میں تمام علوم میں کامیاب ہو کر نکل گیا مگر ایک صراحی میں جا کر گر گیا

0

وہ ہمیشہ اپنے لئے ایک روشن اور تابناک مستقبل کا خواب سجائے پھرتا تھا۔ وہ مال و دولت کے ساتھ جاہ و منصب کا بھی آرزو مند تھا۔ ان سب کو حاصل کرنے کا اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا وہ تھا علم کا راستہ۔ چنانچہ اس نے بڑے شوق اور لگن سے علم حاصل کرنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز ہو کر علم کے اونچے مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے شرعی علوم کے ایک بہت ہی باریک فن “فقہ مقارن” تقابلی فقہ میں تخصص حاصل کیا۔ تاہم ابھی تک اس کا کوئی بھی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تھا۔ایک دن ایسا ہوا اسے یہ احساس ہونے لگا کہ اس کے خواب کی صبح بہت قریب ہے اور اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے۔ ایک مقامی اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کی نظر ایک اشتہار پر پڑی۔ اس میں لکھا تھا کہ پیٹرول کی دولت سے مالا مال ایک خلیجی ملک کو “فقہ مقارن” تقابلی فقہ کی تدریس کے لئے چند اساتذہ کی ضرورت ہے۔ اس ملازمت کے شرائط پر وہ بالکل پورے اتر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ اشتہار اسی کے لیے نکالا گیا ہو۔اس نے خوبصورت لباس زیب تن کیے اور فورا مذکورہ خلیجی ملک کے سفارتخانے کی طرف چل پڑا۔ وہ بہت خوش اور پر امید تھا کہ اب اس کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے۔سفارت خانے میں اسے انٹرویو لینے والی کمیٹی کے پاس لے جایا گیا۔ یہ کمیٹی یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ پر مشتمل تھی۔ جسے مطلوبہ ملازمتوں کے امیدواروں کو منتخب کرنے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔ جہاں کمیٹی نے بڑی گرمجوشی اور بڑے پرتپاک انداز میں اس کا استقبال کیا۔
اس نے کمیٹی کے سامنے اپنے کاغذات اور بایو ڈاٹا پیش کیا، جسے دیکھ کر انٹرویو لینے والے کافی متاثر ہوئے اور ان کے دلوں میں اس کی عظمت کا سکہ بیٹھ گیا۔ اب زبانی سوالات اور علمی بحث ومباحثے کے ذریعے انٹرویو کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے سارے جوابات بالکل درست، انتہائی زوردار اور شاندار تھے۔ جس کی وجہ سے اس کی فہم و فراست اور اس کی ذہانت و فطانت سے کمیٹی والے اور بھی زیادہ متاثر ہو گئے۔ چنانچہ کمیٹی کے اجماعی فیصلے سے اس نے قرآن و حدیث اور فقہ تمام علوم میں پورے پورے نمبرات حاصل کیے۔ اب انٹرویو لینے والی کمیٹی اور وہاں موجود حاضرین کی طرف سے اس کامیاب انٹرویو پر اسے مبارکبادیاں ملنی شروع ہوگئیں۔ تاہم انٹرویو کے سوال و جواب کی گرماہٹ کے بعد اسے شدید پیاس کا احساس ہوا۔ اس نے پانی طلب کیا۔ کمیٹی کے ایک رکن نے کھڑکی پر رکھی ہوئی پانی کی صراحی کی طرف اشارہ کیا۔وہ کھڑکی کی طرف بڑھا۔ وہاں سے پانی پی کر واپس آگیا اور کمیٹی والوں سے پوچھنے لگا:جامعہ کے لئے مجھے کب سفر کرنا ہوگا؟ شیخ نے جواب دیا: آپ کو سفر کی کوئی ضرورت نہیں۔وہ بڑے حیرت بھرے انداز میں پوچھنے لگا: ایسا کیوں؟ کیا آپ نے ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے یہ خوشخبری نہیں سنائی کہ میں انٹرویو میں کامیاب ہوگیا ہوں اور مجھے تدریس کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے؟شیخ نے جواب دیا: جی ہاں! یقینا آپ علمی امتحان میں تو کامیاب ہوگئے، لیکن عملی امتحان میں فیل ہیں۔ اب اسے مزید حیرانی ہونے لگی۔ اس نے کہا لیکن میرا عملی امتحان تو نہیں لیا گیا ہے؟شیخ نے جواب دیا: آپ کا عملی امتحان بھی لیا گیا مگر آپ اس میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔اس نے دریافت کیا: وہ کب اور کیسے؟
شیخ نے جواب دیا: جب آپ پانی پینے کے لئے گئے … تو آپ نے صراحی کو اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑا… پھر آپ نے بسم اللہ نہیں کیا… اور آپ نے سنت کے مطابق پانی بیٹھ کر نہیں پیا… اور پانی کو تین بار میں نہیں پیا… اور پینے کے بعد آپ نے الحمدللہ نہیں کہا …. اس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ آپ اپنے علم پر عمل نہیں کرتے ہیں اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو کہتے ہیں مگر خود عمل نہیں کرتے۔ لہٰذا ہمیں ایسے استاد کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے بچوں کے لئے ایسے آئیڈیل اور مثالی اساتذہ چاہتے ہیں جن سے ہمارے طلبہ علم حاصل کرنے سے پہلے ان کے عمل کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بنائیں۔اس کے بعد جب بھی اس انٹرویو کے رزلٹ کے بارے میں اس سے پوچھا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ یہی جواب دیتا: “میں تمام شرعی علوم میں کامیاب ہو کر نکل گیا مگر ایک پانی کی صراحی میں جاکر گر گیا۔یہ حقیقت ہے ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو دین کی بہت ساری باتیں جانتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کرتے۔ll
عربی سے ترجمہ: محمد شاہد یار محمد سنابلی

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS