سید محمد رابع حسنی ندوی کے اخلاق واوصاف: عبدالوکیل ندوی بارہ بنکوی

0

عبدالوکیل ندوی بارہ بنکوی
دن بہت خوبصورت تھا شام بھی بہت بابرکت تھی رات کتنی سہانی رہی ہوگی میرے لئے جب مجھے حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی مدبر ملت مصلح الامت پیرومرشد عارف بااللہ سے بیعت ہونے کا شرف ملا مہمان خانہ ندوۃ العلماء میں نماز عشاء پڑھی پھر حضرت سے ڈرتے ڈرتے درخواست کی حضرت نے فوراً ہی میری درخواست قبول فرمائی۔ حضرت کی زیارت وملاقات سلام ودعا سے اکثر فیض یاب ہوتا تھا کبھی مجلس میں کبھی مہمان خانہ میں جلسہ جلوس میں دورِ طالب علمی کے اسباق میں درس وتدریس میں لیکن میرے لئے یہ دن اور یہ شام اس لئے بابرکت تھی کہ ایک ایسی بات پر عہد وپیمان ہونے جارہا تھا کہ گناہ نہیں کریں گے شرک نہیں کریں گے توبہ استغفار ذکر واذکار سے تلاوت سے زبان ودل کو برابر تروتازہ رکھیں گے دل کو دماغ کو پاکیزہ خیالات سے مز کی مصفیٰ رکھیں گے بدگمانی حسد جلن کینہ بغض وعداوت سے اپنے کو دور رکھیں گے بدنگاہی سے بچیں گے غیبت چغلخوری سے اپنے آپ کو بچائیں گے اس مبارک عہدوپیمان کے لئے مولانا سید محمود حسن حسنی ندوی تقریباً دس سال سے زیادہ عرصہ سے میری توجہ مبدول کرارہے تھے لیکن یہ گنہگار بندہ اپنے کو اس لائق نہیں سمجھ رہا تھا۔
بگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں قدیریں
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی میرے اور میرے اساتذہ کے بھی استاذ اور مربی تھے پیرو مرشد بھی تھے اور ذمہ دار بھی عالیہ رابعہ شریعہ میں آپ سے ادب العربی پڑھی دارالعلوم کی وسیع عریض مسجد میں آپ کا درس ہوتا تھا عالیہ درجات کے تمام طلبہ آپ کے درس میں برکت واعزاز کے لئے شریک ہوتے آپ کا درس دینے کا انداز ایسا والہانہ ہوا کرتا تھا جودل ودماغ میں اترجاتا کتاب کو صاحب کتاب سے پڑھنے کا لطف ہی نرالا ہوتا ہے۔

مجھے اس بات پر فخر ہے کہ آپ سے فضیلت دعوہ وصحافت میں بطور اعزاز شرف تلمذ حاصل کیا کئی مرتبہ حضرت کے ساتھ جلسہ میں جانے کا شرف ملا اور شعبہ اصلاح ومعاشرہ دعوت وارشادسے شائع ہونے والے رسالہ وغیرہ حضرت کے مشورے پر تقسیم کیے گئے معروف ومشہور کتاب ’جزیرۃ العرب ‘اور’حج اورمقامات حج ‘واقع ایسی کتابیں ہیں جس کو ہر اہل علم دانش کو جو عرب یا خلیجی ملک کی سیاحی اور حج عمرہ کا ذوق وشوق رکھتے ہوں ضرور مطالعہ کریں بہت فائدہ ہوگا۔مولانا میرے پیرومرشد بھی تھے مولانا کو میں نے بہت قریب سے دیکھا سنا اور استفادہ کیا آپ زہدو تقویٰ شرافت نجابت ورعایت کے اعلیٰ معیار پر تھے اخلاق و اوصاف اور مہمان نوازی آپ کی پہچان تھی علم وعمل صالح کردار آپ کے خاندانی ورثہ کا جیتا جاگتا ثبوت تھی آپ مفکر اسلام کے تربیت یافتہ اور رشتہ مں بھانجے تھے۔
آپ بحیثیت مہتمم دارالعلوم ناظم ندوۃ العلماء ادارہ کو بلندی پر لے جانے کے لئے کوشاں رہتے اکثر اپنی مجلسوں میں اساتذہ اسٹاف سے تعلیمی جائزہ لیا کرتے تھے اور طلبہ اساتذہ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنے قیمتی مشوروں اورنصیحتوں سے نوازتے تھے۔ آپ دارالعلوم کے تعلق سے اِدھر کافی فکرمند رہا کرتے تھے کہ ادارہ کو کسی طرح کی سازش سے دور رکھا جائے۔آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے صدر اور بہت سے ملی دینی اداروں کے سرپرست تھے۔آپ کا سرمایہ افتخار ملت کو انتشار سے بچانا تھا۔میری اہلیہ ادھر دو تین سال سے بیمار تھیں آپ سے دعا کے لئے درخواست کی جب بھی جاتا آپ اہلیہ کے بارے میںپوچھتے اور خصوصی طور سے اکیلے میں بلا کر کچھ نہ کچھ تعاون کرتے جو میں تحفہ سمجھ کرلے لیتا۔شعبہ حفظ کے بچوں کی نگرانی ملی تو حفظ سے فارغین بچوں کا مہمان خانہ میں ایک سادہ تقریب میں طلبہ حفظ کی دستاربندی ہوئی اس دن آپ کی طبیعت بہت ہی ناساز تھی مسجد میں نہیں آسکے جب افاقہ ہوا تو مہمان خانہ ہی میں سب کوبلالیا۔مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ کی خواہش تھی کہ اس طرح کے پروگرام کبھی کبھار ہونے چاہئے اس سے بچوں میںحوصلہ بڑھتا ہے۔اس وقت حضرت نے اور مہتمم صاحب نے بہت دعائیں دی بہت خوش ہوئے کیونکہ ندوۃ العلماء میں اس طرح کی تقریب عام طور سے مدتوں سے نہیں ہوئی تھی اور حفظ کے بچے آج بھی اس پروگرام کو یاد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر ایک کو قرآن حفظ کی سعادت نصیب فرمائے۔

ابھی ۲۰۲۳ء؁ مارچ میں بمبئی کے سفر پر جانے سے قبل آپ سے مصافحہ ہوا دعا کہ درخواست کی کیا معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی وہ جگہ جہاں آپ تشریف رکھتے تھے ہر وقت نگاہوں میں بسی تھی سونی ہو جائے گی اور ہم اپنے پیرو مرشد سے محروم ہو جائیں گے،نگاہ پڑی دل دھک سے ہوگیا اور پھر دیکھا نہ گیا۔خیر اللہ تعالیٰ جومسب الاسباب ہے اور اپنی زمین کو اللہ کے نیک بندوں سے کبھی خالی نہیں رکھتا ندوۃ العلماء کو ایک ایسے مربی محسن ولی کامل شخص کی ضرورت تھی جو اسی خانوادے کے چشم وچراغ ہیںمل گئے جن کے آنے سے بہارواپس آگئی مرجھائی کلیاں کھل گئیں اور چمن وعلم وادب پھر لہلانے لگا میری مراد مربی ومشفق مولانا سید بلال عبدالحئی حسنی ندوی اور مولانا سید جعفر مسعود حسنی دامت فیوضہم سے ہے اللہ تعالیٰ حضرت مہتمم مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی اور دیگر سینئر اساتذہ ذمہ داران کا سایہ عاطفت تادیر قائم رکھے، ممبئی کے اسماعیل بھولا ندوی جو ایک اچھے تاجر ہیں اورمولانا سید محمدرابع حسنی ندوی ؒ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ پانچ سال قبل اُن کو مجلس شوریٰ کا رکن بنایاگیاتھا۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ذمہ دارحضرات ان سے جدید تکنیکی کام لے رہے ہیں۔ اعتدال وتواضع کے ساتھ جد ت کاجوکام ہوسکتاہے وہ برابر کررہے ہیں۔ ندوۃ العلماء کی فکر کے مطابق عوام الناس کا مدارس اوراہل مدارس سے جو دینی ،روحانی عقیدت وتعلق ہے اُس کو ٹھیس نہ لگے۔ جدید نافع ،قدیم صالح کے مطابق طلباء اوراساتذہ کی جوضرورت ہے اس پر عمل ہورہاہے۔ اور نوجوان اساتذہ اسٹاف ذمہ داران کو اخلاص وللہیت کے ساتھ دارالعلوم کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کرے اور حضرت والا کو آخرت میں ملنے والے جو بھی انعام وکرام ہیں ان سب سے نوازے ہم متعلقین معاوین کو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS