نام کی تبدیلی کا مسئلہ

0

ملک میں نام کی تبدیلی کی سیاست نئی نہیں ہے۔کبھی سڑکوں کا نام تبدیل کیا جاتا ہے تو کبھی شہروں اوراضلاع کا نام۔ جب بھی نام تبدیل کیا جاتا ہے ، اس پر تنقیدہوتی ہے اورکچھ نہ کچھ ہنگامہ ضرور ہوتاہے ، تاہم اس سے بدلاہوا نام واپس نہیں آتا ، برسوں سے پوراملک یہی دیکھ رہاہے ۔نام کی تبدیلی کی سیاست ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔کچھ دنوں تک موضوع بحث رہنے کے بعد معاملہ ٹھنڈاہوجاتاہے اور حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ہرحکومت اپنے ایجنڈے کے مطابق ناموں کی تبدیلی کرتی ہے، جوان لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوتی ، جو اس سے متاثرہوتے ہیں ، لیکن وہ کربھی کیا سکتے ہیں۔ وہی ہوتا ہے، جو حکومت چاہتی ہے۔ ناموں کی تبدیلی کانیاتنازع نہرو میموریل میوزیم اینڈلائبریری سوسائٹی کاآیا ہے۔ جس کا نیا نام اب پرائم منسٹر میوزیم اینڈسوسائٹی رکھا گیا ہے ۔کانگریس ، شیوسینا اوردیگر سیاسی پارٹیوں کو اس پر اعتراض ہے اوروہ اس پر سخت ردعمل ظاہر کررہی ہیں،جبکہ بی جے پی مودی سرکار کے فیصلہ کا پرزور دفاع کررہی ہے ۔دونوں طرف سے بیان بازی ہورہی ہے اور بلاوجہ ایک سیاسی تنازع کھڑا ہوگیا ہے ۔غنیمت ہے کہ اس تنازع کے چھینٹے سابق وزرا اعظم پر نہیںپڑرہے ہیں ،ابھی تک ان کی امیج خراب نہیں ہورہی ہے اور ان کا وقارمجروح نہیں ہورہا ہے ، لیکن جس طرح کے حالات بن رہے ہیں ۔تنازع نے طول پکڑا تو وہ بھی ہوسکتا ہے ، جو نہیں ہوناچاہئے ۔اس لئے کہ جب کوئی فیصلہ وقار کا مسئلہ بنتاہے تواس کے غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
جس تین مورتی بھون میں مذکورہ میوزیم ہے ، وہ عمارت بھی تاریخی ہے اورمیوزیم بھی تاریخی ۔ تین مورتی بھون برطانوی دور حکومت میں ہندوستان کے کمانڈر ان چیف کی رہائش گاہ تھی ،لیکن ملک کی آزادی کے بعدوہ پہلے وزیراعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو کی سرکاری رہائش گاہ بن گیا،اوران کی موت کے بعد عمارت کو پنڈٹ نہر وکے نام وقف کرکے ان کی یاد میں نہرومیموریل میوزیم اینڈلائبریری سوسائٹی کا نام دے دیا گیا ۔ایک بار پھر تین مورتی بھون کی پہچان بدلی ۔ جمعرات کو نہرومیموریل میوزیم اینڈلائبریری سوسائٹی کے وائس چیئرمین راجناتھ سنگھ کی صدارت میں ایک خصوصی میٹنگ ہوئی اور میوزیم کو نیا نام دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح اس کا نام پرائم منسٹر میوزیم اینڈ سوسائٹی کردیا گیا ۔جو پہچان نہروکے نام سے مخصوص تھی ، وہ اب تمام وزرا اعظم سے منسوب ہوگئی ، جن میں پنڈٹ نہر وبھی شامل ہیں ۔نئی پہچان کے بعد اب اس میں صرف نہروکی چیزیں نہیں رہیں گی ، بلکہ ان کے بعد جتنے بھی وزرااعظم ہوئے ، ان کی بھی یادگاریں رہیں گی ۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کوصرف نہروکی پہچان ختم کرنے پر اعتراض ہے اوروہ اسے تاریخ کو مٹانے سے تعبیر کررہی ہیں ،ہونا تو یہی چاہئے کہ پنڈٹ نہرو کی طرح ملک کے دیگر سابق وزرااعظم کی یادگاروں کے لئے کوئی میموریل یا میوزیم ہوتا۔ بی جے پی کا کہناہے کہ صرف ایک ہی وزیراعظم کے نام پر میوزیم کا نام کیسے رکھا جاسکتا ہے ؟ دوسرے وزرااعظم کو بھی میوزیم میں جگہ ملنی چاہئے ۔ اگر ہر وزیراعظم کیلئے الگ الگ میوزیم بنائے جائیں تو شاید کانگریس کو بھی اعتراض نہیں ہوتا۔ تب یہ سوال پیداہوتا کہ اتنے میوزیم بنانے کیلئے عمارتیں کہاں سے آئیں گی اور اگر نہروکے بعد سبھی وزرااعظم کیلئے ایک ہی میوزیم بنایا جاتا تب یہ کہا جاتا کہ پنڈٹ نہر وکیلئے الگ سے ایک میوزیم کیوں ؟برابری کیوں نہیں ؟کیونکہ جب بحث شروع ہوتی ہے تو بہت دورتک جاتی ہے ، جس سے بچنے میں ہی عافیت ہے ۔
دراصل حالیہ عرصے میںملکی سطح پر کچھ خاص ناموں کی تبدیلی اورانہیںمخصوص پہچان دینے کا رجحان کچھ اس طرح بڑھ گیا ہے ،سرکارکی نیت خواہ کچھ ہو ،دوسروں کو اس کے وقت اور نیت پر سوال اٹھانے کا موقع مل جاتاہے ۔ تنازع کی اصل وجہ بھی یہی ہوتی ہے ۔اگر خود بناکر نام دیں تو کوئی تنازع نہیں کھڑا ہوگا ۔دہائیوں کی پہچان ایک ہی جھٹکے میں ختم کریں گے تو سیاست سے روک نہیں سکتے ۔نہرومیوزیم کا حال کچھ ایساہی ہے ۔ناموں کی تبدیلی کا سیاسی کھیل یہیں پر ختم نہیں ہوگا ، آگے بھی جاری رہے گا۔جس پر ضرب پڑے گی ، وہ آواز اٹھائے گا ۔آپ فیصلہ کا دفاع تو کرسکتے ہیں ، لیکن کسی کا منھ بندنہیں کرسکتے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS