قرآن مجید کی چار بنیادی خصوصیات: عبدالعزیز

0

عبدالعزیز
قرآن مجید کو باربار پڑھتے ہوئے قرآن مجید کے چار بڑے امتیازی اوصاف بہت ابھرکر سامنے آتے ہیں اورایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ قرآن مجید کے مشن کے بنیادی نکات ہیں، انہیں زندگیوں میںظہورعطا کرنے کے لئے ہی قرآن مجید نازل ہوا ہے، اگریہ چاروں اوصاف زندگی میںنظر آنے لگے تو گویا زندگی میںقرآن مجید ظہور پذیر ہونے لگااوراگریہی نظر نہیں آئے تو سمجھو کہ قرآن مجید کا نہ دل پر نزول ہواور نہ زندگی میںظہور ہوا۔
قرآن مجید کتاب ایمان ہے ، وہ دل کو ایمان ویقین عطاکرتاہے۔
قرآن مجید کتاب عمل ہے، وہ زندگی کو بہترین عمل سے آراستہ کرتاہے۔
قرآن مجید کتاب حکمت ہے، وہ عقل کو آزادی اورتوانائی عطا کرتاہے۔
قرآن مجید کتاب دعوت ہے ، وہ داعی اورمربی بناتاہے۔
وہ خوش بخت لوگ ، جن کا ایمان ویقین حد درجہ پختہ اورمضبوط ہو، جن کی عقل بے حد وحساب غور وفکر کرنے والی ہو، جن کے بہترین اعمال میںمسلسل اضافہ ہورہاہو اورجو دعوت و تربیت کے کام میں ہر وقت مصروف ہیں، وہی بلاشبہ اہل القرآن ہوتے ہیں اوروہی بے شک اہل اللہ بھی ہوتے ہیں۔
بندگی کوطاقت ایمان سے حاصل ہوتی ہے ، اورایمانی قوت کاسرچشمہ قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید بتاتاہے کہ کن چیزوں پرکیاایمان لانا ہے ، وہ یہ بھی بتاتاہے کہ کس درجے کاایمان لاناہے، وہ یہ بھی بتاتاہے کہ ایمان والوں کی زندگی کیسی ہوتی ہے اوروہ یہ بھی بتاتاہے کہ ایمان کیسے بڑھتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی آیتوں کو سننے سے ایمان بڑھتا جاتاہے، اورایک چنگاری سے شعلہ بن جاتاہے، قرآن مجید فلسفہ اورکلام کی غیرضروری بحثوں سے بچاتے ہوئے یقین کی بلند منزلوں کی سیراورایمان کی بلند چوٹیوں کو سرکراتاہے، قرآن مجید وہ ایمان مانگتاہے اورعطا بھی کرتاہے جو غفلت کو قریب پھٹکنے نہ دے، جوبخل اوربزدلی سے آزاد کردے، جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اوراللہ کی مرضی کو سب سے زیادہ پسند یدہ بنادے، جو اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لئے بے قرار کردے، قرآن مجید اس ایمان کی تعلیم دیتاہے جو انسان کے قد کوبلند کرے، اس کے ظرف کو وسیع کرے، اس کے اندر خیر سے محبت اوربرائی سے نفرت پیداکرے، اوراس کے دلمیںاللہ کی بندگی ، بندوں کی خدمت اورصالحین میںشمولیت کاشوق پیداکرے۔
قرآن مجید میں اچھے عمل کو جس قدر اہمیت دی گئی ہے ، وہ کہیں نہیں ملتی ہے، عمل کو نجات اورکامیابی کے لئے شرط بھی قرار دیاگیا ہے اوراسے نجات اورکامیابی کاضامن بھی بتایاگیاہے۔ قرآن مجید یہ بحث کہیں نہیں چھیڑتا کہ ایمان کے بغیرعمل یاعمل کے بغیر ایمان کی کیاوقعت ہے۔ ایسی بحثیں قرآن مجید کے بنیادی مشن کومجروح کرتی ہیں، قرآن مجید کامقصود باایمان اورباعمل فرد کی تیاری ہے، بے ایمان یابے عمل کاانجام آخرت میں کیا ہوگا اس سے قطع نظر ، یہ بات یقینی ہے کہ وہ قرآن مجید کے سائے میںتیارہونے والاانسان نہیں ہے، قرآن مجید میںاس کے لئے نہ کوئی وعدہ ہے اورنہ کوئی بشارت ہے، قرآن مجید میںکوئی ہلکاسااشارہ بھی نہیں ہے جوایمان اورعمل میں سے کسی ایک کے بغیر نجات اورکامیابی کی گنجائش بتاتاہو۔ قرآن مجید میںایمان اور عمل ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں، کسی ایک پرزیادہ زوردینے سے دوسرے کی اہمیت کم ہوسکتی ہے، قرآن مجید میں ہرجگہ دونوں کی اہمیت برابر نظرآتی ہے۔ قرآن مجید میں نہ ایمان کے اضافے کی کوئی آخری حد بتائی گئی ہے اورنہ عمل کے ذخیرے کی کوئی آخری حد بتائی گئی ہے۔ ایمان کامسلسل بڑھتے رہنا بھی عین مطلوب ہے، اورعمل کابہتر سے بہتر اورزیادہ سے زیادہ ہوتے رہنا بھی عین مطلوب ہے۔
قرآن مجید میں عقل کے اطمینان کاسامان کیا گیا، عقل کو استعمال کرنے کی تاکید کی گئی ، غور وفکر پرابھار اگیا ہے ، غوروفکر نہیں کرنے پرمذمت کی گئی ہے ، غوروفکر کے لئے مناسب ترین ماحول فراہم کیاگیاہے، غوروفکر کے راستے کی رکاوٹوں کو دورکیاگیا ہے، بہتر طریقے سے غوروفکر کرنے کی تربیت کاانتظام رکھاگیاہے۔اورقرآن مجید کو غوروفکر کاایسازبردست میدان بنادیاگیا ہے جہاں غور وفکر کے بے شمار مواقع ہیں اورجہاں سے غوروفکر کے بہت سے میدانوں کی راہ بھی ملتی ہے۔ قرآن مجید میں کہیں عقل کی مذمت نہیں ہے، ہر جگہ عقل کی تعریف ہے۔ کہیں عقل کے استعمال پرقدغن نہیں ہے، عقل کواستعمال کرنے کی پوری آزادی ہے، قرآن مجید نے عقل کوجتنا اونچا مقام دیا ہے اورجتنا اہم کام دیا ہے اتنا اونچا مقام اوراتنا اہم کام تو خود انسان اپنی عقل کو نہیںدے سکتا ، قرآن مجید کے کلام حق ہونے کی ایک بڑی دلیل اس کی حکمت دوستی اورعقل نوازی ہے۔
قرآن مجید کی ہر آیت دعوت وتربیت کی آیت ہے۔ ہرآیت دعوت وتربیت کے سفر کے لئے بہترین زاد راہ ہے، کوئی آیت خاموش نہیںہے، ہر آیت بول رہی ہے، بات رکھنے کاسلیقہ، جواب دینے کاطریقہ، عقل کومطمئن کرنے کاانداز، دل تک پیغام رسانی کا اسلوب، غرض ایک داعی اورایک مربی کی بہترین تیاری کاسامان قرآن مجید کی سب آیتوں میںموجودہے ،مکی آیتیں داعی تیارکرتی ہیں اورمدنی آیتیں مصلح اورمربی تیار کرتی ہیں۔ قرآن مجید کی آیتوں میں ایک عظیم داعی اورایک عظیم مربی صاف دکھائی دیتاہے، وہی قرآن مجید کامطلوبہ داعی اورمربی ہے۔ قرآن مجید میںنظر آنے والاانسان روشن راستے پر چلتاہے اورساتھ ہی اندھیروں کو مٹانے اوراجالوں کو بڑھانے کے لئے بھی کوشاں رہتاہے۔ ایک انسان کی زندگی قرآن مجید کے کس قدر مطابق ہے اس کااندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ اس کی زندگی میںدعوت وتربیت کی سرگرمی کس قدر ہے، قرآن مجید کے مطابق زندگی ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کی دعوتی گفتگو اوردو قرآن مجید میں نظر آتی ہے اسی طرح کی اس کی زندگی میں بھی نظر آنے لگے۔
اگر مسجدوں،مدرسوں اورگھروں میں قرآن کی تلاوت ہورہی ہے اورقرآن کا ترجمہ بھی پڑھاجارہاہے اورقرآن مجید کو سمجھنے سمجھانے کی مجلسیں بھی منعقد ہورہی ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود اگرایمان میں مسلسل اضافہ نہیں ہورہاہے اوراگرعقل غور وفکر کرنے میںمصروف نہیں رہتی ہے اوراگرروز بروز عمل کی تعداد میںاضافہ اورعمل کی تربیت میں ترقی نہیں ہورہی ہے اوراگرزندگی دعوت و تربیت کی سرگرمی سے خالی ہے، اوراس حالت کوبدلنے کی فکر اورتدبیر بھی نہیں ہے تو سمجھ لیناچاہئے کہ قرآن مجید سے بہت زیادہ دوری ہے اوراس سے رشتہ بہت زیادہ کمزور ہے۔
اس وقت قرآن مجید سے ہماری بہت زیادہ دوری کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہمارا حال قرآن مجید کی بنیادی خصوصیات سے یکسر خالی ہے، میرے نزدیک بھی خود ملامتی اچھی بات نہیں ہے ، لیکن اپنے حال کا صحیح تجزیہ نہ کرنااورجھوٹ میں گوندھی ہوئی خاموشی کو اپنی زبانوں پرتھوپے رہنا اوربھی برا ہے۔ اپنے حال کو خود اپنی نگاہ کے سامنے بے نقاب کرنا اورخوش فہمی کی قبر سے خود کو باہر نکالنا ہی سمجھ داری ہے، اگرہماری زندگی میںسمجھ داری کے لئے تھوڑی سی بھی جگہ ہے۔ ہم ایمان کادعویٰ رکھتے ہیں ، لیکن ایمان کی ساری خصوصیات سے محروم ہیں۔ ہمارے ایمان میں نہ یقین ہے نہ اطمینان ہے، نہ جذبہ ہے اور نہ تمنا ہے، نہ وہ غفلت کاپردہ چاک کرتاہے اورنہ ہی بدعتوں سے روکتا ہے، نہ معروف کو عام کرنے کاجذبہ پیداکرتاہے اورنہ منکر کو مٹانے کی ہمت دیتاہے، نہ اعلان حق کی جرأت بیدارکرتا ہے نہ آنسو کے سوتے جاری کرتاہے، نہ کسی خطرے کاسامنا کرنے دیتاہے اورنہ کسی بھاری بوجھ کو اٹھانے کی ہمت پیداکرتاہے، ایسے کمزور ایمان کے ساتھ تو دنیا کی کوئی مہم سرنہیں کی جاسکتی ، بھلا آخرت کاسفر کیسے طے کیا جاسکتاہے۔
جھوٹی امیدوں نے ہماری زندگی کو عمل بیزار بنادیا ہے، بے کاری اوربے عملی ہماری پہچان بن گئی ہے، اچھے کاموں کی دوڑ میں ہم آگے نظرنہیںآتے، آسان اورتھوڑے سے اعمال کو ہم بہت کافی سمجھ لیتے ہیں، بڑے کام بہترین کام، مشکل کام، قربانیوں والے کام، فتوحات والے کام، اللہ کو خوش کرنے والے کام، شیطان کو شکست دینے والے کام، قوموں کی امامت والے کام، مختصر یہ کہ قرآن مجید میںکثرت سے نظر آنے والے ہماری زندگی میں کم سے کم بھی نظر نہیںآتے ہیںاورعمل کے بناجنت میںچلے جانے کاہمیںاس قدر یقین ہے، گویا ہمیں جنت کے مالکانہ حقوق حاصل ہیں۔
ہماری عقلیں نہ کائنات کی نشانیوں پرغورکرتی ہیں اورنہ قرآن مجید کی آیتوں میںتدبر کرتی ہیں، نہ انسانوں کے مسائل پر سوچتی ہیں ، نہ اپنی عاقبت کی فکر کرتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہماری عقلوں کے لئے اس دنیامیںکوئی مصرف ہی نہیں ہے۔ ہمارے رسم ورواج ، ہماری عادات ومعمولات ، ہمارا رویہ ، ہماری عبادت ، ہمارے تعلقات غرض ہماری زندگی کے ہرہر پہلو میں بے عقلی بلکہ عقل دشمنی جگہ جگہ نظر آتی ہے ، کیاماجرا ہے کہ قرآن مجید نے جنہیں ’’قوم یعقلون‘‘ کہاتھا وہ اس قدر ’’قوم لایعقلون‘‘ ہوگئے۔
ہماری زندگی یوں ہر طرح سے جمود کاشکار ہے مگردعوت و تربیت کو تو ہماری سرگرمیوں میں بالکل بھی جگہ نہیں ملتی ، ہم دوسروں سے متاثر اورمرعوب رہتے ہیں، اس دنیا میں ہماری حیثیت حیوان ناطق کی نہیں محض سامع کی ہے، ہم دوسرو ں کے بنائے ہوئے منصوبوں میںرنگ بھرنے کے کام آتے ہیں، دوسروں کے اٹھائے ہوئے ایشوز پر کام کرتے ہیں اوردوسروں کے چھیڑے ہوئے سروں پر سردھنتے ہیں ، نہ ہم اپنے ایشوزاٹھاتے ہیںنہ اپنے سرچھیڑتے ہیں، غرض قرآن مجید ہم کو داعی بناتاہے مگرہم مدعو بنے ہوئے ہیں۔ الیکشن میںکھڑے ہونے والے امیدواروں کے حواری ان کاجس قدر پرچار کرتے ہیں اتنا پرچار بھی اگر اللہ کے انصار اوررسول کے حواری نہیں کریں تو پھرکیسے خیرامت قرار پائیں گے ۔ پھر جو داعی اورمربی ہونے کے مدعی ہیں بسااوقات ان کی دعوت وتربیت میں قرآن سے دوری اورلاتعلقی صاف نظر آجاتی ہے اورکہیں سے نہیں لگتا کہ ان کی تربیت قرآن مجید کی آیتوں سے ہوئی ہے۔
فلاح اورکامیابی کاراستہ یہ ہے کہ اللہ کے بندے ایمان، عمل، عقل اوردعوت کو اپنی زندگی میںمناسب مقام دیں ۔ دوسرے لفظوں میںقرآن مجید سے سچا تعلق قائم کریں جس طرح یہ ضروری ہے کہ انسان کی نشوونما صحت بخش اورصاف ستھرے ماحول میںہو، اسی طرح یہ بھی مطلوب ہے کہ ایمان ، عمل، عقل اور دعوت کی نشوونما قرآن مجید کے سائے میں ہو، اوراتنی زیادہ ہو کہ یہ چاروں چیزیںشخصیت کی نمایاںپہچان اورسیرت کاامتیازی عنوان بن جائیں۔ قرآن مجید سے واقعی فائدہ اٹھانے والاانسان ایمان ویقین کی قوت سے مالامال ہوتاہے، عمل کے میدان میں سب سے آگے ہوتاہے، عقل وحکمت کے میدان کابہترین شہسوار ہوتاہے اوراپنے مشن کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتاہے۔ یہ چاراوصاف جس گروہ میں پیداہوجائیں اسے عروج و ترقی کے قلعے یکے بعد دیگرفتح کرنے اوردنیاکی امامت کاتاج زیب سرکرنے سے کوئی نہیں روک سکتاہے۔
افسوس قرآن مجید سے تعلق کا دم بھرنے والے ان چاروں چیزوں میںنمایاں طورسے ساری اقوام عالم سے پیچھے ہیں۔ ان چاروں چیزوں میں سب سے آگے ہونا ہی دراصل قرآن کے سائے میںعروج وترقی کا سفر طے کرنا ہے۔ ان چاروں نکات کے حصول کو ہماری حکمت عملی کی اساس ہوناچاہئے۔
ڈاکٹر محی الدین غازیکی تحریر سے ماخوذ
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS