ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
اس برس دنیا بھر میں بکھرے ہوئے فلسطینی اس تاریخی ہولناکی اور بربریت کو یاد کر رہے ہیں جس کو نکبہ کہا جاتا ہے۔ وہ دنیا کی قوموں کے ضمیر پر دستک دے رہے ہیں تاکہ ان کی انسانیت بیدار ہو اور صہیونیت نے گزشتہ 75 برسوں سے ان پر مظالم و وحشت ناکی کا جو سلسلہ دراز کر رکھا ہے اس کے خاتمہ کے لئے وہ اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ ’نکبہ‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے تباہی۔ انگریزی زبان میں اس کو Catastrophe کہتے ہیں، لیکن یہ الفاظ فلسطینیوں پر ڈھائے گئے مظالم کی تصویر کشی کبھی نہیں کر سکتے کیونکہ ان میں ہولناکیوں کے ان پہلوؤں کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں ہے جن کا شکار لاکھوں معصوم لوگ ہوئے تھے اور زندہ بچ جانے والوں کے لئے اپنے گھر لوٹ پانا آج تک مقدر نہیں ہو سکا ہے۔ صہیونیت کے ان مظالم کو سمجھنے کے لئے بعض تفصیلات کو پیش کیا جا سکتا ہے جو اعداد و شمار کی شکل میں موجود ہیں۔ البتہ نکبہ کوئی ایسا تاریخی واقعہ نہیں تھا جو ایک دن، ایک ہفتہ یا ایک مہینہ تک جاری رہا اور پھر ختم ہوگیا اور معمول کی زندگی بحال ہوگئی۔ اس کی ہولناکیاں اور صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی تباہ کاریاں مسلسل دو برس تک جاری رہیں۔ نکبہ کا آغاز 1947 کے نصف میں ہوا تھا اور 1949 تک لگاتار چلتا رہا اور یہ پوری مدت خوف و دہشت، ہولناکی و تباہ کاری اور صہیونی ظلم و بربریت سے پْر رہا۔ اس کے نتیجہ میں ایک اچھا خاصا ترقی کی راہ پر گامزن ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، فلسطینی قوم بکھراؤ کا شکار ہوگئی اور اسے جلاوطنی کی زندگی پر مجبور ہونا پڑا، خاندان اور اعزہ و اقارب ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور ہزاروں تمناؤں کا گلا گھونٹ دیا گیا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ واقعہ فلسطینیوں کے لئے ایک ایسا ڈراؤنا خواب بن گیا جو آج بھی ان کے سینے پر ایک بوجھ بن کر پڑا ہوا ہے اور مرور ایام کے باوجود ختم ہونے کے بجائے ان کے سینہ و دل کو مزید بوجھل بنائے جا رہا ہے۔ اس واقعہ پر قلم اٹھانے والے مورخین جن میں بعض حقیقت پسند اسرائیلی مؤرخین بھی شامل ہیں ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں تھا جو یوں ہی حالات کے تسلسل اور اچانک صورتحال کے بے قابو ہو جانے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوگیا تھا بلکہ یہ صہیونی تحریک کی ایک منظم سازش کا نتیجہ تھا۔ اس کا مکمل پلان صہیونی تنظیم کے اعلیٰ قائدین نے تیار کیا تھا اور اس کو نافذ کرنے کے لئے تمام تر غیر انسانی وسائل کا استعمال روا رکھا گیا تھا تاکہ ایک صہیونی اسٹیٹ کے قیام کے لئے زمین تیار کی جائے اور وقت آنے پر اسرائیل نامی اسٹیٹ کے قیام کا اعلان کیا جا سکے۔ اس غرض سے جو تباہ کاریاں فلسطین اور اہل فلسطین کے حق میں مچائی گئی تھیں ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 530 سے زائد فلسطینی گاؤں اور بستیوں کو تباہ کر دیا گیا تھا، 700 سے زیادہ فلسطینی گاؤں اور شہروں پر صہیونیوں نے قبضہ کر لیاتھا۔ فلسطین کی نصف آبادی یعنی 7 لاکھ 50 ہزار کو بے گھر کیا گیا اور انہیں ترک وطن پر مجبور کر دیا گیا۔ ہر قسم کی وحشت و بربریت اور منظم دہشت گردی کو روا رکھا گیا۔ صہیونیوں نے معصوموں کو قتل و خون میں تڑپایا، حاملہ خواتین کے شکم کو پھاڑ کر ان بچوں تک کو تہہ تیغ کیا جنہوں نے ابھی دنیا میں قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ فلسطینیوں کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا، کھیت کھلیان جلادیئے گئے اور پانی کے کنوؤں کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ گویا صہیونیوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ فلسطینیوں کے سامنے زندگی گزارنے کے تمام راستے مسدود کر دیئے جائیں اور خوف کا ایسا ماحول قائم کر دیا جائے کہ زندہ بچ جانے والے بھی اپنی ویران بستیوں کا رْخ کرنے کی ہمت نہ جٹا سکیں۔ یہودیوں نے طاقت اور قوت کے زور پر 1948 میں تاریخی فلسطین کی 78 فیصد زمینوں پر اپنا قبضہ جما لیا اور اسی حصہ پر اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا جس کا سلسلہ 1967 کی جنگ تک قائم رہا۔ 1967 کی جنگ میں مزید زمینوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ 67 سے قبل کا اسرائیل صرف تاریخی فلسطینی شہروں تک محدود تھا جن میں حیفا، یافا، بئر سبع، اسدود، رملہ، ناصرہ، اللد اور مجدل وغیرہ شامل ہیں۔ قیام اسرائیل کے بعد جو نئے شہر آباد ہوئے ہیں وہ یا تو انہی تاریخی قدیم شہروں کے کناروں پر قائم ہوئے ہیں یا پھر قدیم شہروں کی ہی توسیع کا درجہ رکھتی ہیں جیسا کہ تل ابیب اور نتانیا وغیرہ کا حال ہے۔ آج بھی صہیونی آبادی ساحلی یا درمیانی حصوں تک محدود ہے جو اسرائیلی قبضہ والی فلسطینی اراضی کا محض 20 فیصد ہی ہے۔ باقی مقبوضہ فلسطینی زمینیں جن میں النقب کا صحراء یا الجلیل کے پہاڑی علاقے شامل ہیں اور فلسطین کا شمالی حصہ کہلاتا ہے وہاں یہودیوں اور صہیونیوں کا وجود برائے نام اور ان کی نقل و حرکت بہت معمولی ہے۔ اسی لئے موجودہ تشدد پسند اسرائیلی حکومت نے اسٹراٹیجک پلان تیار کیا ہے تاکہ النقب اور الجلیل وغیرہ علاقوں میں یہودی بستیاں قائم کی جائیں اور وہاں صہیونیوں کو آباد کیا جائے۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسرائیلیوں کا یہ پروپیگنڈہ تاریخی حقائق سے کس قدر متضاد نظر آتا ہے اور ان کا یہ دعویٰ کس طرح کھوکھلا ثابت ہوجاتا ہے کہ اسرائیل کے قیام سے قبل فلسطین ایک غیر آباد علاقہ تھا جہاں زندگی کے وسائل ندارد تھے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اس خطہ کو آباد کیا ہے۔ یہ صہیونی پروپیگنڈہ اس قدر منظم ڈھنگ سے اور مسلسل پوری دنیا میں چلایا گیا ہے کہ یوروپین کمیشن کی سربراہ اورزولا وون دیر لاین جیسی شخصیات بھی اس جھانسہ میں آگئی ہیں جیسا کہ یوم اسرائیل کے موقع پر کی گئی ان کی تقریر سے پتہ چلتا ہے۔ حالانکہ اورزولا کا تعلق جرمنی سے ہے جہاں کبھی تاریخ میں انسانیت کے خلاف سب سے بڑے مظالم ڈھائے گئے تھے لہذا یہ امید کی جا سکتی تھی کہ ان میں فلسطینیوں کے تئیں تھوڑی حساسیت پائی جائے گی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اپنا احساس جرم انہیں مظلوم کے بجائے ظالموں کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور کر رہا تھا۔ صہیونیوں کا مذکورہ بالا پروپیگنڈہ اس قدر اس لئے کامیاب ہوگیا ہے کیونکہ انہوں دنیا بھر میں لابی کرنے کے لئے بڑی بڑی تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں جو بے تحاشہ دولت اسرائیلی موقف کے پرچار کے لئے خرچ کرتی ہیں۔ اگر صرف دو مغربی ممالک یعنی برطانیہ اور امریکہ کی مثال دی جائے تو قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس قدر منظم انداز میں اثر انداز ہونے والی شخصیات اور تنظیموں کو خریدتی ہیں۔ AJP Action ایک تنظیم ہے جو امریکہ میں فلسطینی حقوق کے دفاع میں کام کرتی ہے۔ اس نے امریکہ میں اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تشدد پسند اور رائٹ ونگ صہیونی تنظیموں کے مالی اثر و رسوخ کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق دس بڑی صہیونی تنظیموں کی مجموعی مالیت 500 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ صرف 2022 میں امریکی کانگریس کے اندر اسرائیل کے تئیں غیر مشروط حمایت حاصل کرنے کیلئے ان تنظیموں نے 70 ملین ڈالر خرچ کئے تھے۔ ان صہیونی تنظیموں کا ہی اثر ہے کہ امریکہ کے قانون ساز اداروں اور کانگریس میں اسرائیل کی حمایت میں قوانین پاس ہوتے ہوتے رہتے ہیں اور ان کا دفاع کیا جاتا ہے۔ امریکی عوام نے بھی ہمیشہ فلسطین کے مقابلہ اسرائیل کی حمایت کی ہے کیونکہ امریکی میڈیا کی بدولت انہوں نے بھی اسی صہیونی پروپیگنڈہ کو قبول کرلیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے قیام سے قبل فلسطین ایک بنجر اور خالی زمین کا ٹکڑا تھا جسے یہودیوں نے آباد کیا اور اب عرب ان کے خلاف دہشت گردی پر اتر آئے ہیں۔ اس چو طرفہ امریکی حمایت کے نتیجہ میں اسرائیل کو مادی طور پر بھی امریکہ سے بہت فائدہ پہنچا ہے اور اپنے قیام سے اب تک اس کو 158 بلین امریکی ڈالر کا تعاون حاصل ہوچکا ہے جو دنیا میں کسی بھی ملک کو ملنے والی امریکی مادی حمایت کے مقابلہ سب سے زیادہ ہے۔ یہی حال برطانیہ میں یہودی و صہیونی لابیوں کا ہے۔ Conservatives Friends Israel (CFI) نامی
ایک صہیونی تنظیم ہے جس کا قیام 1974 میں عمل میں آیا تھا۔یہ تنظیم برطانوی پارلیمنٹ میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کیلئے کام کرتی ہے۔ یہ برطانوی ارکان پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ان کے بیرون ملک سفر کے سارے اخراجات تک برداشت کرتی ہے۔ 2014 میں CFI نے خود کہا تھا کہ کنزرویٹیو پارٹی کے 80 فیصد ایم پی اس تنظیم کے ممبر ہیں۔ ان تفصیلات نے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا اثر و رسوخ کتنا زیادہ ہے اور فلسطین کی تاریخ کو ختم کرنے میں کس قدر منظم طور پر عمل کرتی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ نکبہ کے 75 سال گزرنے پر پہلی بار اقوام متحدہ، امریکی کانگریس اور برطانوی پارلیمنٹ ہر جگہ اس دن کو یاد کیا گیا اور اسرائیلی پروپیگنڈوں کی پول کھلنے لگی ہے۔ BDS جیسی تنظیموں نے بڑا کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں رشیدہ طلیب اور برطانیہ میں سعیدہ وارثی جیسی سیاسی شخصیات نے فلسطینی مسائل کو اجاگر کرنے اور مغربی عوام کو بیدار کرنے میں اہم کردار نبھائے ہیں لیکن ابھی بھی طویل سفر درکار ہے تاکہ فلسطین کے تئیں مغرب کی بے حسی کا خاتمہ ہو سکے اور گزشتہ 17 برسوں سے سخت اسرائیلی حصار کے تحت غزہ کے محض 365 مربع کیلو میٹر میں بسنے والے 23 لاکھ فلسطینیوں کی آزمائشوں کا خاتمہ ہو اور 1948 کے نکبہ میں بے گھر کئے جانے والے فلسطینیوں کی واپسی کا راستہ صاف ہو سکے۔ جب تک فلسطین کا مسئلہ فلسطینیوں کے مطابق حل نہیں ہوتا مغربی تہذیب کا دامن بھی مظالم کی سیاہ تاریخ کے دھبوں سے کبھی پاک نہیں ہوسکتا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں