شمال مشرق کی چھوٹی سی ریاست منی پور میں ذات پات کی بنیادپر تشدد کے بعد حالات کس قدر کشیدہ ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے ۔گزشتہ ماہ 3مئی کو بڑے پیمانے پر جو تشدد ہوا تھا ۔اب تک حالات معمول پر نہیں آسکے ۔جس کی وجہ سے انٹرنیٹ پر پابندی میں توسیع پہ توسیع کی جارہی ہے ۔ابھی گزشتہ منگل کو ریاستی حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندی 10جون تک بڑھائی تھی ۔لیکن ہفتہ کوایک بار پھرہوئے پرتشدد واقعات کے بعد اس نے انٹرنیٹ پر پابندی میں 15 جون کی سہ پہر 3 بجے تک توسیع کردی ۔اس طرح وہاں تشدد کے فورابعد براڈبینڈسمیت موبائل ڈیٹا سروسز پر جو پابندی لگائی گئی تھی ۔ وہ ہنوز جاری ہے ۔اب بھی اطلاعات ورابطہ عامہ کے ریاستی وزیرڈاکٹر سپم رنجن کا کہنا ہے کہ کچھ سرکاری اداروں اور ہنگامی خدمات کیلئے جہاں بھی ضرورت ہو ہم انٹرنیٹ خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ حالات کے پیش نظر پابندی ہٹانے پر غور کیا جائے گا۔بتایاجاتاہے کہ پہلے کے مقابلہ میں حالات کافی بہتر اورپرامن ہوئے ہیں ، جس کی وجہ سے کچھ علاقوں میں طویل عرصے سے کرفیو میں ڈھیل دی جارہی ہے ، لیکن بعض علاقوں میں اب بھی حالات کشیدہ ہیں اورجب تک یہ کشیدگی رہے گی ، تشدد بھڑکنے کا اندیشہ رہے گا ۔اسی لئے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں انٹرنیٹ پر پابندی کو برقراررکھا جارہاہے اورسرکاراس میں کوئی بھی چھوٹ دینے کا خطرہ مول لینے کو تیارنہیں ہے ۔یہ پابندی صرف عام لوگوں کیلئے ہے ، ان کے علاوہ سرکاری خدمات یا جہاں بھی انٹرنیٹ ضروری ہے ، ان کیلئے سرکار انٹرنیٹ فراہم کررہی ہے ۔ تاکہ ضروری کام متاثرنہ ہواورلوگوں کو زیادہ پریشانی نہ ہواوران کا کام چلتا رہے ۔غرضیکہ سرکارکی پوری کوشش ہے کہ حالات پرامن ہوجائیں، اگرحالات کشیدہ بھی رہیں تولوگوں کو کم سے کم پریشانی ہو۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ منی پور میں ذات پات کی جڑیں اس قدرگہری ہیں اور ان کے اندر اس قدر رنجش اوردشمنی ہے ۔تشدد کے باعث اب تک 100 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوچکی ہے ۔زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ، جبکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوکر ریلیف کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔بہتوں کے گھر جلادیے گئے ۔جس طرح کشیدگی کو دور کرنا اورحالات کو پرامن بنانا حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے ، اسی طرح ریلیف کیمپوں سے پناہ گزینوں کی گھر واپسی اوران کی بازآبادکاری کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی ۔سرکار بھی محسوس کررہی ہے کہ منی پور کا تشدد کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے ۔جس کا سلسلہ اتنے طویل عرصے تک جاری رہا۔سرکارکو بھی اس میںسازش کی بو آرہی ہے ۔تب ہی تو گزشتہ دنوں مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے مجرمانہ سازش سے متعلق 6ایف آئی آر کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کا اعلان کیا ،ایجنسی نے فورا ہی وہ سبھی معاملے اپنے ہاتھ میں لئے اوران کی جانچ کیلئے ڈی آئی جی رینک کے ایک افسر کی قیادت میں ایک ایس آئی ٹی تشکیل دے دی ۔ا س دوران خبریہ بھی ہے کہ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما نے29 مئی سے یکم جون تک ریاست کے حالات کا جائزہ لیا ،وہاں کے وزیراعلیٰ بیرن سنگھ ، ریاستی وزرااورلوگوں کے نمائندوں سے ملاقات کی اوراب آگے کی کارروائی کیلئے اپنی رپورٹ مرکزی وزیرداخلہ کو سونپیں گے ۔فی الحال ریاست سے لے کر مرکز تک مشینری حالات کو بہتر بنانے میں لگی ہوئی ہے ۔ بات چیت کیلئے کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ۔ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک تشدد کاجاری رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ریاست میں نظم ونسق پر بھی سوالیہ نشان لگاہوا ہے اوراوراپوزیشن پارٹیاںبھی ریاستی ومرکزی حکومت پر سوالات اٹھارہی ہیں ۔
تشدد کا طول پکڑنا اس بات کی علامت ہے کہ رنجش اورکشیدگی بہت زیادہ ہے۔ اگر فوری طور پر حالات بہتر بھی ہوگئے تو جو آگ اندر ہی اندر سلگ رہی ہے ، جوتشدد کی صورت میں ظاہر ہوتی رہتی ہے ،وہ تشویش ناک ہے ۔ بنیادی مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا ہے اوروہ جس نوعیت کا ہے ، وہ شاید حل بھی نہ ہو۔اس لئے آگے بھی تشدد کے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔بہرحال قیام امن کیلئے سرکار کوشاں ہے ، اس لئے امید کی جاتی ہے کہ کچھ نہ کچھ نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔
[email protected]
منی پور کے حالات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS