ہریانہ: حکمراں اتحاد میں دراڑ کے آثار

0

ہریانہ اگرچہ چھوٹی ہی ریاست ہے اور اس کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد محض 10اور اسمبلی کی 90سیٹیں ہیں اس کے باوجود دہلی سے قریب ہونے کی وجہ سے اس ریاست کی بڑی سیاسی اہمیت ہے۔ ہریانہ میں لگاتار دوسری بار بی جے پی اقتدار میں ہے اور وزیراعلیٰ کھٹر غیر جاٹ لیڈر کے طور پر ریاست میں اپنا وجود اور دبدبہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ مگر دہلی کی سیاست پر ہریانہ کا کافی اثر ہے۔ راجدھانی کے قریب ہونے کی وجہ سے ہریانہ کے سیاسی لیڈر دہلی کی قومی سیاست میں سرگرم رہتے ہیں۔ چاہے معاملہ کسان تحریک کا ہو یا پہلوانوں کے احتجاج کا۔ہریانہ، پنجاب اور ہماچل پردیش کے کسان کسان تحریک کے مرکز اور محور رہے ہیں ۔ ابھی بھی جب دہلی میں پچھلے دنوں پہلوانو ں کی اولمپک ایسو سی ایشن کے صدر اور بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو ہریانہ کے کسانوں نے اس تحریک کو ہر اعتبار سے حمایت دی۔ شروع شروع میں کانگریس نے درپردہ رہ کر حمایت کی مگر بعد میں کانگریس کے کئی لیڈر کھل کر کسانوں کے سامنے آکر حمایت کرنے لگے۔ جس وقت پہلوانو ںکی تحریک جس میں پیش پیش خواتین اور اولمپک کھیلو ںمیں کامیاب رہنے والی لڑکیاں تھیں، شباب پر تھیں اسی دوران کرناٹک میں انتخاب ہورہے تھے اگرچہ یہ تحریک کرناٹک سیکڑوں میل دور دہلی میں ہورہی تھی تو اس دوران اس کی باز گشت پورے ملک اور بطور خاص کرناٹک میں محسوس کی جا رہی تھی۔ ممبرپارلیمنٹ جن کا تعلق بی جے پی سے ہے اور اترپردیش کے مشرقی علاقے میں وہ سرگرم ہیں اور آس پاس کے کئی اور اسمبلی سیٹوں پر اچھا خاصا رسوخ رکھتے ہیں۔
کسان تحریک کے بعد پہلوانوں کی تحریک میں برجیش سنگھ کے خلاف راکیش ٹکیت کا بڑھ چڑھ کر حصہ لینا کئی اعتبارسے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس ایشو کو اچھال کر کانگریس اور غیر بی جے پی پارٹیوں نے حکمراں پارٹی کے خواتین کے تئیں رویے کو نیشنل ڈسکورس یا قومی مذاکرے میں نہ صرف شامل کردیا بلکہ ساتھ ہی اس تحریک کے ذریعہ اس نے اترپردیش کے ایک بااثر بی جے پی کے لیڈر کو گھیرنے اور اس بہانے یوپی کی سرکار پر بھی توجہ مبذول کرائی۔ اس ایشو کو اچھال کر اپوزیشن نے ملک میں ایک ایسی فضا بنا دی جس کے ذریعہ وہ بی جے پی کے لیڈروں کی دیانتداری اور دیگر رویوں پر سوال کھڑے ہونے لگے۔ خاص طور پر جس دن پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہورہا تھا اسی روز پہلوانوں کا نئے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر مظاہر کرنے پر اصرار اور پھر اس احتجاج کو دبانے کے لیے پولیس کی کا رروائی کو دکھا کرکے کافی حد تک اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
پچھلے دنوں اترپردیش کے کئی کسان لیڈر اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے سرگرم ہوگئے تھے اس میں راکیش ٹکیت اوران کے بھائی پیش پیش رہے۔ اس تحریک نے موجودہ مرکزی سرکار کو کئی اعتبار سے نقصان پہنچایا۔ بین الاقوامی سطح پر تین اہم اولمپیائی کھلاڑیوں کے ساتھ پولیس کے رویے پر غیر ملکی میڈیا نے بھی مودی سرکار کو گھیرا۔ اس پوری تحریک کے پس پشت ہریانہ کے سیاسست داں ، رضاکار ، سماجی ادارے کھاپ پنچایتیں اور کھیل اور خواتین سے متعلق سرگرم رضاکار تنظیموں اور افراد نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی خواتین کھلاڑیوں کی اس کا اثر ہریانہ کی سیاست پر پڑے گا۔ ہریانہ اسمبلی کے الیکشن زیادہ دور نہیں ہے۔ لگاتار دوسری میقات میں برسراقتدار رہنے والی بی جے پی کی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات نے حکمراں اتحاد کو بھی متاثر کیا ہے۔ ہریانہ میں اس وقت جے جے پی اور بی جے پی کے درمیان مفاہمت ہے اور جننایک جنتا پارٹی جے جے پی کے سربراہ دشینت چوٹالہ نائب وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ 2019اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 90میں سے صرف 40 سیٹیں ملی تھیں اور وہ اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل نہیں کرپائی تھی جبکہ دوسری جانب کانگریس پارٹی جے جے پی نے الگ الگ الیکشن لڑا تھا مگر بی جے پی نے اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے جے جے پی کو اپنے ساتھ ملا لیا او اس کے علاوہ آزاد ممبران اسمبلی کو اپنے ساتھ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ مگر بعد میں بی جے پی نے کچھ آزاد ممبران اسمبلی کو اپنے ساتھ میں لانا شروع کردیا جس میں ایک ممبر اسمبلی حکومت کا حصہ ہے۔ رنجیت سنگھ نام کے آزاد ممبر اسمبلی کو وزیر بنا دیاگیا اس کے علاوہ دیگر تین ممبران کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔ بعد ازاں بی جے پی کو آدم پور اسمبلی سیٹ پر ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار کو کا میاب کر نے میں کامیابی ملی تھی۔ اس طرح 90ممبران اسمبلی کی ایوان میں بی جے پی کے ممبران اسمبلی کی تعداد 40سے بڑھ کر 41ہوگئی۔ بی جے پی کو مکمل اکثریت کے لیے 46ممبران کی ضرورت ہے جو کہ اس نے آزاد ممبران کے ساتھ سمجھوتہ کرکے حاصل کرلیے۔ کسان تحریک اور اب پہلوانوں کی تحریک میں اگر چہ بی جے پی کی پوزیشن زیادہ اچھی نہیں ہے مگر اس کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا اقتدار برقرار رکھ رہی ہے۔ اب پچھلے دنوں دشینت چوٹالہ اور بی جے پی کے درمیان بدگمانیوں اور بیانات اور جوابی بیانات کا دور شروع ہوگیا ۔ مسلسل دو میقات تک اقتدار میں رہنے والی بی جے پی کو لگتا ہے کہ وہ اکیلے دم پر الیکشن جیت جائے گی۔ بی جے پی کے ہریانہ کے انچارج نے دشینت چوٹالہ کے اسمبلی حلقے اویجانہ کلاں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے سامنے اس اسمبلی حلقے میں اپنا امیدوار کو کھڑا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
اویحانہ کلاں پر دشینت چوٹالہ نے سیٹنگ ایم ایل اے پریم لتا کو ہرایا تھا ، پریم لتا سابق مرکزی وزیر بریندر سنگھ کی اہلیہ ہیں۔ مگر دشینت چوٹالہ حصار سے ہار گئے تھے۔ جہاں بریندر سنگھ کے بیٹے برجندر سنگھ سے ہار گئے تھے۔ اس بیان کو دشینت چوٹالہ نے بہت سنجیدگی سے لیا ہے اگرچہ وہ اس بیان کو بظاہر زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں مگر ہریانہ میں حکمراں اتحاد کو لے کر قیاس آرائیوں کا دور شروع ہوچکا ہے۔ بی جے پی کے لیڈروں کی آزاد ممبر ان اسمبلی کے ساتھ لگاتار ملاقات دشینت چوٹالہ کے کسی غیر متوقع فیصلہ کی تیاری کے طور پر دیکھی جار ہی ہیں۔ دیوی لال کے خاندان سے تعلق رکھنے والے دشینت چوٹالہ اجے چوٹالہ کے بیٹے ہیں ۔
اجے چوٹالہ ہریانہ میں بھرتی گھوٹالے کو لے کر دہلی میں سزا کاٹ رہے تھے اور یہ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے دشینت چوٹالہ نے کسی حد تک اپنے والد کو رہا کرانے میں کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے دادا اوم پرکاش چوٹالہ اپنی سزا پوری کرنے کے باوجود نہ تو سیاسی گرمیوں میں شامل ہوپائے اور نہ ہی اپنی آزادی برقرار رکھ پائے۔ آنجہانی نائب وزیراعظم دیوی لال کے دوسرے پوتے ابھے چوٹالہ انڈین نیشنل لوکدل کے لیڈر ہیں۔ اگر چہ وہ اسمبلی انتخابات میں اپنی خاندان کی پارٹی کا اتحاد برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں رہے تھے اور اپنی خود کی سیٹ کے علاوہ کوئی دوسری اسمبلی سیٹ نہیں جیت پائے۔ جبکہ جے جے پی نے دس سیٹیں حاصل کرلی تھیں۔ اگرچہ چوٹالہ نے کسان تحریک کے دوران کسانو ںکے مطالبات پورا نہ ہونے کی وجہ سے ایوان سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کئی ایشوز پر اختلافات کی وجہ سے اجے چوٹالہ او رابھے چوٹالہ میں اختلاف برقرار ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ صورت حال کس حد تک دیوی لال کے خاندان کو متحد کرسکتی ہے یا نہیں ۔ کیا یہ حکمراں مخاد کا انتشار بی جے پی کی کھٹر سرکار کو گرا پائے گا یا نہیں۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS