متنازع جی ایم فصل: بھارت ڈوگرا

0

بھارت ڈوگرا

حالیہ برسوں میں کسانوں کے بحران کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی خودانحصاری اور خودکفیل ہونے میں زبردست کمی آئی ہے۔ وہ زراعت کی نئی تکنیکوں کو اپنانے کے ساتھ کیمیائی کیڑے مار ادویات، گھاس ختم کرنے والے، کیمیائی کھاد، باہری بیجوں اور آلات پر بہت منحصر ہوگئے ہیں۔
جہاں زمینی سطح پر کسان ان تجربات سے گزر رہے تھے، وہاں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سطح پر ایسی کوششیں بھی ہورہی تھیں کہ کسانوں پر اپنا کنٹرول مزید بڑھا لیا جائے۔ اس کنٹرول کو بڑھانے کا اہم وسیلہ بیج کو بنایا گیا کیوں کہ بیج پر کنٹرول ہونے سے پوری کاشتکاری پر کنٹرول ہوسکتا ہے۔ اس لیے بڑی کمپنیوں نے بیج کے سیکٹر میں پیر پھیلانے شروع کیے۔ جو بڑی کمپنیاں اس سیکٹر میں آئیں، وہ پہلے سے زرعی کیمیکل بالخصوص کیڑے مار ادویات، گھاس کو ختم کرنے والی ادویات وغیرہ کے پروڈکشن میں لگی ہوئی تھیں۔ اس طرح بیج صنعت اور ایگرو کیمیکل انڈسٹری ایک ہی طرح کی کمپنی کے ہاتھ میں مرکوز ہونے لگیں۔ اسی وقت کے آس پاس جینیٹک انجینئرنگ میں کچھ اہم ریسرچ ہورہی تھیں اور سائنسداں مخصوص خصوصیات والے جین کو ایک جاندار سے دوسرے جاندار میں داخل کراکر زندگی کی مختلف شکلوں کو، ان کی خصوصیات کو بدلنے کی صلاحیت حاصل کررہے تھے۔ جینیٹک انجینئرنگ سے حاصل فصلوں کو مختصراً جی ایم (جینیٹیکلی موڈی فائیڈ) فصل کہتے ہیں۔
عام طور پر ایک ہی پودے کی مختلف قسموں سے نئی قسمیں تیار کی جاتی رہی ہیں جیسے گیہوں کی دو قسموں سے گیہوں کی ایک نئی قسم تیار کرلی جائے لیکن جینیٹک انجینئرنگ میں کسی بھی پودے یا جانور کے جین یا موروثی خاصیت کا داخلہ کسی دیگر پودے یا جاندار میں کروایا جاتا ہے جیسے آلو کے جین کو ٹماٹر میں داخل کروانا یا خنزیر کے جین کو ٹماٹر میں داخل کروانا یا مچھلی کے جین کو سویابین میں داخل کروانا یا انسان کے جین کو خنزیر میں داخل کروانا وغیرہ۔ جی ایم فصلوں کی مخالفت کی ایک اہم بنیاد یہ رہی ہے کہ یہ فصلیں صحت ا ور ماحولیات کے نقطہ نظر سے محفوظ نہیں ہیں اور یہ اثر جینیٹک آلودگی کے ذریعہ سے دیگر عام فصلوں اور پودوں میں پھیل سکتا ہے۔ اب اس بارے میں بڑے پیمانہ پر اتفاق رائے ہے کہ ان فصلوں کا پھیلاؤ ہونے پر ٹرانس جینک آلودگی سے بچا نہیں جاسکتا۔ اس لیے جی ایم فصلوں اور غیر جی ایم فصلوں کی بقائے باہمی نہیں ہوسکتی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جی ایم فصلوں کی حفاظت یا سیفٹی سرٹیفائڈ نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے برعکس مناسب ثبوت حاصل ہوچکے ہیں، جن سے ان فصلوں کی سیفٹی یا تحفظ سے متعلق سنگین خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان کو نظرانداز کیا گیا تو صحت اور ماحولیات کا نقصان ہوگا جس کی تلافی نہیں ہوسکتی، جسے پھر ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ جی ایم فصلوں کو اب مضبوطی سے ریجیکٹ کردینا چاہیے، نامنظور کردینا چاہیے۔ جینیٹک آلودگی کا بنیادی کردار ہی ایسا ہے۔ فضائی اور آبی آلودگی کی سنگینی کا علم ہونے پر ان کے اسباب کا پتا لگاکر انہیں کنٹرول کرسکتے ہیں، لیکن جینیٹک آلودگی جو ماحولیات میں چلی گئی ہو، وہ ہمارے کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے۔ جینیٹک انجینئرنگ کی تشہیر کئی بار اس طرح کی جاتی ہے کہ کسی مخصوص خاصیت والے جین کا ٹھیک ٹھیک پتا لگا لیا گیا ہے اور اسے دوسرے جاندار میں پہنچا کر اس میں وہی خصوصیت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن حقیقت اس سے مختلف اور کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
کوئی بھی جین صرف اپنی سطح پر یا الگ سے کام نہیں کرتا بلکہ بہت سے جینوں کے ایک پیچیدہ گروپ کے ایک حصہ کی شکل میں کام کرتا ہے۔ ان بے شمار دیگر جینوں سے مل کر اور ان سے انحصار میں ہی جین کے کام کو دیکھنا-سمجھنا چاہیے، علیحدگی میں نہیں۔ ایک ہی جین کا مختلف جانداروں میں کافی مختلف اثر ہوگا کیوں کہ ان میں جو دیگر جین ہیں، وہ مختلف ہیں۔ خاص طور پر جب ایک جاندار کے جین کو کافی الگ طرح کے جاندار میں پہنچایا جائے تو، جیسے انسان کے جین کو خنزیر میں، تو اس کے کافی نئے اور غیرمتوقع نتائج سامنے آنے کا امکان ہے۔ اتنا ہی نہیں، جینوں کے گروپ کا کسی جاندار کے دیگر جسمانی اسٹرکچر اور باہری ماحولیات سے بھی تعلق ہے۔ جن جانداروں میں سائنسداں خاص جین پہنچانا چاہ رہے ہیں، ان سے الگ جانداروں میں بھی ان جینوں کے پہنچنے کا امکان رہتا ہے، جس کے متعدد غیرمتوقع نتائج اور خطرات ہوسکتے ہیں۔ باہری ماحولیات جین کے اثر کو بدل سکتا ہے اور جین باہری ماحولیات کو اس طرح متاثر کرسکتا ہے، جس کا امکان جینیٹک انجینئرنگ کے استعمال کرنے والوں کو نہیں تھا۔ ایک جاندار کے جین دوسرے جاندار میں پہنچانے کے لیے سائنسداں جن طریقوں کا استعمال کرتے ہیں، ان سے غیرمتوقع نتائج اور خطرات کے خدشات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ جینیٹک انجینئرنگ کے زیادہ تر اہم پروڈکٹ کے پیٹنٹ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس ہیں اور وہ اپنے منافع کو زیادہ کرنے کے لیے اس تکنیک کا جیسا استعمال کرتی ہیں، اس سے اس تکنیک کے خطرات اور بڑھ جاتے ہیں۔ زرعی اور کھاد سیکٹر میں جینیٹک انجینئرنگ کی ٹیکنالوگی محض تقریباً چھ-سات ملٹی نیشنل کمپنیوں (اور ان کی معاون یا ذیلی کمپنیوں) کے ہاتھ میں مرکوز ہیں۔ ان کمپنیوں کی اصل بنیاد مغربی ممالک خاص کر امریکہ میں ہے۔ کچھ وقت پہلے ملک کے عظیم سائنسداں پروفیسر پشپ بھارگو کا انتقال ہوا ہے۔ وہ سینٹر فار سیلیولر اینڈ مولی کیولر بایولاجی، حیدرآباد کے فاؤنڈنگ ڈائریکٹر اور نیشنل نالج کمیشن کے نائب صدر رہے۔ جی ایم فصلوں کے خلاف ان کی وارننگ اہم ہے۔ اکثر جی ایم فصلوں کے حامی کہتے ہیں کہ سائنسدانوں کی زیادہ حمایت جی ایم فصلوں کو ملی ہے لیکن پروفیسر بھارگو نے اس موضوع پر مجموعی تحقیق کی تشخیص کرکے واضح طور پر بتا دیا کہ زیادہ تر غیرجانبدار سائنسدانوں نے جی ایم فصلوں کی مخالفت ہی کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جن سائنسدانوں نے حمایت کی ہے، ان میں سے کئی کسی نہ کسی سطح پر جی ایم بیج فروخت کرنے والی کمپنیوں یا اس طرح کے ذاتی مفادات سے کسی نہ کسی طور پر وابستہ رہے ہیں، یا متاثر رہے ہیں۔ آج جب طاقتور خودغرضی کے ذریعہ جی ایم کھاد فصلوں کو ہندوستان میں منظوری دلوانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں، اس وقت بہت ضروری ہے کہ اس موضوع پر حقائق اور ریسرچ پر مبنی وارننگ پر توجہ دی جائے۔rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS