ڈاکٹر سیّد احمد قادری
اس وقت ہمارا ملک شدت سے غربت و افلاس کے درمیان کراہ رہا ہے۔ لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور حکومت ملک کی 140 کروڑ کی آبادی کے نصف حصے کو زندہ رکھنے کیلئے لوگوں کے دیے گئے ٹیکس کے پیسے سے غذائی اجناس مہیا کرا رہی ہے جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کیلئے باعث شرم ہے۔ عالم یہ ہے کہ یہ ملک 2022 کے عالمی ہنگر انڈیکس میں 121 کے مقابلے 107 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے ۔تغذیہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں میں شدت کی گرمی پڑنے کے باعث، پانی کی قلت سے لوگ اذیت ناک زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ ملک میںسرکاری اسپتالوں کی سخت کمی ہے اور جہاں کہیں ہیں بھی تو طبی سہولیات ناپید ہیں یعنی کل ملاکر ملک کی بڑی آبادی بنیادی ضرورتوں اور سہولیات سے کوسوں دور کھڑی ہے۔ ایسے نا گفتہ بہ حالات میں ضرورت اس بات کی تھی ہے کہ ملک کے لوگوں کو بنیادی سہولیات مہیا کرانے کی کوششیں کی جاتیں،لیکن برسراقتدار حکومت ملک کی تاریخ بدلنے اور تاریخ میں اپنا نام درج کرانے کے لیے ملک کی دولت کو بے دریغ پانی کی طرح خرچ کر رہی ہے۔ ملک پر قرض کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسے بدترین معاشی حالات میں ہزاروں کروڑ کی لاگت سے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن جب ملک کا حکمراں خود کو ملک کا مالک کل سمجھنے لگے تو پھر نفع و نقصان کا احساس جاتا رہتا ہے۔ اسے صرف اپنے مفادات کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ملک کے ایسے ہی حالات کے پیش نظر بہار کے وزیر اعلیٰ نیتش کمار نے بھی نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا ہے کہ ’پارلیمنٹ کی نئی عمارت بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ ایسا کرکے ملک کی قدیم تاریخ کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ملک کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان دنوں جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ پوری تاریخ ہی بدل دینے کے در پے ہیں۔‘ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر اور اس کے کئی بنیادی ڈھانچوں کے بدلاؤ پر بھی ان کا خفا ہونا جائز ہے۔ بہار کی قدیم تاریخ سے تعلق رکھنے والے دور موریہ کے عظیم بادشاہ، اشوک کے اشوک استمبھ کو ہٹا کر سینگول کو جگہ دی گئی ہے جس سے آنے والے دنوں میں کئی متنازع نتائج سامنے آئیں گے۔ اب فوجیوں کے میڈل، راشٹر پتی بھون، آئی پی ایس کے افسران کے کاندھوں پر سے اشوک کی نشانی کی جگہ سینگول دیے جائیںگے۔
اب دیکھئے کہ موجودہ پارلیمنٹ کی مستحکم عمارت کی تعمیر کو ابھی سو سال بھی مکمل نہیں ہوئے ہیں۔ واضح کر دوں کہ برٹش کے ماہر تعمیر ایڈوِن لُٹینس اور ہربرٹ بیکر کے تعاون سے 1921 سے 1927 کے درمیان یہ تاریخی عمارت مکمل کی گئی تھی اور 18 جنوری 1927 کو اسے باضابطہ طور پر کھولا گیا تھا۔ 1947 تک یہ عمارت برٹش حکومت کی ملکیت رہی لیکن 1950 میں اسے حکومت ہند کو سونپ دیا گیا تھا۔ جو لوگ اس پرانی پارلیمنٹ کے ضمن میں کہتے ہیں یہ انگریزوں کی نشانی ہے تو انہیں یہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ اس عمارت کی تعمیر میں جو صرفہ آیا، وہ برٹش حکومت نے برطانیہ سے لاکر نہیں دیا تھا بلکہ اسی ملک کے لوگوں کے پیسے خرچ کیے گئے تھے اور پھر انگریزوں یا مغلوں کی کون کون سی نشانیوں کو مٹاؤگے ؟ پورے ملک کے چپے چپے میں مغلوں اور انگریزوں کی نشانیاں موجود ہیں۔ پارلیمنٹ کی یہ پرانی عمارت بھگت سنگھ، بٹوکیشور دت جیسی تاریخی شخصیات کے ساتھ ساتھ ہزاروں مجاہدین آزادی کی یادوں اور تاریخ کی گواہ ہے۔ ایسی قیمتی یادگار کو ہرف ممکن طور پر قائم رکھنے کی کوشش ہونی چاہیے تھی نہ کہ اس تاریخ کو ختم کرکے نئی اور متنازع تاریخ قائم کرنے کی۔ لیکن تاریخ میں اپنا نام درج کرانے کے لیے ایک غریب اور معاشی بحران سے بدحال ملک کے خزانہ کی خطیر رقم خرچ کرکے پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر کرائی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کی اس نئی عمارت کا افتتاح کانگریس سمیت 21 سیاسی پارٹیوں کے اعتراض، احتجاج اور بائیکاٹ کے باوجود 28 مئی کو یعنی ساورکر کے 140 ویں یوم پیدائش پر خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا۔ ساورکر کے یوم پیدائش پر پارلیمنٹ کا افتتاح کئی سوال بھی کھڑے کرتا ہے۔ ساورکر ہندو راشٹر کے تصور کے جنم داتا ہیں، اس لیے سوال کھڑا ہونا لازمی ہے۔ اس سلسلے میں مہاتما گاندھی کے پڑ پوتے تشار گاندھی نے طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کو نئے پارلیمنٹ کا نام ہی ساورکر سدن اور سنٹرل ہال کا نام معافی سیکشن رکھ دینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ساورکر کو پروجیکٹ کیا جا رہا ہے، اس بابت برابر سوال اٹھتے رہتے ہیں۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش کا کہنا غلط نہیں ہے کہ یہ ہماری عظیم شخصیات کی توہین ہے۔ یہ نہرو ، بوس اور امبیڈکر جیسے لیڈروں کو پوری طرح مسترد کرنا ہے (حالانکہ یہاں پر رمیش نے مولانا آزاد کا نام نہ لے کر مسلم لیڈر شپ کو مسترد کرنے کی کوشش کی ہے )۔
اب جبکہ ایک سیاسی فیصلہ اور سیاسی مفاد کے تحت حزب مخالف جماعتوں کے بغیر صلاح و مشورہ سے ملک کے غریبوں کے گاڑھے پسینے کے ٹیکس سے پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر ہو ہی گئی ہے تو ایسے میں اب کوئی بھی اس قومی ملکیت کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے۔ ہاں، اس کے افتتاح میں برتی گئی بے ضابطگی پر اعتراض اور مخالفت ضرور کی گئی ہے۔ ملک کے آئین نے پارلیمنٹ کی تشریح کرتے ہو ئے بڑے ہی واضح طور پر بتایا ہے کہ ’ ملک کی ایک پارلیمنٹ ہوگی جو راجیہ سبھا ، لوک سبھا اور صدر جمہوریہ پر مشتمل ہوگی۔‘ یعنی صدر مملکت کو پارلیمنٹ کا لازمی حصہ قرار دیا گیاہے۔ اس کے بغیر پارلیمنٹ نامکمل ہوگی۔ یہ بھی میں واضح کر دوں کہ آئین وزیر اعظم کا ذکر نہیں کرتا ہے۔ اس رو سے یہ واضح ہوتاہے کہ چونکہ پارلیمنٹ ہندوستان کا سپریم قانون ساز ادارہ ہے اور آئین کی دفعہ 79 کے تحت صدر جمہوریہ کو دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو طلب کرنے، اسے معطل کرنے یا لوک سبھا کو تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہے، نیز صدر جمہوریہ ہندوستان کی اولین شہری اور پارلیمنٹ کی سربراہ ہیں، اس لیے بلا شبہ اس نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح صدر مملکت کے بجائے وزیر اعظم مودی کے ذریعہ کیا جانا نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ صدر جمہوریہ کی توہین بھی ہے۔ حزب مخالف پارٹیوں کی مخالفت دراصل حکوت کی مخالفت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ غلط اور صحیح کا مسئلہ ہے، جسے حکومت اور وزیراعظم کو سمجھنا چاہیے تھا اور اپنے سیاسی مفادات کے بجائے قومی مفاد میں صدر مملکت سے اس نئی عمارت کا افتتاح کرانا چاہیے تھا ، لیکن یہاں تو مسئلہ انا اور خودنمائی کا ہے۔اس ضمن میں حزب مخالف نے، جنہوں نے افتتاح کے اجتمائی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے، ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ مودی حکومت جمہوریت کے لیے خطرناک صورت حال پیدا کر رہی ہے، حکومت نے آمرانہ انداز میں نئی پارلیمنٹ بنائی اور اب صدر جمہوریہ کو ہی اس تاریخی افتتاح کے موقع پرنظر انداز کیا گیا ہے ،جو کہ ہماری جمہوری روایت پر سیدھا حملہ ہے۔ اس سلسلے میں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے مرکزی حکومت پر طنز کرتے ہوئے بتایا کہ پارلیمنٹ آئینی اقدار سے بنی ہے نہ کہ انا کی اینٹوں سے۔ کانگریس کے قومی صدر ملکا رجن کھڑگے نے کہا ہے کہ مودی حکومت کے تکبر نے پارلیمانی نظام کو منہدم کر دیا ہے۔ انہوں نے مودی سے پوچھا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے افتتاح سے ملک کے صدر کے حق کو چھین کر آپ کیا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر ملک کی صدر مملکت کو نظر انداز کیے جانے اور وزیراعظم مودی کے اپنے ہاتھوں افتتاح کی ضد پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے آر جے ڈی نے اسے ہندوستانی جمہوریت کے لیے کالا دن قرار دیا ہے اورکہا ہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے جسے نظر انداز کر دیا جائے۔ راشٹریہ جنتا دل کے ترجمان چترنجن گگن نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح سے راج شاہی کی علامت سینگول کو میوزیم سے نکال کر اس کا گن گان کیا جا رہا ہے، ا س سے تو یہی لگتا ہے کہ عوامی حکومت کو بدل کر راج شاہی نظام قائم کرنے کی حکمت عملی پر مرکز کی بی جے پی حکومت آگے بڑھ رہی ہے۔ حزب کے اختلاف کے ذریعہ نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کا بائیکاٹ کیے جانے پر این ڈی اے کی جانب سے ایک بیان جاری کر کیا گیا ہے کہ ’افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ آئینی قدروں کی توہین ہے۔‘ اس ’ آئینی قدروں کی توہین ‘ جیسے بیان پر خود بی جے پی کس قدر عمل کر رہی ہے، یہ پوری دنیا گزشتہ نو برسوں سے دیکھ رہی ہے ، اس لیے یہ بیان اپنے آپ میں ایک مضحکہ خیز بیان ہے۔rtm
[email protected]