پنکج چترویدی
جب ایک 16 سالہ لڑکی کا بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تو ملک، سماج، مذہب، حکومت سب کو یاد آیا کہ دہلی میں روہنی کے آگے کوئی شاہ آباد ڈیری کے نام سے ایک کالونی بھی ہے، صرف جینے کی آرزو لیے دور دراز کے علاقوں سے سیکڑوں کلومیٹر دور ہجرت کرکے آئے مزدوروں-محنت کش لوگوں کا اکثریتی جھگی علاقہ ہے یہ۔ یہاں رہنے والی آبادی کو نہ تو صاف پانی ملتا ہے، گندے نالے، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا شدید مسئلہ تو ہے ہی، ایک انسان ہونے کی تلاش یہاں کے اندھیروں میں کھو جاتی ہے۔ چونکہ ساکشی کا قتل ایک سمیر خان نے کیا تھا تو کسی کے لیے مذہبی سازش ہے تو کسی کے لیے پولیس کی ناکامی تو کسی کے لیے اور کچھ۔ ایک ممبر پارلیمنٹ پہنچ گئے، کئی ایم ایل اے، وزیر گئے، جتنا ہو سکا سرکاری فنڈ سے پیسے دے آئے۔
ایک وقت تو ایسا آیا کہ پیپلی لائیو کی طرح کچھ لوگوں نے مقتولہ کے گھر کو اندر سے بند کر دیا تاکہ کسی دوسری پارٹی کے لوگ ان سے نہ مل سکیں اور باہر میڈیا، رہنما اور سماجی کارکن ہنگامہ کرتے رہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ پالیسی ساز ایک بچی کے قتل کو ایک جرم اور پھانسی سے زیادہ نہیں دیکھ رہے، مرنے والی کی عمر 16 اور قاتل کی عمر بھی 20 ہے۔ دہلی کی ایک تہائی آبادی شاہ آباد ڈیری جیسی تکلیف دہ جھگیوں میں رہتی ہے، میرٹھ، آگرہ کی کل آبادی کا 45 فیصد ایسے ناقابل برداشت رہائشی علاقوں میں بستا ہے۔ اب ملک کا کوئی قصبہ، شہر، میٹرو پولیٹن نہیں بچا ہے جو ہجرت-مزدوری اور مجبوری کے مثلث کے ساتھ ایسی بستیوں میں نہیں آباد ہوو رہا ہے۔ اس قتل کیس کے بڑے پہلو پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہا- ایک تو اس طرح کی بستیوں میں پنپنے والے جرائم اور مایوسی اور ملک میں نوجوانوں کے لیے، خاص طور پر کم آمدنی والے گروہوں اور کمزور سماجی حیثیت کے نوجوانوں کے لیے کسی ٹھوس پروگرام کی عدم موجودگی۔
یہ اس علاقے کے تمام لوگوں کو معلوم ہے کہ مقتولہ تقریباً ایک ماہ سے اپنے گھر شاہ آباد ڈیری ای بلاک جا ہی نہیں رہی تھی۔ وہ روہنی سیکٹر-26 میں اپنی دوست نیتو کے ساتھ اس کے گھر پر رہ رہی تھی۔ نیتو کے دو بچے ہیں اور اس کا شوہر کسی سنگین جرم میں جیل میں ہے، ساکشی نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس کے والدین جو کہ مزدوری کرتے ہیں، پڑوسیوں کو کئی بار کہہ چکے تھے کہ ان کے لیے لڑکی ہے ہی نہیں۔ اور اب ان کی جھولی پیسوں سے بھری جا رہی ہے، پرچی نکال کر لوگوں کا مستقبل بتانے والے ایک بابا جی اسے بیٹی کہہ کر پکار رہے ہیں۔ کاش جو بھی ساکشی کو بیٹی کہہ رہے ہیں انہوں نے کبھی ساکشی کے محلے یا ایسے ملک کی دیگر بستیوں میں جاکر اپنی بیٹیوں کی کسمپرسی کی حالت دیکھی ہوتی۔ یہاں نہ اسکول ہے نہ ہی پارک، نہ ہی کلینک اور نہ ہی صاف بیت الخلا۔
تقریباً ایک لاکھ کی آبادی والی اس گنجان آبادی میں بچوں کے لاپتہ ہونے کے معاملے سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ چونکہ یہاں مزدوروں اور غریبوں کے بچے رہتے ہیں اس لیے پولیس ان کے لاپتہ ہونے پر کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ یہاں جرائم بھی عروج پر ہیں۔ آئے دن لوگوں سے چھینا جھپٹی ہوتی رہتی ہے۔ ہر جھگی علاقے کی طرح یہاں بھی منشیات کی لت کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔اگر کوئی پہلے اس طرح کے علاقوں میں نوجوانوں کی ذہنی حالت کے بارے میں سوچنے جاتا تو ساکشی جیسے بچے گھر سے بھاگنے کی کیوں سوچتے ہیں؟ اس کا جواب ملتا۔ پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 6 مئی کو نیتو نے میسج کیا، ’ساکشی یار کہاں ہے تو، بات نہیں کرے گی مجھ سے‘، اس کے بعد ساکشی جواب دیتی ہے، ’یار، ممی پاپا نے بند کر کے رکھا ہے گھر میں۔ فون بھی نہیں دیتے۔ میں کیا کروں، بھاگ جاؤں گی۔‘ قتل کے بعد سامنے آنے والی اس چیٹ سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ وہاں ساکشی جیسی نوعمر لڑکیاں کن مشکلات سے گزر رہی ہیں، نوعمر لڑکیوں میں جنسیت کے بارے میں کیسی کشش، غلط فہمی اور لاعلمی ہے۔ نوعمر لڑکیوں کو ہمدردی کرنے والا، ان کی پریشانیاں سننے والا چاہیے۔ بچپن سے جوانی کی دہلیز پار کررہے بچوں میں جسمانی اور جنسی تبدیلیاں آتی ہیں۔ محنت مزدوری کرنے والے خاندانوں کے پاس یہ سب سمجھنے کا نہ وقت ہے اور نہ ہی عقل۔ عمر کے اس دور میں ان کی ذہانت، احساسات، اخلاقیات میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ان کے سامنے شناخت کا ایک مسئلہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ سرپرستوں اور دوستوں سے ٹکراتے ہیں۔ ساکشی کی ساحل سے دوستی تھی، کسی جھبرو سے بھی تھی اور کسی پروین سے بھی دوستی ہو گئی تھی۔ حملہ آور کے لڑکی کو بے رحمانہ طریقے سے کئی بار چاقو گھونپنے اور پھر سر کو پتھر سے کچل دینے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے اس میں احساس کمتری تھی اور عزت نفس باقی نہیں رہ گیا تھا، جس کی وجہ سے مسترد کیے جانے کو وہ برداشت نہیں کرپایا۔
یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مشکل بھری زندگی جی رہے لوگوں میں ذات پات- مذہب کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے، ساحل کس فرقے سے ہے، یہ ساکشی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ دوسری جانب ساحل نے تفتیش کے دوران بتایا کہ اس کی والدہ بیمار رہتی ہیں۔ کسی نے اسے بتایا تھا کہ ہاتھ میں کلاوا باندھنے اور گلے میں ردراکش کی مالا پہننے سے اس کی ماں جلد صحت یاب ہو جائیں گی، اس لیے وہ ردراکش کی مالا پہنتا تھا اور کلاوا باندھتا تھا، ظاہر ہے کہ اس لڑکے کے لیے بھی فرقہ کوئی سنگین مسئلہ تھا ہی نہیں۔
2013 میں، ایک دہائی قبل، مختلف سنگین جرائم میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت کے پیش نظر سپریم کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ ہر پولیس اسٹیشن میں نابالغوں کے لیے ایک خصوصی افسر ہونا چاہیے۔ ملک میں شاید ہی اس پر کہیں عمل ہوا ہو۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی تشویش اپنی جگہ درست تھی، لیکن سوال تو یہ ہے کہ نوجوان یا جوان جرائم کی طرف نہ جائیں، اس کے لیے ہماری کیا کوئی ٹھوس پالیسی ہے؟ روزی روٹی کے لیے مجبوری میں شہروں میں آئے یہ نوجوان پھانسی پر چڑھنے کے راستے کیوں بنا لیتے ہیں۔ اصل میں کسی بھی پالیسی میں ان نوجوانوں کا کوئی خیال ہے ہی نہیں۔
مالی تنگی، سہولتوں کے فقدان اور نظر انداز کیے جانے کی گرفت میں پھنسی ہوئی ایک پوری مایوس نسل۔ گاؤں کی مٹی سے لاتعلق اور وہاں سے زبردستی اکھاڑ پھینکی گئی اور شہر کے سراب کو چھولینے کی آرزولیے نوجوان طاقت۔ ہندوستانی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی خوشبو ابھی کہیں باقی ہے تو وہ ہے دیہاتی نوجوان۔ درحقیقت ہنرمند افرادی قوت کی تخلیق کے لیے کم آمدنی والے طبقے کی بستیوں میں رہنے والے نوجوان واقعی ’خام مال‘ کی طرح ہیں، جس کا کبھی بھی صحیح اندازہ نہیں لگایا گیا۔ ضرورت ہے ایسی بستیوں میں باقاعدہ کاؤنسلنگ، نفسیاتی اور صحت سے متعلق مشاورت کی۔ نوجوانوں کی ذہنی صحت کے لیے مشغول رکھنے والی سرگرمیوں کی اور اس طاقت کومعاشرے اور قوم کی تعمیر کے لیے تبدیل کرنے والی سرگرمیوں، پالیسیوں اور رہنمائی کی۔ ساکشی کا قتل جرم تو ہے لیکن اس سے آگے یہ ملک کے لیے ایک بڑے سماجی مسئلے کی طرف اشارہ بھی ہے۔
[email protected]