عمیر انس
اگر آپ ملت اسلامیہ کا عمومی رویہ دیکھیں تو آپ اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ ہمارے یہاں ادارے بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، وسائل جمع کرنے میں بھی ویسی پریشانی نہیں ہوتی، کروڑوں روپیہ کی مالیت سے عمارتیں بھی بن جاتی ہیں، کئی بار تو حکومتیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں کہ مسلمان اکیلے دم پر بغیر حکومتی امداد کے اتنے بڑے بڑے کام کیسے انجام دے لیتے ہیں، دنیا کی کسی قوم کے پاس کبھی بھی اتنے منظم انداز میں مدارس اور خانقاہیں قائم کرنے کی روایت نہیں رہی، خود ہندوؤں میں آشرم کھولنے کی روایت مسلمانوں سے متاثر ہوکر شروع ہوئی، لیکن اس بہترین ادارہ ساز فکر ہونے کے باوجود ملت اسلامیہ کے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں، بلکہ بعض مسائل تو پہلے سے زیادہ گہرے اور ناقابل حل مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں، تھوڑا غور کرکے معلوم ہوگا کہ اس قدر ملی سرگرمیوں اور خدمات میں ایسی کمیاں ہیں جن کو درست کرنے سے بہت سارے فائدے ہو سکتے ہیں۔
اول تو منظم اور مبنی بر تحقیق تفکر کا فقدان ہے،یعنی جو جس کی سمجھ میں آرہا ہے، کر رہا ہے، کس منہج پر غور و فکر درست اور قابل قبول ہے، اس پر زیادہ فکرمندی نہیں رہی ہے، کسی کو جذبات اور احساسات نے مجبور کردیا، لیکن شاید دار العلوم ندوۃ العلماء اور جماعت اسلامی کے قیام کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسے ادارے ہوں جن کو قائم کرنے سے پہلے معاشرے میں بڑے پیمانے پر مذاکرات اور مباحثے ہوئے ہوں، بیس کروڑ کی آبادی کے مسائل کو محض عمومی مباحثوں، خطاب عام اور صحافت سے درست کرنا نا ممکن ہے، بیس کروڑ عوام کے مسائل پر غور کرنے کا طریقہ ویسا ہونا چاہیے جیسے ایک حاکم اور منتظم کا ہوتا ہے، ایسے میں دوسرا سبب یہ ہوسکتا ہے اور شاید ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک انسان اور اس کی ذہنی صلاحیتیں، اس کی تخلیقی صلاحیت، اس کی منتظمانہ اور مدبرانہ صلاحیتیں کبھی بھی مرکزی فکر نہیں رہیں، جب تک وہ اپنے کسی معجزاتی، روحانی، کرشماتی اور حیران کن پہلوؤں سے بھیڑ کو متاثر کرنے والا نہ بن جائے، آپ ایک لاکھ کی دیہاتی آبادی کو اپنی تقریر کے جوش سے رات بھر کھڑا رکھ سکتے ہیں ۔
ملت اسلامیہ کی تدبیر میں کہیں نہ کہیں ایک بنیادی کمزوری ہے اور میرے نزدیک کمزوری یہ ہے کہ ہم معجزات کا وعدہ کرنے والوں کو کروڑوں روپیہ دے سکتے ہیں لیکن حقیقی دنیا میں نبرد آزما ہونے والوں کو کچھ نہیں، بڑی عمارتوں کو یا بڑے دکھاوے کو کام سمجھتے ہیں لیکن اس عمارت کو کون سنبھالے گا اور کون اس کو آگے لے جانے کی تدبیر کرنے کا اہل ہے، اس سلسلے میں ہم افراد پر اور ان کے دماغوں، ان کی صلاحیتوں پر، ان کی تخلیقیت پر انویسٹمنٹ کرنے کے بجائے صرف معجزے کے منتظر رہتے ہیں۔ آپ شمار کرنا شروع کریں کہ کون کون سے ادارے جو آج سے بیس سے پچاس سال پہلے شاندار سمجھے جاتے تھے، آج اپنی بقا کے لیے فکر مند ہیں اور اس زوال میں سبھی ملی تنظیمیں اور ادارے ایک جیسے ہیں، جماعت اسلامی آج کی تاریخ میں ایک بھی ایسا تعلیمی ادارہ پیش نہیں کرسکتی جس کو وہ اپنا مثالی ادارہ کہہ سکے، ندوہ اور دیوبند کے احباب اپنی کمزوریوں پر آج کل خوب خوب لکھ رہے ہیں، ملت کے قائم کردہ درجنوں انٹر کالج میں سے کون سے کالج کو آپ بیسٹ پرفارمنگ کہیں گے؟
ملت اسلامیہ کے مزاج ، کلچر اور افراد کے ذہن کو شکل دینے والے چند مناصب میں سے استاذہ، ائمہ، خطباء، صحافی حضرات، محققین، ہوتے ہیں۔کسی بھی ملی ادارے کے کالج میں پڑھانے والا استاذ سب سے مظلوم قوم ہے، مثلاً ایک امام صرف نماز نہیں پڑھاتا بلکہ وہ اپنے نمازیوں کو تحریک دیتا ہے، ان کے اخلاق اور کردار کو بھی بہتر بنانے میں توجہ دیتا ہے، محلے کے بچے اور جوان اس کو ایک اچھے انسان کی مثال کے طور پر دیکھتے ہیں، ملک میں لاکھوں مساجد ہیں، بہت بڑی، بہت چھوٹی اور اوسط رقبے والی، کروڑوں مسلمان روزانہ ان اماموں کو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، پوچھتے ہیں، جواب لیتے ہیں، کیا آپ کو نہیں لگتا آپ کے عوامی کلچر میں اتنا اہم اور سب سے زیادہ نظر آنے والا کردار سب سے مؤثر نہ ہو؟تو امام کا تقرر کیوں نہ بہت احتیاط سے کریں اور بڑی شرائط کے ساتھ کریں، آپ پچاس شرطیں رکھ دیجیے، لیکن ہر شرط کا اضافی اعزازیہ بھی ہو ، پچیس ہزار، رہائش اور اس کے بچوں کی تعلیم اور صحت کی گارنٹی دے دیجیے، اس کے بعد آپ دیکھیں جے این یو اور آئی آئی ٹی کے طلبا بھی عربی زبان سیکھ کر قرآن پاک یاد کرکے امام بننے کی خواہش کریں گے۔گفتگو کا موضوع یہ ہے کہ افراد پر انویسٹمنٹ کیا جائے، صلاحیتوں پر پیسہ لگایا جائے، قابلیت پر پیسہ خرچ کرنا پیسے کا زیادہ درست استعمال ہے، کیا کریں گے جب شاندار عمارتیں کھڑی ہوں گی اور ان کو چلانے والے سنبھالنے والے اہل افراد آپ کے پاس نہیں ہوں گے؟
ملی اداروں کی بدنظمی اور ناکامی سے آپ صرف اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس وقت ہمیں افراد کی صلاحیتوں کو نشوونما دینے میں وسائل صرف کرنے چاہئیں، اداروں کو مجبور کریں کہ وہ اپنے اساتذہ اور کارکنان کو بہترین تنخواہیں دیں، محققین پر تو ہماری ملت پیسہ خرچ کرنا بند کر چکی ہے، اب کہاں ملکہ بھوپال ہیں کوئی یا نظام حیدرآباد جو محققین کو ان کے شایان شان معاوضہ دے کر علمی کام کرائیں! سوچئے شبلی کی سیرت النبیؐ ممکن تھی کیا؟ اعظم گڑھ کا دار المصنّفین جو غالباً مسلمانوں کا ہندوستان میں پہلا منظم فکری ادارہ تھا، آج کسمپرسی کے عالم میں ہے، اسی طرح ایک طبقہ طلبا کا ہے، وہ طلبا جو مدارس میں ہیں یا جدید تعلیمی اداروں میں، مدارس اپنے طلبا کی صلاحیت، صحت، فکری صحت پر سب سے مہنگا عمل جو کرتے ہیں وہ حضرت، شیخ، کے خطابات ہیں، ایسا نہیں ہے کہ مدارس طلبا کے ارتقاء پر پیسہ خرچ نہیں کر سکتے لیکن اول تو طلبا کے قیام اور طعام کے علاوہ ان کے پاس کوئی بجٹ ہی نہیں ہوتا، کچھ نادی اور جمعیتیں ہوتی ہیں لیکن ان کے پاس انتہائی محدود وسائل ہوتے ہیں، آج کے زمانے میں محض تقریر اور تحریر ہی نہیں بلکہ تقریر کی دس الگ الگ اقسام اور تحریر کے درجنوں اصناف کی ٹریننگ دی جاتی ہے جو مدارس کے طلبا کو نہیں میسر ہے۔ میڈیا، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دنیا میں رابطے میں رہنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ طلبا خواہ کتنے بھی لائق ہوں لیکن مدارس کے ذمہ داران سے تقرب اور تملق ہی آخری وسیلہ ہوتا ہے امتیاز حاصل کرنے کا، طلبا کو صحت مند ماحول ملے، مقابلے کا موقع ملے، اظہار خیال کی صحیح تربیت ہو، اسپیشل اسکلز کی ٹریننگ ہو، دور جدید کے کمیونی کیشن کے طور طریقوں سے شناسائی کرائی جائے، ان کو اس دنیا میں کامیاب ہونے کا احساس دلایا جائے، پچیس بڑے عالمی سطح کے مدارس کے فارغین کا آڈٹ کر لیں، کہاں گئے ان کے طلبا؟ کیا منتظمین مدارس کو افسوس نہیں ہوتا؟
قصہ مختصر یہ ہے کہ کسی بھی قوم کا مستقبل محض اداروں سے اور ان کی بلند بالا عمارتوں سے ممکن نہیں ہے اس کیلئے ایسے عوام چاہئیں جن کے اندر بیداری اور ترقی کی شدید خواہش ہو، اس معاملے میں ہندو اور مسلمان افراد کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، جس طرح سے یوروپ کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں ایک زمانے میں پورے کے پورے عوام میں کچھ کرنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا، ہر شہر اور ہر محلے میں علوم اور تکنیک کا اشتیاق جاگ رہا تھا، لیکن اس کے مقابلے میں مسلم ملت میں یہ محض چند افراد میں اور چند علاقوں میں ہو رہا تھا، آج ویسے ہی ہندو عوام میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا ایک عوامی جنوں پایا جاتا ہے، غریب سے غریب والدین اپنے بچوں کو چھوٹے بڑے شہروں میں لے جاکر ان کے بہتر مستقبل کے لیے فکر مند ہیں، مختلف شہروں میں کوچنگ کے مراکز پر مبنی گویا کتنے شہر آباد ہوگئے ہیں، لیکن آپ کو یہ جنوں ابھی مسلمانوں میں نظر آنا باقی ہے۔
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]