صدر لبنان نے اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اکتوبر2022کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور صدارتی محل سے نکل گئے تھے۔ یہ واقعہ ان معنوں میں منفرد نوعیت کاتھا کہ ان کے صدارتی محل سے نکلنے سے قبل کون ان کا مقام لے گا، طے نہیں ہوپایاتھا۔ عام طور پر ممبران پارلیمنٹ نئے صدر کاانتخاب قبل از وقت کرلیتے ہیں مگر صدر آعون کی مدت کار کے خاتمہ کے 8ماہ بعد بھی کسی عہدیدار پر اتفاق نہ ہونا بحران کو شدید کرنے والا ہے۔لبنان کے فارمولے کے مطابق عیسائی فرقہ کا نمائندہ صدر جبکہ وزیراعظم سنی مسلمان اور پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ ہوتا ہے۔ اسی مرتبہ عیسائیوں میں دو امیدواروں فرینگی اور آزور کے درمیان مقابلہ ہے۔ شیعہ امل اور حزب نے آزور کوصدر بنانے کی مخالفت کردی ہے۔ آزور ایک آزاد ممبرپارلیمنٹ ہیں ان کے مقابلے میں فرینگی مراڈا پارٹی کے صدر ہیں اور سابق صدر سلیمان فرینگی کے پوتے ہیں۔ ان کا تعلق لبنان کے بااثر سیاسی خاندان سے ہے، ان کے والد بھی ممبر پارلیمنٹ ہیں، وہ مورونائٹ عیسائی ہیں اور محفوظ سیٹ سے ایم پی چنے گئے ہیں۔ ان کے بیٹے ٹونی فرینگی بھی فی الحال ممبرپارلیمنٹ ہیں۔ جہاد آزور آئی ایم ایف سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ فواد سنیورہ کی حکومت میں 2005-2008وزیر خزانہ رہے اور پچھلے دنوں تک آئی ایم ایف کے مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔ آزور کو حال ہی میں ایک اور عیسائی پارٹی فری پیٹریوٹ موومنٹ کی حمایت ملی ہے جبکہ فرینگی کو حزب اللہ اور امل تحریک سے مدد مل رہی ہے۔لبنان کا سیاسی عمل کافی پیچیدہ ہے۔ صدر اور فوج کا سربراہ مورونائٹ عیسائی وزیراعظم سنی مسلمان اور اسپیکر شیعہ مسلم ہوتا ہے، نائب وزیر اعظم Greek Orthodexعیسائی، مسلح فوج کا چیف آف جنرل اسٹاف دروز فرقہ کا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبران پارلیمنٹ کا بھی کوٹہ مقرر ہے جو عیسائیوں مسلمانوں اور دروز میں تقسیم ہے۔صدر کے عہدے کے لیے انتخابات کے دوران ممبران پارلیمنٹ 128میں سے 86موجود رہنے چاہئیں۔ صدر کو پہلے دور کی ووٹنگ میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ انتخاب ہوتا ہے۔ دوسرے دور کی ووٹنگ میں65ممبران کی اکثریت درکارہوتی ہے۔n
کتنا پیچیدہ ہے سیاسی ڈھانچہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS