فیروز بخت احمد
دہلی نہ صرف عظیم جمہوری ہندوستان کی دارالحکومت ہے بلکہ وہ ہندوستان کا دل بھی ہے۔ تاریخ ہندکے تقریباًتمام ادوارمیںاِسے مرکزیت حاصل رہی نتیجتاًیہاںجوثقافت فروغ پائی وہ عرصۂ دراز سے مرجع خلائق ہے۔
اِس میںکسی شبہ کی گنجائش نہیںکہ یہ شہراپنی تہذیبی وراثت،ثقافتی رنگارنگی اورتاریخی کردارکے نقطئہ نظرسے ہنداصغرہے۔دہلی محض ایک شہرہی نہیںبلکہ صدیوںسے ہندی تمدن کا مرکز رہی ہے۔اِس شہردہلی کے مقبرے،قلعے وبلندو بالا مینارے اُس کی عظمت رفتہ کے مظہرہی نہیںبلکہ ہرباشندۂ دہلی اُس کی زندہ جاوید مثال ہے۔اِس شہرکی قدامت کااندازہ تواِسی عنصرسے لگایاجاسکتاہے کہ اوبرائے ہوٹل کی بنیادوں سے نکلی مٹی نے ایک کیمیائی تجربہ کے ذریعہ اِس حقیقت کا اِنکشاف کیا کہ دلی ہمالیہ سے بھی قدیم ہے۔
حقیقت تویہ ہے کہ شاہجہاںآبادی دہلی ہندوستان میںایک حسین ترین دُلھن کی حیثیت رکھتی ہے۔اِس شہرکی کشش اورجاذبیت کاحال یہ ہے کہ جو یہاںآیا،بس یہیں کاہورہا۔
معروف مورخ مہیش وردیال نے دہلی کی تمدنی زِندگی سے متاثرہوکراپنے تاثرات کااِظہاراِن لفظوں میںکیا،’’ دل لے لیتی ہے ہرکسی کا،جبھی تواِس کا نام ’’دِل لی‘‘ ہے!اِس کے حسن کے جلوئوں،اِس کی اِمارت اورشان وشوکت واِس کی تہذیب وتمدن کی روشنی چہاردانگ عالم میںپھیلی ہے۔ہزاروںسال سے نہ صرف اپنے ملک کے باشندے بلکہ غیرممالک کے لوگ بھی اِس کے دِل دادہ اورشیدائی رہے ہیں۔ اِنقلابات آتے رہے لیکن دِلّی مِٹ مِٹ کراُبھرتی رہی اورہرباراِس کے نقش ونگارمیںایک نیااورانوکھا نکھار پیداہوا۔اِس اعتبارسے دلی ’’شہرجادواں‘‘کہلائی۔
شاہجہاںآبادایک شہرہی نہیں،بلکہ ایک تہذیبی رِوایت ہے۔ اصفہان، غرناطہ، سمرقند، بخارا، استنبول، بغداد، کابل اورقاہرہ کی طرح شاہجہاںآبادکی عظمت پارینہ سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ترکوںکے زمانۂ حکومت میںاِس کے محلوں میں علما، فقہا اور صاحب کمالوںنے چہاردانگ عالم سے یہاںآکرسکونت اختیارکی۔ مغلوںکی حکومت میں نئے سرے سے بابرنے اِسے بسایا۔‘‘
(ماخوزازعالم میںاِنتخابِ دِلّی)
راقم کو اپنے اسلاف کی دِلّی بیحدعزیزہے۔ افرادِخاندان یعنی مولاناآزاد، مولاناخیرالدین،شیخ محمدہادی،شیخ محمدافضل،شیخ محمدحسن وشیخ جمال الدین بہلول دہلوی صدیوں سے دہلی کے نشیب وفرازسے نبردآزماہوتے رہے۔
دہلی سے متعلق سمعی وبصری تجربات نیز دانشوران واُدباکی تحریروںنے دل ودماغ کوفرحت افزاحقائق سے آشناکیا۔ دہلی کی رواداری،قومی یکجہتی اوراُنسیت کے عناصرتوہرذی شعورکے رگ وپہ میں سرایت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیںتوراقم مذکورہ عناصرکا کیوںکرقدردان نہ ہوتا۔
عاجزکی وِلادت بلی ماران ،گلی قاسم جان کے محلہ احاطہ کالے صاحب میںہوئی۔محلہ کے تاریخی اوراق اُس کے جاںبازوںکے خونِ جگرکے غماز ہیں۔بازارِبلی ماران ہندمیںمعاشرتی معیار کا علمبردار صدیوںصدیوںسے رہاہے۔علاقہ مذکورہ اِس قدر مردم خیزہے کہ ایسے ایسے سپوتوںکوجنم دیا جنھوں نے ہند کی تقدیربدل کررکھ دیا۔حالات سے نبردآزمائی کی صورت میںکنارہ کش ہونے کے بجائے دیوانہ وار مقابلہ کرتے کرتے جام شہادت نوش کیا۔ ایسے ہی افرادکی تاریخ سنہری اورق میںلکھی جاتی ہے۔
علاقہ بلی ماران کی وجہ تسمیہ بھی خالی ازدِلچسپی نہیں۔وجہ تسمیہ سے متعلق دوحکایتیں بیان کی جاتی ہیں۔ اوّل تویہ کہ مغلوںکے بعد انگریز دہلی پرغاصب ہوئے۔اُن کی سرکار میںایک اسسٹنٹ ریزنڈنٹ کمشنر مسٹربِلی موریا ہواکرتے تھے۔علاقہ بلی ماران سے اُنھیںذ ہنی لگائو تھا۔اِتفاق سے اُن کے دفتر کا جائے وقوع بھی علاقہ ہی تھا۔ پروفیسرریاض عمرکے خیال میں،اِنھی بلی موریاکانام بگڑکربلی ماران ہو گیا۔
دوسری حکایت یوںکہ’’نہربہشت‘‘ یا’’فیض نہر‘‘کے نام سے ایک نہرچاندنی چوک کے وسط میں بہاکرتی تھی۔ نہرمذکورہ سرمورکی پہاڑیوںسے ہوتی ہوئی جمنااورلال قلعہ سے ہوکر نجف گڑھ تک جاتی تھی۔چاندنی چوک میں بادبان بھی ہواکرتے تھے۔ جس پتوارسے کشتی چلاتے تھے، اُسے بلی کہاجاتا تھا۔ چوںکہ یہ لوگ زیادہ ترعلاقہ بلی ماران میں رہاکرتے تھے لہٰذا، محلہ کوبلی ماروںکامحلہ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔اب یہ لوگوںپرمنحصرہے کہ کوئی اِس خطہ کو بلی ماران کہتا ہے، کوئی بِلی مارو توکوئی بلی ماراںکہتاہے۔
باشندگانِ خطہ بلی ماران کے اوصافِ حبیبہ میں خوش خلقی،متانت ومستقل مزاجی اورخودداری نیز اِنکساری کے عناصر نمایاں تھے۔ اُنھیں درویشانہ زندگی عزیزتھی۔دُنیاسے زیادہ اُنھیںعقبی کی فکردامن گیر ہوتی تھی۔اُن کی نظروںمیںمعاشی پسماندگی وبلندی معیارِسرخ روئی نہ تھا۔ہمیشہ سے اُنھوںنے مادّی خوشحالی کونظرحقارت سے دیکھاالبتہ صالح اورپاکیزہ ذریعہ معاش لائق اِعتنااورباعث شرف تصورکیے جاتے تھے۔
مستقل مزاجی اورنیک نیتی دوایسے عناصر ہیں جن کی بدولت اِنسان ناداری توکیادُنیاکے تمام تر اِنسانی مسائل سے مبرا ہوسکتا ہے۔ خطہ کے افرادمذکورہ اوصاف سے متصف تھے لہٰذا، پروردِگار عالم کی رحمتوںکے سایے اُن کے سروںپرتھے۔خطہ کی نازُک مزاجی اوربے نیازی ضرب المثل کی صورت اختیار کر گئی تھی۔علاقہ کی خوداری کااندازہ تواِسی سے لگایا جاسکتاہے کہ افرادِعلاقہ ناک پرمکھی نہ بیٹھنے دیتے تھے۔ فنی حسن ایسی کہ یگانۂ روزگار تھے۔اِنکساری ایسی کہ قارون کاخزانہ بھی ایمانی قوت میںجنبش پیدانہ کرسکتا تھا۔نوکری تو بجائے خودعمل ناپسندیدہ تصور کیا جاتاتھاچہ جائے کہ آقاکی ناک وبھنو دیکھتے۔ فنی دسترس اوّلین ترجیحات نیز معاش کابہترین وپسندیدہ ذریعہ تصورکیاجاتاتھا۔
علاقہ کی شہرت دراصل وہاںکی صنعتی کاریگری مثلاً زردوزی، چکن سازی،رفوگری،کامدانی، تارکشی، رنگ ریزی، سلمہ وگوٹہ سازی، ورق سازی، سنگتراشی، جوتاسازی،خطاطی وغیرہ چہاردانگ عالم میں عدیم المثال کی حیثیت رکھتے تھے۔
مشاغل بلی ماران میںپتنگ بازی، کبوتر بازی، بٹیربازی،مرغ بازی،پٹے بازی،مجمع بازی وغیرہ۔ پسندیدۂ عام وخاص تھے۔
دورِحاضرنے جہاںدیرینہ تہذیب کومسخ کرکے رکھ دیا وہیں علاقوںکے ناموںکوبھی حالات کی نظرلگ گئی۔بلی ماران کی یہ توخوش قسمتی ہی تصور کیاجائے کہ آج بھی اُسی نام سے باقی ہے ورنہ پرانی دہلی کے بعض محلے اپنی تہذیب کے ساتھ ہی درگورکردئیے گئے۔اب اُن کا تذکرہ محض کتب قدیمہ میںہی مل سکتاہے۔ایساہی ایک محلہ ’’محلہ سہاگ پورہ‘‘ہواکرتاتھا۔محلہ میںسلاطین کی بیوائیں اور خواصیں رہا کرتی تھیں۔’’محلہ کھکھیڑیان‘‘جس میں مرزاعبدالقادِردہلوی رہا کرتے تھے،کالی پہاڑی سے متصل تھا۔
بلی ماران نے اپنی دیرینہ خصوصیات کاتحفظ ہی نہیںاُس کے فروغ کی ہرممکنہ کاوِشیںبھی کی ہیں۔ نتیجتاًآج بھی اُس کے آثاربخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔
محلہ میںبہت سے امیراپنی خصوصیاتِ امارت، پیادہ وسوارفوج کے ساتھ رہاکرتے تھے۔ خاندانِ شاہی کے ایسے سینکڑوںافرادسکونت پذیرتھے جن کی اپنی جاگیریںووظیفے تھے۔ستم ظریفی تویہ کہ شایدہی کوئی نباض ومستقل مزاج رہاہو۔ایک دوسرے کوزیرکرنے کاجذبہ بہت عام تھا لہٰذا، ہزاروں صروپیے آبِ دریاکی طرح بہادئیے جاتے۔حدتویہ کہ کم وبیش نوے فیصدسلاطین اوراہل بلی ماران صاحبانِ تخلص تھے۔شاعری کا ایساچرچاکہ بیشترصاحب دیوان بھی تھے۔بہانہ ہاتھ لگاکہ مشاعرہ کا اِعلان ہوا۔بلی ماران کے ماہانہ مشاعروںکی بات ہی نرالی تھی۔ مرزا غالب، میرتقی میر،محمدرفیع سوداؔ،خواجہ میردرد، میرسوز،قدرت اللہ قاسم، قائم چاندپوری، اِنعام اللہ خان یقین اورنہ جانے کتنے باکمال شعرا دادودہش کے حق دارقرار پاتے۔ مبالغہ کی حدتک دادوتحسین کاتصورتھا۔
علاقہ اپنی کشاکش کے نقطئہ نظرسے ہردور میں منفرد شناخت کاحامل رہاہے۔ایسی شخصیات بھی رہی ہیں جو محتاجِ تعارف نہیں۔ مرزا اسداللہ خاںغالبؔ، جناب حکیم اجمل خاں(ہندوستانی دواخانہ)،جناب حکیم احسن اللہ خاں، جناب حکیم شریف، مولانا عبدالوحیدصدیقی، مولانا محمدعثمان فارقلیط، جناب آفتاب احمدصدیقی، جناب شاہدصدیقی، جناب ف۔س۔ اعجاز، جناب ہارون یوسف، مولاناحبیب الرحمن الاحرار،جناب عزیزالرحمن، بیرسٹرسلطان یارخان، ڈاکٹر مولانا محمدفاروق واسفی نقشبندی، مجددی،دہلوی (مسلم مسافرخانہ)، جناب محمدشفیع گھڑی والے،جناب سلام ٹوپی والے،جناب نسیم بٹن والے،جناب محمداِلیاس، جنرل مرچنٹ، جناب فیروزاحمد، گھنٹہ گھر،حلواسوہن والے، جناب غلام محمدملک جوتے والے، مولاناسیداحمدہاشمی،مولاناحفظ الرحمن، حکیم ذکی،حنیف دودھ والے،وغیرہ سے کون واقف نہیں۔بلی ماران علاقہ میںایک نامی گرامی ہوٹل ’’بسم اللہ ریسٹورنٹ‘‘ بھی ہواکرتا تھامذکورہ ریسٹورنٹ میں میںشعری نشستیں منعقدہواکرتی تھیں۔ بلاتفریق ملک وملت افغانی ودیگراہل ذوق اشخاص چائے کے ساتھ شعروشاعری سے بھی محظوظ ہواکرتے تھے۔ریسٹورنٹ کا قیام 1940 میںہوا۔اِس کے پروپرائٹرمحمدفرید اور محمدظہیر ہواکرتے تھے۔ بالاخر چچا زادبھائیوںکی آپسی ناچاقی کے سبب ریسٹورنٹ کو بندجیسے حالات سے نبردآزما ہوناپڑا۔گلی کپے والی کاحلوہ بھی شانِ امتیازی رکھتا تھا۔ اِسی طرح سے محلہ بارہ دری شیرافگن میںورق کوٹنے والوں کی ایک دُکان بھی ہواکرتی تھی جوہرن کی جلدکے درمیان چاندی کے ورق کوٹتے تھے۔ ہاں، ورق کی ایک دُکان گلی قاسم جان کے بیچوںبیچ ریکسین کی دُکان’’گنگارام گردیال سنگھ‘‘کے برابربھی ہواکرتی تھی جس کی ٹکاٹک کی آوازآج بھی راقم کے کانوں میںگونجتی ہے۔
بلی ماران میں ہی پھاٹک پنجابیان یا پنجابی پھاٹک میں ایک گلی جامن والی ہوا کرتی تھی جو آج بھی ہے۔ غالباً یہی گلی یا اس سے اگلی گلی بازار لال کنواں کی گلی چابک سواران سے مل جاتی تھی۔ اسی گلی میں آج کے معروف و معتبر مصنف و مدیر ، ماہنامہ ’’انشاء‘‘ جناب ف۔ س۔ اعجاز بھی قیام کرتے تھے۔ اپنے زمانۂ طالب علمی میں انھوں نے اپنی گلی میں قائم شدہ لائبریری سے بہت سی کرایہ کی کتابیں ایک انا سے دو انا فی دن پڑھی ہیں۔ غالباً ساٹھ کی دہائی میں اعجاز صاحب کلکتہ کو کوچ کر گئے۔ چونکہ لکھنے پڑھنے اور خاص طور سے اردو زبان سے جناب اعجاز صاحب کو قلبی لگاؤ تھا، انھوں نے کلکتہ کے اخبارات و رسائل میں تو قلم کی تگ و بو تو کی ہی، ہندوستان کے ادبی منظرنامہ سے بھی جڑے رہے۔ رسالہ ماہنامہ ’’انشاء‘‘کی اشاعت کا اعجاز انھیں کو جاتا ہے۔ آج کے دور میں ’’انشاء‘‘ اردو کا ایک مکمل بین الاقوامی ماہنامہ ہے جو پنجاب سے راول پنڈی، لندن سے بیلفاسٹ، ٹرنٹو سے نیویارک، میلبارن سے کرائسٹ چرچ اور برلِن سے جاپان تک پڑھا جاتا ہے۔ اعجاز صاحب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا کہ وہ عالمی سطح پر اردو کے مقبول و معزز ترین مدیران میں سے ایک ہوں۔
ایسے ہی بلی ماران میںحنیف بھائی دودھ والے کادودھ پوری دِلّی میںمشہورتھا۔اُن کے کچے دودھ سے ہی ایسی خوش بو نکلتی کہ مت پوچھئے،پکے دودھ کی توبات ہی نرالی تھی۔گائے کاخالص دودھ بیچتے اُنھیںعمرگزرگئی۔اِسی طرح سے راقم کو یادہے کہ احاطہ کالے صاحب کے ٹھیک سامنے دتوٗ قصائی کی دُکان ہواکرتی تھی۔نام توغالباًکچھ اور رہا ہوگالیکن ہم سب اُنھیںدتوٗ کے نام سے ہی جانتے تھے۔اِسی دُکان کے برابرایک حجام کی دُکان بھی تھی جوآج بھی موجودہے اورمالک کی چوتھی نسل یہاںاپنافرض انجام دے رہی ہے۔اِس کے برابرہی اِلیاس بھائی اوربھائی خلوکی جنرل مرچنٹ کی دُکان پراُن کے بزرگ والد نورانی ساچہرہ اورسفیدداڑھی کے ساتھ ٹین کے ڈبوں میں پاپے اورٹکیاںوغیرہ فروخت کرتے تھے۔اب نہ اِلیاس بھائی کے والد رہے اورنہ ہی اُن کے دوسرے بھائی خلو۔اِسی پھاٹک پربائیںجانب ایک بزرگ رسیدہ بڑے میاںچنے، مٹر، مرمرے، کھیلیں، چورن، اِملی، لاٹری،چھوٹے موٹے کھلونے،لٹووغیرہ فروخت کرتے تھے۔ہم تین پیسے سے لے کردوآنے تک کا سودااُن سے خریدلیاکرتے تھے۔اِسی پھاٹک پرکونے میں’’پیکارڈواچ کمپنی‘‘کاگیراج تھا۔یہ محلہ کے رؤسامیںشمارہوتے تھے۔غالباًاُن کے پاس 1950 سے ہی امبیسڈرگاڑی ہواکرتی تھی۔ گیراج کے برابر اومی نام کے پنساری کی دُکان تھی۔غالباًاُن کا نام اوم پرکاش رہاہوگا۔بلی ماران میںبادشاہ مٹھائی والے کا جواب نہیںتھا۔اُن کا دن صبح صبح پھولی پھولی کچوریوں، آلوکی سبزی اورحلوہ مٹھری سے شروع ہوتا تھا۔کچوری اِتنی لذیذہوتی کہ دوٗر دوٗر سے لوگ خریدنے آتے اورایک اژدہام دُکان کے آگے کھڑاپکارلگاتارہتا۔دس کچوری، بیس کچوری،تین کچوری وغیرہ۔اِن کا صبح کا حلوہ نہایت ہی خوش بودار اورلذیذ ہوتاتھا۔غالباًایک آنے کی دومٹھری آتی تھی جس میںوہ کھرچی سے ذراساحلوہ مٹھری کو پھوڑکرٹُمودیتے۔واقعی ناشتے کامزہ آجاتا اور ہاں، جب ناشتے کی بات چل ہی رہی ہے توبڑی نااِنصافی ہوگی اگرہم دُنیاکی بہترین یعنی ’’بسم اللہ ہوٹل‘‘کی نہاری کا ذکرنہ کریں۔نہاری کیا تھی،منیٰ وصلوی تھی۔ رات بھرسولہ مسالوںکے ساتھ ہلکی آنچ پرتیارکی جاتی تھی۔اِس کوکھاکرایسامحسوس ہوتاکہ مانوکمزورجسم میں بجلی کی سی تیزی آگئی ہو۔
صنعتی اِنقلاب کے زیرسایہ طباعتی اِرتقاسے بھی علاقہ محروم نہ تھا۔ چھاپے خانے توکئی ہواکرتے تھے لیکن جیدپرنٹنگ پریس کافی مشہورتھا۔ میدانِ اِشاعت وطباعت میںصدیقی خاندان فردفریدتھا۔ گراںقدر ہستی حضرت مولانا عبدالوحید صدیقی نے 1953میںروزنامہ ’’نئی دُنیا‘‘ شائع کرکے شاہراہِ اُردوصحافت میںسنگ میل قائم کیا۔نئی دُنیاکاکوئی مدمقابل تھاتووہ حاجی یوسف دہلوی وفرزندان یونس اور اِدریس دہلوی تھے مگرحقیقت تویہی ہے کہ ماہنامہ ’’کھلونا‘‘،ماہنامہ’’شمع‘‘و ماہنامہ ’’بانو‘‘اورنئی دُنیاکی راہیںجداگانہ تھیں۔مذکورہ حقائق کے پس منظرمیں علاقہ بلی ماران اُردوادب وتہذیب کا مظہراورمینارۂ روشن تھا۔
مولاناپیدائشی کانگریسی تھے۔وطن پرستی کا جذبہ رگوںمیںخون بن کرگردش کرتاتھا۔نئی دُنیاکی اِشاعت اُن کے عمل پیہم اورعزم واِستقلال کا مظہر تھا۔ کیا کیجیے، ہردور میںغیرسماجی عناصرہواکرتے ہیں،تواُن کے کام میںرخنہ ڈالنے کی پوری پوری کوششیںکیوںنہ ہوتیں۔ مولاناکے قدردانوں میں راجندربابوسے لے کرپنڈت نہرو، مولاناآزاد اور سردارپٹیل تک تھے۔ میدانِ صحافت میںمولاناکی کار کردگیاںایسی تھیںکہ ایوانِ اعلیٰ وزیریںکی کوئی حقیقت نہ تھی۔سیاسی عہدے تواُن کے قدموں میںپڑے تھے لیکن اُن کی شانِ بے نیازی دیکھئے،کبھی وہ خاطر میں نہ لائے۔اُسی خونِ جگرکاصلہ ہے کہ اخبار ہنوز اپنی تمام ترکامیابیوںکے ساتھ جاری ہے۔مولانا کے فرزندجناب شاہدصدیقی واقعی اُن کے قلمی وارِث ہیں۔
شاہدصاحب یوںتو کانگریس، بی۔ایس۔پی۔، ایس۔پی۔ وغیرہ سیاسی پارٹیوں سے منسلک رہے مگراُردوصحافت کومطلب براری کاوسیلہ نہیںبنایا۔میدانِ سیاست میںوالدمحترم کے نظریہ پرکار بند ہو کر محض سماجی خدمات ہی اُن کے اوّلین مقاصدہیں۔
شاہدصاحب کی رہائش بلی ماران کی حویلی حسام الدین حیدر (پھاٹک پنجابیان)میںہواکرتی تھی۔صحافت سے اُنھیںذہنی مناسبت ہے۔اُن کے خصوصیاتِ منفردہ کے مدنظریہ کہاجائے توبیجانہ ہوگاکہ وہ پیدائشی وارِث قلم اور خطابت اُن کاپیرہن نیزقرآن وسنت مشعل راہ ہے۔ دلچسپ بات تویہ کہ اُن کی پیدائش بھی دفتر اخبار میںہوئی تھی۔
مذکورہ محلہ کی دیگرقدآورہستی آفتاب احمدصدیقی کی تھی۔وہ ناردرن ریلوے مینس یونین کے صدرتھے۔اُنھوںنے تعلیم دارالعلوم دیوبندو دیگر دانش گاہوںمثلاًپنجاب، بھٹنڈا اور لاہورکی یونیورسٹیوں وغیرہ سے حاصل کی۔جذبہ حب الوطنی سے سرشارتھے۔ راقم کے صدیقی صاحب گہرے مراسم تھے۔واقعتاوہ اِسم بامسمی تھے۔ اُن کی پیدائش سرزمین اکابرین وعمایدین مثلاًحضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی وحضرت مولانامحمدیعقوب نانوتوی،میںہوئی۔حضرت مولانایعقوب نانوتوی نے مردانہ وارسامراجی طاقتوں کامقابلہ کرکے،آزادیٔ ہندکے لیے راہیں اُستوار کیں۔صدیقی صاحب زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی سرگرمیوںمیںیقین رکھتے تھے۔عملی سرگرمیوں میں اِنہماک کااندازہ تواِسی سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ 8سے20گھنٹے تک مصروف رہاکرتے تھے۔ اُنھیں برادرانِ ملت سے والہانہ ہمدردی تھی لہٰذا،اُنھوںنے اُن کی فلاح کے لیے کوئی کسرنہ اُٹھارکھی تھی۔ دسیوں لوگوںکواُنھوںنے ہندوستانی ریلوے میںملازمت سے ہمکنارکرایا۔
دورانِ صدارت اُنھوںنے ریلوے سے منسلک قلیوں، خوانچہ وچائے اوراخبارفروشوںوغیرہ کومنظم کرکے اُن کے پامال شدہ حقوق کی بازیابی کرائی۔جذبہ ملّی خیرخواہی کے تحت اُنھوںنے راقم سمیت چندنوجوانوں،محمداطیب صدیقی،اِقبال محمدملک وغیرہ پرمشتمل ایک پلیٹ فارم کے ذریعہ نوجوانوں میںجذبہ تحفظ ملّی مفادات کوفروغ دینے کی حتی المقدورسعی کی۔
جذبہ حب الوطنی سے متعلق ایک دِلچسپ حقیقت یہ کہ دورانِ مباحثہ ہندوستانی ریلوے کے کسی آفیسراعلیٰ نے صدیقی صاحب کو ’’پاکستانی ایجنٹ‘‘ کہہ دیا۔صدیقی صاحب جیسے وطن پرست اورمستقل مزاج شخص کی بھی اپنی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔نتیجتاًاُس کاردّعمل بالکل اُسی انداز میں ظاہر کیا جیساکوئی بھی ذی شعورہندوستانی کرتا۔ اُنھوںنے اپنے پیرسے جوتانکالااور غیرذمہ دارآفیسرکے گال پررسیدکردیا۔
بہرحال،ایساشخص جس نے ساری زندگی وطن اور برادرانِ وطن پرنچھاور کردی ،وہ خود کو کس طرح پاکستانی ایجنٹ برداشت کرتا۔مذکورہ ردّعمل آفتاب صاحب کوکافی مہنگاپڑا۔ اُنھیںفوری طورپرنوکری سے برخاست کردیاگیا۔ مذکورہ واقعہ سے متعلق ایوان میںبھی سوالات اُٹھائے گئے۔حیرانی کی بات تو یہ کہ صدیقی صاحب کی حمایت مسلمانوںکی جانب سے نہیں بلکہ ہمارے برادرانِ وطن کی طرف سے ہوئی۔ نہ صرف مزدور بلکہ رہنمایانِ وقت ،اِندراگاندھی اورسرحدی گاندھی عبدالغفار خان صدیقی صاحب کے شانہ بہ شانہ تھے۔نتیجہ یہ ہواکہ صدا صداقت کی فتح ہوتی ہے لہٰذا،متعلقہ آفیسرکونہ صرف معافی بلکہ اُسے تبادلہ کی صعوبتوںسے بھی دوچارہوناپڑا۔
[email protected]