عمیر انس
ایک عزیز دوست میرے دفتر پر تشریف لائے اور انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ آج کل بہت سارے مسلم نوجوانوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں میں نوکریاں ملی ہوئی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ گزشتہ دس سالوں میں جتنے غیر مسلم نوجوان غربت سے نکل کر اپنی خود کی کمپنیوں کے مالک ہوگئے ہیں اور نوکری دینے والے ہوگئے ہیں، ان کے تناسب میں ایسے مسلم نوجوان کتنے ہیں؟ انٹرنیٹ نے تو سرمایہ اور آئیڈیا کے بیچ میں ہو رہی عدم مساوات کو یکسر ختم کر دیا ہے اور اب آئیڈیا بھی اتنا ہی قیمتی ہوگیا ہے جتنا سرمایہ لیکن پھر بھی مسلمان نوجوان اسٹارٹ اپس کا ایڈونچر لینے میں غیر مسلم نوجوانوں سے پیچھے کیوں ہیں؟ اس گفتگو میں تین جوابات اُبھر کر آئے، ممکن ہے ان مشاہدوں میں افراط و تفریط ہو لیکن کافی حد تک یہ مشاہدے دُرست ہیں، پہلی بات انہوں نے یہ کہی کہ مسلم نوجوان نوکریوں پر منحصر رہنے کا عادی ہو گیا ہے، جن مسلم نوجوانوں کو اچھی تنخواہوں والی نوکریاں حاصل ہیں، وہ اس بات سے خوش ہیں کہ ان کے گھر ٹھیک سے چل رہے ہیں،لیکن وہ اس بات سے بے فکر بھی ہیں کہ غربت کا معیار تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں تو عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ غریب سے غریب شخص بھی خود کو مڈل کلاس کہتا ہے، جبکہ مڈل کلاس اور غریب ہونے کے بیچ واضح فرق ہے، تو جو نوکری پیشہ حضرات آج اچھی آمدنی کے ساتھ مڈل کلاس ہیں محض بیس سال میں وہ پھر سے غریب ہو جائیں گے، نوکریوں پر منحصر حضرات اکثر اپنی ہی زندگی میں غریب ہونے لگتے ہیں، غربت کا سب سے کارآمد خاتمہ صرف وہ لوگ کر پاتے ہیں جو اپنا خود کا بزنس بھی کرتے ہیں اور ہمیشہ اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے فکرمند رہتے ہیں اور اپنے ذریعہ دوسروں کو بھی روزگار دینے اور ہنر سکھانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ جس زمانے میں سیکڑوں نئی کمپنیاں ملک میں کھڑی ہوگئی ہیں، ان میں مسلمانوں کے ذریعہ قائم کی جانے والی کمپنیوں کی تعداد چند ایک ہی ہے۔ ضروری نہیں کہ مسلمان کمپنیاں مسلمانوں کو ہی روزگار دیں، وہ کسی کو بھی روزگار دیں لیکن معاشرے میں ان کا فائدہ نظر آئے گا، خاص طور پر چھوٹے شہروں میں مسلمانوں میں غیرمسلموں کے تناسب میں کہیں زیادہ تعداد بڑھی ہے اور گہری ہوئی ہے، مثلاً کرائے کے گھر پر رہنے والے مسلمانوں کی تعداد بڑھی ہے، اپنے خود کے گھروں کے مالک بننے والے مسلمانوں کی تعداد غیر مسلموں کے مقابلے میں بہت کم ہو رہی ہے، یہ سب اس لیے ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نوکری پر منحصر ہو رہی ہے، اگر کسی محلے میں سو میں سے سو نوجوان نوکریوں میں ہوں گے تو ظاہر ہے کہ اس علاقے کہ فی کس آمدنی ایک لمبے عرصے تک ٹھہری رہے گی۔ان کے پاس اسکول، اسپتال، مساجد، پارک، مارکیٹ، کلچرل سینٹر، کمیونٹی سینٹر جیسے ضروری ادارے بنانے کہ لیے پیسے نہیں ہوں گے، چنانچہ کم از کم شمالی ہند میں میرا مشاہدہ ہے کہ مساجد کے ادارے بیحد خستہ ہو رہے ہیں، مسجدیں تنگ پڑ گئی ہیں اور ان کی ضرورت کے مطابق توسیع کرنے کے لیے سوائے خارجی امداد کے کوئی ذریعہ نہیں ہے، معاشرتی غربت کو ختم کرنے کے لیے زکوٰۃ، خیرات، امداد اور باہر ملک میں کام کرنے والوں کی آمدنی نہیں، صرف اور صرف اپنے خود کے بزنس قائم کرنے، روزگار دینے والے کام شروع کرنے اور اپنی آمدنی کو مسلسل بڑھانے والے کام کرنے ہوں گے۔
لیکن دوسرا مشاہدہ بڑا حیرت انگیز تھا کہ مسلم نوجوانوں میں زیادہ پیسے کمانے کی خواہش ہی نہیں ہے، اگر کسی کے پاس بیس پچیس لاکھ کی نوکری ہے تو اس آمدنی پر پوری طرح مطمئن ہے کیونکہ آج کے معیار سے وہ ہائی انکم گروپ میں شامل ہے، یہاں تک کہ تاجر مسلمان بھی اور اپنے خود کے کارخانے چلانے والے مسلمان بھی پچیس پچاس لاکھ روپے کی بچت کے بعد بے فکر ہوجاتے ہیں کہ اب اس سے زیادہ ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اب جو ان کے پاس ہے وہ کافی ہے اور اپنا وقت وہ بظاہر دینی یا سماجی کاموں میں لگاکر خود کو یہ اطمینان دلاتے ہیں کہ وہ اپنی سماجی ذمہ داریاں بھی ادا کر رہے ہیں، اپنی آمدنی کو ایک کروڑ سے دس کروڑ، دس سے سو کروڑ تک لے جانے والی محنت کو وہ خدا نخواستہ مادہ پرستی اور دنیا داری سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا بزنس جتنا ترقی کرے گا، وہ مزید لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کا ذریعہ بنیں گے، غربت کے خاتمے کا وسیلہ بنیں گے، علاقے میں خیر و فلاح کے کاموں کی مدد کرنے کے اہل ہوںگے، ان کا اپنے آپ کو ایک مسلسل ترقی دینا خود ایک سماجی خدمت ہے، اللہ تعالیٰ کے رسول کریمؐ ہمیشہ غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دیتے تھے، یہ اس لیے تھا کہ کوئی بھی شخص غلامی یا اس کے جیسے حالات کا شکار نہ ہونے پائے، یہی اصول غربت پر صادق ہے جو انسان کو مجبور بنا دیتے ہیں۔ ایک تیسرا مشاہدہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مسلمانوں کے سرمایہ دار طبقے میں مزدوروں کا استحصال کرنے کا خراب رجحان پایا جاتا ہے، مثلاً کانپور وغیرہ میں فیکٹریوںمیں بیشتر مزدور طبقہ مسلمانوں کا ہے جو پچیس پچیس سال مسلمانوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے کے باوجود اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم تک نہیں دلا سکے، اور ان کی اولاد بھی مزدوری کر رہی ہے، حالانکہ اپنے مزدوروں کی صحت اور تعلیم دو ایسے کام ہیں جو اگر وہ اپنے ذمے لے لیں تو انہیں زیادہ اجر و ثواب ملے، لیکن سستا مزدور رکھنے کی لالچ میں وہ انسانوں کا استحصال کرتے آئے ہیں، مسلمان سرمایہ داروں نے تعلیم، ٹیکنالوجی، صحت، جیسے بہترین اور زندگیوں کو بدل دینے والے میدانوں میں سرمایہ کاری کی زحمت نہیں کی ہے، انہوں نے سوچا کہ یہ صرف ایک خیراتی کام ہے جسے کرنا مدرسوں اور علماء کا کام ہے، نتیجہ یہ ہے کہ جس مدت میں آر ایس ایس نے پورے ملک میں انگلش میڈیم کے بہترین اسکولوں کا نیٹ ورک قائم کر کے خوب پیسہ بھی کمایا اور اپنے معاشرے کو انقلابی طور پر بدل کر رکھ دیا، اسی مدت میں مسلمان سرمایہ داروں کے علاقوں میں ایک بھی ایسا اسکول نہیں جس میں داخلے کیلئے عوام منہ مانگی فیس دینے کے لیے تیار ہو۔ پوری دنیا میں اپنے علم اور پیسے کے لیے مشہور اعظم گڑھ کی مثال کافی ہے جہاں بالکل گاؤں میں شاندار حویلیاں قائم ہیں لیکن اچھی تعلیم کے لیے کوئی اسکول تک نہیں، سرمایہ کاری کی اس بگڑی ترجیح نے مسلمانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ تعلیم اور صحت صرف خیراتی عمل نہیں ہیں، اس میدان میں جائز طریقے سے منافع کماتے ہوئے سماج کو بدل دینے والی خدمت بھی ہوتی ہے۔ شاید یہ بھی ایک مسئلہ کہ مسلمانوں میں اجتماعی طور پر صرف دو کام ہوتے ہیں، نمازیں اور مسلکی لڑائیاں، جماعت سے نماز پڑھنے کا اثر اتنا بھی نہیں ہوتا کہ لوگ مل جل کر چھوٹی چھوٹی تجارتی کوششیں کریں، اعتماد اور مشاورت کے ساتھ سب کو منافع حاصل کرنے کے اصول کے ساتھ فائنانس اکٹھا ہو۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ جب پورے ملک کا معاشی منظر بدل رہا ہے اور ملک چھوٹے صنعتی انقلاب میں قدم رکھ رہا ہے، لگتا ہے صنعتی انقلاب کی یہ بس بھی مسلمانوں سے چھوٹ جائے گی، میں صرف یہ جانتا ہوں کہ جب تک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان آمدنی کے فاصلے بہت گہرے رہیں گے، مسلمان سیاسی اور سماجی طور پر بھی مجبور اور مقہور نظر آئیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ معاشی ترقی مسلم رہنماؤں کا سب سے اہم ایجنڈہ ہو اور اس موضوع پر ان کی توجہ سب سے زیادہ ہو۔
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]