ویریندر کمار پینیولی
شدید موسمیاتی بحران کے درمیان دنیا کے زیادہ تر ممالک نے اس حقیقت کو قبول کرلیا ہے کہ مستقبل میں بین الاقوامی کاروباری برادری سے الگ تھلگ ہونے سے بچنے کے لیے دیر سویر انہیں کاربن نیوٹرل ہونا ہی پڑے گا۔ یوروپی یونین، جاپان، کوریا جمہوریہ سمیت 110سے زائد ممالک نے 2050تک کاربن نیوٹریلٹی پانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ چین ایسا 2060تک کر لے گا۔ ہندوستان شاید 2070 تک ہی ایسا کرپائے گا۔
یوروپی یونین تو ان درآمدات پر بھی کاربن ٹیکس لگانے کا سوچ رہی ہے جن کے پروڈکشن میں تھوہولڈ ویلیو سے زیادہ اخراج ہوتا ہے۔ ایسے میں مجبوراً ہی سہی مختلف ممالک اپنے یہاں فوسل ایندھنوں کی کھپت، پیداوار پر سخت سے سخت اصول وضوابط نافذ کررہے ہیں۔ ان کے تحت اداروں، انٹرپرائزز، یا سروس سیکٹر فراہم کرنے والوں کو مختلف سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے یا تو صاف توانائی کے ذرائع کا متبادل منتخب کرنا ہے یا ٹیکنالوجیز سے ایکٹیویٹڈ پریکٹسزکو صفر کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کی بنانی ہے۔ ڈی کاربونائزیشن یا کاربن فری ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ گلوبل وارمنگ میں اضافہ کو 1.5ڈگری سیلسیس پر ہی باندھنے کی اہم ضرورت کے بعد بھی کوئلہ سمیت فوسل ایندھنوں کے تقریباً غیرمحدود استعمال کی چھوٹ سبھی چاہتے ہیں۔ حالاں کہ آئی پی سی سی کا ماننا ہے کہ زمین کا گرم ہونا کل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے متناسب ہوتا ہے۔
موجودہ وقت میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کثافت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ کے ادارہ این او اے اے کے مطابق مئی 2023میں فضا میں ماہانہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کثافت ریکارڈ اونچائی پر تھی، جو سابقہ صنعتی دور کی کثافت سے پچاس فیصد زیادہ تھی۔ دنیا میں تقریباً 85فیصد توانائی فوسل ایندھن کوئلہ، پٹرولیم اور گیس سے حاصل کی جاتی ہے۔ پٹرولیم اور گیس سے جڑی صنعتیں تو ہیں لیکن لوہا ، اسپات، المونیم، سیمنٹ، بجلی، ہائیڈروجن، کھاد، کیمیکل کی صنعت بھی کاربن انٹینسو ہیں۔ اسٹیل، سیمنٹ، کیمیکل سیکٹر کی صنعتوں سے فضا میں تقریباً 20فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ پہنچتا ہے۔ بڑے-بڑے اخراج میں کمی کی ہر سیکٹر میں ضرورت ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو تو فضا سے ہٹانا ہی پڑے گا۔ لیکن صرف درختوں کے ذمہ ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کا کام سونپ کر ہم آب وہوا کے بحران کا سامنا نہیں کرسکتے ہیں۔ درخت چوں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا استعمال فوٹوسنتھیسس اور بایوماس بڑھانے میں کرتے ہیں، اس لیے وہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہٹانے میں مؤثر ہوتے ہیں۔ ان سے زمین کے اندر کاربن کا ذخیرہ بھی ہوتا ہے۔ بہت زیادہ بایوماس بڑھانا پڑے گا۔ جنگلات میں آگ لگنے جیسے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ حالاں کہ بڑی بڑی کمپنیاں ایئرلائنس وغیرہ بھی جنگلات سے کاربن کیپچر کا ہی سہارا لے رہی ہیں۔ وہ اپنی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو نیوٹرلائز کرنے، نیٹ زیرو اخراج کا ہدف پانے کے لیے اسی کا سہارا لے رہی ہیں۔
2023کے اقوام متحدہ کے آب و ہوا سے متعلق مذاکرات کی قیادت کرنے کے لیے اعلان شدہ کوپ-28نامزد صدر یو اے ای کے انڈسٹری اینڈ ایڈوانس ٹیکنالوجی کے وزیر ڈاکٹر سلطان الزبیر کا بے لاگ لپیٹ کے کہنا ہے کہ موسمیاتی ریاضی جوڑجاڑ کے کچھ خاص نہیں ہوتی اگر اس میں کاربن کیپچر کے ردعمل شامل نہیں ہیں۔ متبادل توانائی کے شمسی یا ونڈپاور کے استعمال بھی گرمی کم کرنے میں بہت کارگر نہیں ہوسکتے ہیں۔ 11مئی 2023کو 1500سے زیادہ عالمی پالیسی سازوں، انڈسٹریل لیڈرس انوویٹرس کو یو اے ای کلائمیٹ ٹیک کانفرنس میں مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں تیزی سے ان تکنیکی حل کو تلاش کرنا ہوگا جو معاشیات کو ڈی کاربونائز کریں۔ اخراج کو آئی پی سی سی رپورٹ کے مطابق2030تک کم سے کم 43فیصد کم کریں۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھی امریکہ کے پاور پلانٹوں کے آپریٹرس کو واضح ہدایت دی ہے کہ انہیں اخراج روکنے کے اقدامات کرنے ہی ہوں گے۔ امریکہ کے موسمیاتی سفیر کیری بھی کہہ چکے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ ایسے تیل و گیس پروڈیوسر، جو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے وہ تکنیکی مہارت حاصل کرلی ہے، جس سے ان کے فوسل ایندھن نکالنے و اس کی کھپت کرنے میں دنیا کی گرم ہونے کی صورتحال مزید نہیں بگڑے گی، وہ اسے ثابت کریں کہ ایسی تکنیکوں کو کفایتی شرح پر وسیع پیمانہ پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے اور وہ تیزی سے موسمیاتی آفت کو ٹال بھی سکتی ہیں۔ وہاں لکوڈ نیچرل گیس کے پروڈیوسر بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ڈی کاربونائزیشن تکنیکوں میں بھاری سرمایہ کاری نیچرل گیس کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کرتے ہوئے زیرو گرین ہاؤس اخراج تک بھی پہنچیں گے۔ امریکہ میں کل کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج میں پاور پلانٹوں سے 31فیصد اخراج ہوتا ہے۔ وہاں کا سپریم کورٹ بھی کہہ چکا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ آلودگی پھیلانے والا ہے۔ اب پاور پلانٹ یا تو اپنے کو بند کریں یا کم کاربن اخراج کا انتخاب کریں یا کاربن کیپچر کم کرنے کا سی سی ایس وعدہ کریں۔
سی سی ایس یعنی کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج تکنیکوں میں صنعتی عمل کے طریقوں سے پہلے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پکڑ باہر کیا جاتا ہے۔ پھر پکڑی گئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کافی گہرائیوں کی ارضیاتی چٹانوں کی تہوں یا سمندر کی نچلی سطح میں یا پرانے غیرفعال آتش فشاں میں بھی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ ذخیرہ کے لیے اسے پائپ لائنوں سے ٹرانسپورٹ بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ بہت زیادہ نہ ہو سی سی ایس تکنیک کا اپنانا تجارتی طور پر فائدہ مند نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پاور پلانٹوں میں ایتھنول یا امونیا جیسی دیگر صنعتی مصنوعات کے مقابلہ کم کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ کاربن کیپچر ٹیکنالوجی سے پاور پلانٹوں سے کوئلہ یا گیس سے صاف بجلی تو ضرور پیدا ہوگی مگر یہ صارفین کے لیے ڈیڑھ سے دوگنی تک مہنگی ہوگی۔ طریقہ جو ہو لیکن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم سے کم کرنا ہی ہوگا، تبھی دنیا بچے گی۔rvr