انجینئرخالد رشید (علیگ)
بچپن میں سبھی نے لکڑہارے کی وہ کہانی یقینا سنی ہوگی جس میں وہ اپنے بچوں کو اتحاد کی اہمیت بیان کرنے کے لیے جمع کرتا ہے،جب سارے بچے جمع ہو جاتے ہیں تو وہ بڑے لڑکے کو بلا کر اس کو ایک لکڑی دے کر کہتا ہے کہ اسے توڑ دو۔ لڑکا گھٹنے پہ لکڑی رکھ کر زور لگاتا ہے، لکڑی آسانی سے ٹوٹ جاتی ہے، لکڑہارا ایک ایک کرکے اپنے پانچوں بچوں کو بلا کر سب سے ایک ایک لکڑی تڑواتا ہے، اس کے بعد وہ پانچ لکڑیاں لے کر ایک ساتھ باندھ دیتا ہے اور اپنے لڑکوں سے کہتا ہے کہ اب وہ اس بنڈل کو توڑنے کی کوشش کریں۔ لڑکے بہت زور لگاتے ہیں لیکن ایک جگہ بندھی پانچ لکڑیاں نہیں توڑ پاتے۔ لکڑہارہ بچوں سے مخاطب ہوتا ہے، دیکھا تم نے یہ اتحاد کی طاقت ہے، یہی لکڑیاں جب الگ الگ تھیں تو کتنی آسانی سے ٹوٹ گئیں۔اسی طرح اگر تم سب متحد رہو گے تو تمہیں کوئی شکست نہیں دے پائے گا۔ پٹنہ میں منعقد ہونے والی حزب اختلاف کی میٹنگ بھی اسی قسم کی کوشش ہے، مسئلہ اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ یہاں کوئی معصوم بچہ نہیں ہے، سب تجربے کار لکڑہارے ہیں جو اتحاد کا مطلب بخوبی جانتے ہیں۔ سب یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’ United we will win and divided we will vanish‘‘لیکن سب کے اپنے اپنے خواب ہیں، اپنے اپنے سیاسی مقاصد۔ مثبت بات یہ ہے کہ سب پر بی جے پی کا خوف سوار ہے، سب کو امت شاہ کا وہ بیان بار بار یاد آتا ہے کہ ہم ہندوستان پر اگلے پچاس سال حکومت کریں گے۔ میٹنگ میں شامل پارٹیوں میں اکثریت کا خیال ہے کہ اگر اس مرتبہ بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل نہ کیا گیا تو ملک میں آئندہ شاید انتخابات ہی نہیں ہوں گے اور اگر ہوں گے تو مصر اور اردن کی طرح، جہاں حزب اختلاف کی موجودگی بس برائے نام ہی ہوتی ہے۔ موجودہ وقت حزب اختلاف کے اجلاس کے لیے نہایت مناسب ہے کیونکہ ہر جماعت حکومت کے آمرانہ نظام سے نہ صرف پریشان ہے بلکہ بہت سی جماعتوں کو تو اپنا وجود ہی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ مہاراشٹر اور بہار میں حزب اختلاف کی پارٹیوں کے ایک ساتھ آنے سے جہاں امید کی نئی کرن پیدا ہوئی ہے، وہیں راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے علاوہ ہماچل پردیش اور کرناٹک کی جیت نے بی جے پی کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دلت صدر کے انتخاب اور راہل کے وہائٹ ہاؤس دورہ کی خبروں نے بھی کانگریس کو بی جے پی کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ اپوزیشن کا اتحاد الیکشن کے نتائج پر کتنا اثر انداز ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے لیکن اتنا تو واضح ہو ہی گیا ہے کہ2024کی لڑائی اب یکطرفہ نہیں رہ گئی ہے۔ حالانکہ سیاسی مبصرین یہ ماننے سے انکار کر رہے ہیں کہ بی جے پی کے اپنے ووٹ بینک میں کوئی بہت نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جو2019میں37فیصد تھا، لیکن اگر حزب اختلاف ایک مضبوط شکل اختیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس ووٹ کو دس فیصد مزید کم کیا جا سکتا ہے، پٹنہ کا اجلاس اسی کوشش کا پہلا قدم ہے۔ اگر صوبے کے اعتبار سے ایک سر سری جائزہ لیا جاے تو دس صوبوں کی250 نشستیں ایسی ہیں جہاں حزب اختلاف اچھی پوزیشن میں ہے کیونکہ ان صوبوں میں دعویداری کلیئر ہے جن میں تمل ناڈو39، بہار40، مہاراشٹر48،کرناٹک28، راجستھان 25، مدھیہ پردیش29،چھتیس گڑھ11، جھارکھنڈ14، ہماچل پردیش4، اتراکھنڈ5، آسام14، ہریانہ10شامل ہیں، یہ کل تعداد250کے قریب ہے، ان علاقوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں میں سیٹوں کے بٹوارے میں کوئی خاص مشکل نظر نہیں آتی۔ دوسرے صوبے وہ ہیں جہاں حزب اختلاف کی کئی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں، اس میں بنگال40، یوپی80، پنجاب13، تلنگانہ12، کیرالہ20، آندھرا پردیش 30، کشمیر6 اور دہلی7۔ ان سیٹوں کی تعداد208بنتی ہے، ان علاقوں میں بی جے پی کے خلاف ایک مشترکہ امیدوار کھڑا کرنا حزب اختلاف کے لیے بڑا چیلنج ہے مثال کے طور پر پنجاب اور دہلی میں کجریوال اور کھرگے کو سیٹ شیئرنگ پر تیار کرنا مشکل کام لگتا ہے، بنگال میں بھی بائیں بازو کی جماعتوں اور ممتا بنرجی کو راضی کرنا تقریباً اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا مایاوتی اور اکھلیش میں سمجھوتہ کرانا۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش میں بھی دونوں مقامی جماعتوں کا کانگریس کے ساتھ36کا آنکڑا ہے، یہاں کانگریس کتنا جھکنے کو تیار ہوگی، یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا لیکن جو بیس پارٹیاں پٹنہ میں23جون کو اجلاس میں شرکت کریں گی، وہ سب ملک کو درپیش مسائل سے بخوبی واقف ہیں، وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کے جمہوری نظام کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ ملک کا فیڈرل نظام کس قدر دباؤ میں ہے، اس کا اندازہ دہلی کے حالیہ آرڈیننس سے سبھی کو ہوچکا ہے۔ بی جے پی نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ ہر حال اور ہر قیمت پر اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتی۔ کجریوال کی سیاست سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ان کی اس بات پر سب اتفاق رکھتے ہیں کہ مرکزی حکومت عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد بھی ان کی منتخب حکومت کے اختیارات کو صلب کرنے پہ تلی ہے۔ سرکار کے اس فیصلے نے ملک کے اپوزیشن کو واضح اشارہ دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ حزب اختلاف کی ساری جماعتیں مرکزی ایجنسیوں کے ناجائز استعمال سے اتنی ہی پریشان ہیں، جتنی بلڈوزر سے یوپی کے عوام۔ اس کے علاوہ بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اورGSTکے پیچیدہ نظام نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، یہ وہ مسائل ہیں جن پر اس اجلاس کے سبھی شرکا متفق ہیں اوراس حقیقت کا بھی سبھی کو اعتراف ہے کہ بھلے ہی کانگریس کے ان سے کتنے بھی اختلافات ہوں ، کانگریس کے بغیر حزب اختلاف کوئی مؤثر لڑائی نہیں لڑ سکتا، یہی وجہ ہے کہ یہ اجلاس جو 12جون کو ہونا طے پایا تھا، راہل کے امریکہ دورے کے سبب23جون کو ہو رہا ہے۔ موجودہ اجلاس میں شرکا حزب اختلاف کو درپیش تمام مسائل پر کسی حتمی نتیجہ پہ پہنچ سکیں گے، اس کا امکان تو بہت کم ہے لیکن اس کے بعد اور بھی کئی اجلاس ہوں گے۔ بالآخر اگر یہ تمام پارٹیاں2024میں350سیٹوں پر بی جے پی کے خلاف ایک مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو یقینا ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل جائے گا اور ملک کو جمہوریت کو لاحق خطرات سے چھٹکارہ مل جائے گا اور اس پارٹی سے بھی جو اپنی نا کامیوں کو مصنوعی مدوں کی مصنوعی دھول میں چھپا کر عوام کے حقوق کو صلب کرنے میں مہارت حاصل کر چکی ہے۔ اگر حزب اختلاف کی یہ پارٹیاں حکومت کے خلاف ایک متحد محاذ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ملک ایک بار پہلے بھی یہ کارنامہ انجام دے چکا ہے جب1975کی ایمرجنسی کے خلاف ملک کی تمام پارٹیاں جنتا پارٹی کی شکل میں متحد ہوکر اندرا گاندھی کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوئی تھیں، فرق صرف یہ ہے کہ وقت کا پہیہ پوری طرح گھوم چکا ہے، اس وقت سنگھ حزب اختلاف کا حصہ ہوا کرتی تھی جس کی جنگ کانگریس کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف تھی، آج بی جے پی اقتدار میں ہے اور کانگریس بی جے پی کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف کھڑی ہے۔ حزب اختلاف کو بہت احتیاط سے اپنے مہرے چلنے ہوںگے۔ یہ کھیل سیاست کا کھیل ہے، جس میں صرف گھوڑا ہی ڈھائی گھر نہیں چلتا، کبھی کبھی پیدل بھی گھوڑے سے لمبی چھلانگ لگا دیتا ہے ۔
[email protected]