ان دنوں جرائم اپنے نکتہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ مجرم ایسے منفرد طریقوں سے وارداتوں کو انجام دے رہے ہیں کہ پولیس اور عوام سب متعجب ہیں۔ ابھی تک سائبر کرائم پر لوگ حیرت زدہ رہ جاتے تھے کہ لوگوں کو پتہ نہیں چلتا تھا اور وہ فریب دہی و لوٹ کا شکار ہوجاتے تھے۔ لیکن اب جس طرح قتل کی وارداتوں کو انجام دیاجارہا ہے، اس سے پوری دنیا حیرت زدہ ہے۔ جیلوںمیں قیدیوں کی اموات، قیدی پر حملہ اور قتل، پولیس اسٹیشن میں یا پولیس حراست میں ملزم کی موت جیسے متعددواقعات ،وارداتیں ماضی و تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن ادھر جس طرح سے پولیس تحویل میں شہرت یافتہ ملزمان و مجرمین کو سرعام گولی مار کرقتل کیاگیا ہے وہ نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ وہ حکومت، انتظامیہ، نظم و نسق کے حوالے سے متعدد سوالات بھی پیداکرتا ہے۔ گزشتہ دنوں سابق ایم پی عتیق احمد اوراس کے بھائی سابق ایم ایل اے اشرف احمد کو پولیس تحویل میں اسپتال لے جاتے وقت اسپتال کے باہر سرعام گولیاں مار کر قتل کردیاگیا اور پولیس ہاتھ ملتی رہ گئی۔ اس سے آگے بڑھ کر آج ایک ملزم سنجیو مہیشوری عرف جیوا کو پولیس تحویل میں عدالت کے کمرے میں قانون و انصاف کے محافظین و متعلقین کی موجودگی میں قتل کردیاگیا۔ یہ سب کے لیے آنکھیں کھولنے والا ہے۔ ان دونوں قتل کی وارداتوں میں کئی باتیں یکساں طورپر مشترک ہیں، وہ یہ کہ دونوں وارداتوں میں قاتل ہی نہیں مقتول کا تعلق بھی کسی نہ کسی زاویہ سے سیاسی تھا۔ پریاگ راج (الٰہ آباد ) کے سابق ممبرپارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی سابق ایم ایل اے اشرف احمد نہ خود سیاسی تھے بلکہ ان پر بی ایس پی کے ایم ایل اے راجو پال کے قتل کی سازش رچنے کا الزام تھا۔ اسی طرح آج شہر ادب لکھنؤ کی عدالت میں جس سنجیو مہیشوری عرف جیوا کا قتل ہوا ہے، اس پر بی جے پی کے ایم ایل اے برہما دت دیویدی کے قتل کا الزام تھا۔ دونوں وارداتوںمیں ایک بات اور مشترک ہے کہ عتیق احمد نے بھی سپریم کورٹ میں عرضی دے کر اپنے قتل کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے حفاظت کا پختہ انتظام کرائے جانے کی درخواست کی تھی۔بتایاجارہا ہے مقتول سنجیو مہیشوری عرف جیوا کی اہلیہ پائل مہیشوری نے بھی چیف جسٹس آف انڈیا سے اپنے شوہر کی جان کو خطرہ بتاتے ہوئے حفاظت کی درخواست کی تھی۔ لیکن ان پر وقت رہتے کوئی پختہ عمل نہیں ہوسکا اور دونوں کا اندیشہ سچ ثابت ہوا۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ کہیں یہ کوئی سیاسی انتقام کی کارروائی تو نہیں ہے؟ یہ وارداتیں پولیس کی کارکردگی اور حکومت کے نظم و نسق پر سوال اٹھاتی ہیں۔ یہاںحکومت کو یا تویہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نظم ونسق پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ، یا یہ کہ پولیس سمیت تمام سرکاری ایجنسیاں اپنی کارکردگی میں ناکام رہیں یایہ کہ خود ان ایجنسیوں نے ان وارداتوں کو اپنے ’آقاؤں‘ کی منشاء پرانجام دلایا ہے یا یہ کہ جن مافیا، مجرمین کا پولیس انکاؤنٹر نہیں ہوسکا، انہیں پولیس تحویل میں قتل کرنے کا یہ کوئی نیا طریقہ ہے؟
ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ عوام کو عدالتوں سے دور رکھنے کی کوئی سنگین سازش تو نہیں ہے ، جس طرح سے عوام کو پہلے ہائی کورٹ سے باہر کردیاگیا۔اب ہائی کورٹ میں جن کے مقدمات چل رہے ہیں، ان کے پیروکار، فریقین بھی صرف عدالت (کورٹ دفتر)کی اجازت ملنے، پاس جاری ہونے کے بعد ہی کورٹ روم تک جاسکتے ہیں۔ اسی طرح حفاظت و احتیاط کے نام پر اب عام لوگوں کو ذیلی عدالتوں سے بھی باہر رکھنے کی کوئی سازش تو نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص حق و انصاف کے لیے کبھی بھی کسی بھی عدالت میں نہ جاسکے۔ سازش یا حکمت عملی کا کوئی پختہ ثبوت نہیں لیکن آنکھ بند کرکے بھی جو چیزیں نظر آئیں، ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا! حکومت کو احتیاطی اقدامات کرنے چاہئیں۔ جو اقدامات واردات، واقعات کے بعد اٹھائے جاتے ہیں انہیں پہلے بھی اٹھایاجاسکتا ہے۔ جہاںتک واردات کو انجام دینے والے شاطر مجرموں کا سوال ہے تو وہ اپنے راستے نکال ہی لیتے ہیں۔ان کے لیے کوئی پابندی معنی نہیں رکھتی۔ اشرف اور عتیق کو پولیس تحویل میں صحافی بن کر آئے مجرموں نے سرعام قتل کردیا۔ سنجیو مہیشوری کو عدالت میں جانا تھا تو وکیل کے لباس میں آکر مجرم نے عدالت کے کمرے میں واردات کو انجام دے دیا۔ یہ تو ملزمان کے قتل کیے جانے کی وارداتیں ہیں۔ یوں تو وزیراعظم وقت کو ان کے اپنے محافظ ہی قتل کردیتے ہیں، تو اس کا مقصد یہ قطعی نہیں ہے کہ کسی کو بھی قابل اعتبار نہ سمجھاجائے؟ بلکہ خفیہ ایجنسیوںا ور ان کے طریقہ کارکو، مجرموں کی سوچ اور انداز کی طرح تیز سے تیز تر بنانا ہوگا، دوسری بات یہ بھی ہے کہ مقدمہ کے تصفیہ کے عمل میں تیزی لائی جائے تا کہ انصاف کے منتظرین کو جلد انصاف و اطمینا ن حاصل ہوسکے۔
[email protected]
اب عدالت کا کمرہ بھی محفوظ نہیں !
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS