابھی تک کسی ایسے بے نقص نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں جہاں آگے چل کر انہیں کسی بحران کا سامنا نہ ہو۔ خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی مذہبی اکثریت کو بظاہر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ انہی کے اپنے متعلقہ ضابطے اور قوانین دوسروں کو بھی ماننے ہوں گے۔ دوسری جانب زائد از ایک حلقوں کی طرف سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں یہ خوف پیدا کر دیا گیا ہے کہ ان کا سب کچھ چھن جائے گا۔
عام مسلمانوں کو ان کے میڈیا سیوی رہنماؤں نے بڑی کامیابی سے، بلکہ یوں کہا جائے کہ چابکدستی سے یہ تاثر دے رکھا ہے کہ اُن سے اُن کا اسلامی عائلی قانون چھن جائے گا۔ ایسے میں ملت اسلامیہ ہند کو یہ بتانا سخت مشکل کام ہے کہ اُن کے رہنما جن قوانین کی اُن سے مدافعت کروا رہے ہیں، اُن میں سے بیشتر کئی لحاظ سے کتابِ الٰہی کے مطابق نہیں، البتہ انگریزوں کے تیار کردہ ہیں۔ ماضی قریب میں بیک نشست تین طلاق دینے کے مقدمے کا حشر ہم سبھی دیکھ چکے ہیں۔ اس مقدمے کے ایک مرحلے میں تو سرکاری وکیلوں کی کتابی بحث کے جواب میں مسلم پرسنل لابورڈ والوں کے پاس بس یہ استدلال رہ گیا تھا کہ ہمیں اپنے طریقے سے جینے کی آئینی ضمانت حاصل ہے۔ آج بھی جمعیۃ علماء ہند کے ایک بیان میں یہی بات دہرائی گئی ہے۔
اس پس منظر میں یونیفارم سول کوڈ سے بھیڑ پر قابو پانے کی سیاست کا کاروبار تو کیا جاسکتا ہے، ملک اور ملک کے عوام کا کوئی بھلا نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں کہ یکساں سول کوڈ مملکتی پالیسی کا ایک ہدایتی اصول ہے جو آئین ہند کے آرٹیکل44میں درج ہے۔ آرٹیکل44کہتا ہے کہ ’’پورے ہندوستان کے شہریوں کے لیے حکومت یکساں سول کوڈ بنانے کی کوشش کرے۔‘‘یہاں لفظ کوشش کا تعلق نہ کسی تسلط سے ہے نہ سیاسی کاروبار سے۔ اب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم یا تو اپنی بات منوانا چاہتے ہیں یا عوام کو اسی میں الجھائے رکھنے کا کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ روگ صرف سیاسی ہوتا تو سماجی اور تہذیبی قوتیں اس کا اب تک شافع علاج کر چکی ہوتیں۔ بدقسمتی سے ہماری زندگی کے ہر شعبے کے بیوپاری اسی جہل کو بھنانے میں لگے ہیں۔
یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اگر یکساں سول کوڈ کا نفاذ انتہائی حساس مسئلہ ہے توایک سے زیادہ مذہبی اور ثقافتی شناخت رکھنے والے فرقوں اور ذاتوں کے ذاتی حقوق اور عقائد کی ایسی اصلاح کیوں نہیں کی جاتی کہ ایک ڈنڈے سے سبھی کو ہانکنے کی کوئی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اصل ضرورت تو یہ ہے کہ ذمہ دار حلقے خواہ وہ سرکاری ہوں یا سماجی مختلف فرقوں کے مذہبی رہنماؤں اور کمیونٹی کے نمائندوں سمیت تمام اہل ذمہ داران کے ساتھ مل کر تمام ضروری/ غیر ضروری تحفظات کو دور کرنے اور اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے تعمیری بات چیت کا آغاز کریں۔
اگرچہ سر دست ایسا کہیں سے ہوتا نظر نہیں آتا۔ پھر بھی اس رخ پر اگر کسی طرف سے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس کے اولین مرحلے میں مختلف مذہبی فرقوں کے پرسنل لاز کی موجودہ شکل کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جن میں بہرحال کہیں نہ کہیں کچھ خامیاں ضرور در آئی ہیں۔ یکساں سول کوڈ کی موافقت اور مخالفت میں صرف سیاسی بیان بازیوں سے محدود مفادات کے علاوہ کسی تعمیری مقصد کی تکمیل نہیں ہو گی۔ اِس رُخ پر نیک نیتی یہ ہونی چاہیے کہ بہر لحاظ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بالفرض یکساں سول کوڈ ڈرافٹ کیا جاتا ہے تو اس میں سب کے پرسنل لاز کی وہ شقیں اور دفعات شامل ہوں گی جن میں صرف انصاف، مساوات اور عدم امتیاز کے اصولوں کو اپنایا گیا ہے۔ لازمی طور پر یہ صورت کسی کے سیاسی مفاد سے ہرگز نہیں، صرف آئین کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگی۔
مختلف مذہبی فرقوں کے پرسنل لاز کی موجودہ شکل کا مکمل جائزہ لینے کے اس عمل کو اگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے والی کیفیت سے نہ گزرنا پڑا تو زمانے کی رفتار بتاتی ہے کہ چند برسوں میں بات بن سکتی ہے اور ایک جامع اور قابل قبول یکساں سول کوڈ تک ہندوستانی قوم پہنچ کر دنیا کیلئے نظیر بن سکتی ہے۔ اس نیک کام کیلئے ذمہ دار حلقوں کو فوری طور پر صرف اتنا کرنا ہے کہ وہ صحافت کرنے والوں کو مودی-راہل سیاست کی خبروں میں عوام کو الجھائے رکھنے کے بجائے سماجی ذمہ داری کا احساس دلائیں۔ واللہ علیم بذات الصدور
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS