عبدالماجد نظامی
بالاسور ٹرین حادثہ اس قدر بھیانک ثابت ہوا ہے کہ اس کو صدی کے بڑے حادثوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ تقریباً تین سو سے زائد بیش قیمتی زندگیاں چشم زدن میں لقمہ اجل بن گئیں اور ان کے ساتھ ہی ہزاروں ایسی آرزوئیں اور تمنائیں دم توڑ گئیں جنہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان لوگوں نے کبھی سپنے بنے تھے۔ جائے حادثہ پر پہنچ کر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے لکھا اور بتایا ہے کہ وہاں محبت کے خطوط اور شاعری کے اوراق بکھرے پائے گئے۔ ذرا ان جذبات کے پیچھے چھپے گہرے احساسات کو تصور میں لانے کی کوشش کیجیے کہ کتنی معصوم اور پاک تمناؤں کا خون ہوا ہے اور محبت کی کتنی نازک کلیاں قبل از وقت ہی مسل دی گئی ہیں۔ آخر اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان زخموں پر کون مرہم رکھ پائے گا جن کا درد زندہ رہ جانے والے یا مہلوکین کے پسماندگان کو اپنی آخری سانس تک سہنا پڑے گا؟ یہ کوئی معمولی حادثہ نہیں ہے جسے بس انسانی غلطی کا نام دے کر معاف کر دیا جائے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ذمہ داری طے کی جائے اور جن لوگوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے، انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں تاکہ ہندوستانیوں کی زندگی کو مزید ارزانی کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔ صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ ٹیکنیکل سپورٹ اسٹاف کو مورد الزام ٹھہرا کر اعلیٰ عہدیداران اور وزیر ریل اپنا پلو جھاڑ لیں۔ ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی فہرست بہت طویل ہے۔ سی اے جی کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں2017-2018 سے لے کر 2020-2021تک چار میں سے تین حادثے ٹرین کے پٹری سے اتر جانے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ کو دسمبر2022 میں پارلیمنٹ کے اندر پیش کیا گیا تھا اور یہ خاص طور پر ٹرینوں کے پٹریوں سے اتر جانے کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہونے والے حادثات کی روک تھام سے متعلق تھی۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر واقعات اس لیے ہوئے کیونکہ پٹریوں کے رکھ رکھاؤ اور اس کی بروقت مرمت میں کوتاہیاں ہوتی رہی ہیں۔ ٹرین کی پٹریوں کی تجدید کاری کے لیے جو فنڈ ریلوے کو دیا جاتا رہا ہے، اس میں گزشتہ کئی برسوں میں بھاری کمی آئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو فنڈ مہیا کیا جاتا ہے، اس کا استعمال بھی پورے طور پر نہیں کیا جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس کا بُرا اثر ریلوے کے تحفظ کے نظام پر پڑنا یقینی ہے جس کا ثبوت خود مذکورہ بالا رپورٹ میں موجود ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 217 ٹرین حادثے جو اس دوران ہوئے، ان میں سے 163حادثے ٹرینوں کے پٹریوں سے اتر جانے کی وجہ سے پیش آئے۔ اس کا مطلب مجموعی حادثوں کا75فیصد صرف اس ایک خاص وجہ سے ہوا۔ اس کے بعد دیگر نوعیت کے حادثوں کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرین میں آگ زنی کے20واقعات، کراسنگ پر کسی انسانی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے13حادثے، ٹکرانے کی وجہ سے11حادثے، انسانی نگرانی والی کراسنگ پر 8 واقعات جبکہ دوسرے غیر متعین اسباب کی وجہ سے2 حادثے رونما ہوئے۔ ریل حادثوں کی یہ وہ تفصیلات ہیں جن کا ذکر رپورٹ میں سنجیدہ حادثوں کی فہرست میں کیا گیا ہے۔ دوسری غیر سنجیدہ واقعات کی فہرست تو اس سے بھی زیادہ طویل ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ میں جس مدت کا جائزہ لیا گیا ہے، صرف اتنی ہی مدت میں کم و بیش1800ٹرین حادثوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں بھی ٹرین کا پٹریوں سے اترجانا غیرمعمولی حد تک حادثہ کا سبب بتایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 68فیصد ایسے واقعات پٹریوں سے ٹرین کے اتر جانے کی وجہ سے پیش آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریلوے کے الگ الگ ملازمین نے جو اپنی روداد سنائی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریلوے کے تقریباً ہر شعبہ میں ملازمین کی کمی ہے۔ اوڈیشہ میں جس کورومنڈل ایکسپریس کی ٹکر مال گاڑی سے ہوئی ہے، وہاں بھی سگنل کی غلطی کے علاوہ اس بات کا اشارہ ملا ہے کہ اس ٹرین کا ڈرائیور گزشتہ پندرہ گھنٹوں سے اپنی ڈیوٹی پر تعینات تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی غلطی ہے جس کا خمیازہ عام مسافروں کو اپنی جان کی قیمت ادا کرکے بھگتنا پڑا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریلوے کے وزیر نے اپنی ذمہ داری مطلوبہ ڈھنگ سے ادا نہیں کی اور نیچے کے اسٹاف کی تعیناتی اور ان کی خدمات کے اوقات کے تعین میں پروفیشنل نظام عمل کا دھیان نہیں رکھا گیا۔ جو اسامیاں ریلوے میں برسوں سے خالی پڑی ہیں، ان کو اگر بر وقت پُر کرنے کا اہتمام کیا جاتا تو شاید ایسے حادثے روکے جا سکتے تھے۔ آخر اس بے توجہی بلکہ ناکامی کا ذمہ دار کون مانا جائے گا؟ وزیر ریل کے لیے اتنا کافی نہیں ہے کہ وہ ٹرین حادثہ کے بعد پٹری پر بیٹھ کر کام کی نگرانی کریں اور ہاتھ میں مائک پکڑ کر ’’وندے ماترم‘‘ اور ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے لگائیں۔ یہ ان کی ذمہ داری کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسے نعروں سے مہلوکین کے ورثاء کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔ ایسے نعروں سے زخمیوں کے درد میں کمی آنے کے بجائے ان کا زخم مزید گہرا ہو جائے گا۔ حادثہ کی سنگینی کا تقاضہ یہ تھا کہ وزیر ریل اپنا استعفیٰ پیش کرتے اور اپنی کوتاہیوں کے لیے ذمہ داریاں قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے الگ ہوجاتے۔ لیکن ہمارے ملک میں ابھی ذمہ داریوں کے تئیں حساسیت کا ماحول قائم نہیں ہوا ہے اور اسی لیے کچھ بھی نہیں بدلتا ہے۔ نیتا جی نعروں کے شور میں اپنی ناکامیوں کو چھپا لے جاتے ہیں اور ان کی پارٹی کے حامیوں کی بڑی تعداد متاثرین کی کوئی خبر شیئر کرنے کے بجائے وزیر محترم کی خوبیوں کا گن گان کرنے لگ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا طرز عمل ریلوے ہی نہیں بلکہ ہر شعبۂ حیات کو صرف لامتناہی حادثات کے بھنور میں ڈال سکتا ہے۔ اس کو ہر قیمت پر بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]