حیاتیاتی تنوع اور اسلامی نقطہ نظر

0

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
اس کرۂ ارض پر یا اسکے کسی ایک علاقہ میں مختلف اقسام کے جانداروں ( انسان۔ حیوان۔پرندے۔ کیڑے مکوڑے ) یا پھر چھوٹے یا بڑے نباتات کی موجودگی کو حیاتیاتی تنوع کا نام دیا جاتا ہے۔ اور جسے انگریزی میں BIOLOGICAL DIVERSITY یا مختصر طور پر BIO DIVERSITY کہا جاتا ہے۔ پچھلی پانچ دہائیوں سے ساری دنیا کے با شعور اور با خبر لوگوں میں عموماً اور حکومتوں میں خصوصاً یہ احساس جاگا ہے کی قدرت کی بنائی اس تنوع (Diversity) میں تبدیلی یا کمی انسانی زندگی کے لئے بڑی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا تو یہ بھی نظریہ ہے کہ موجودہ دور میں اس دنیا کو سب سے بڑا خطرہ جنگلات کے ختم ہونے اور پرند وں و چرند وں کے کم ہونے میں ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں قدرتی آفات( سیلاب۔آندھی۔طوفان) کا آنا لازمی ہے اور پھر انسانوں میں مہلک بیماریوں کا اضافہ یقینی ہے۔
بیسویں صدی کی حیرت انگیز سائنسی ترقی اور تجارتی ترقی نے جہاں ایک طرف سائنسی زندگی کے مختلف زمروں میں سہولتیں اور ا?سانیاں مہیا کرائی ہے۔ وہاں دوسری طرف بعض خطرناک مسائل بھی پیدا کردئے ہیں جن سے نمٹنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) سے پیدا ہونے والے مسائل اتنے پیچیدہ ہیں اور ان کے حل اتنے مشکل ہیں کہ پوری دنیا کی سرکاریں پریشانی میں پڑ گئی ہیں۔ساری دنیا میں دانشوران مشکل میں پڑ گئے ہیں اور عوام میں بہت بے چینی پیدا ہوچکی ہے۔ ان مشکلات میں سب سے بڑی مشکل اور کسی حد تک خطرناک بھی، ماحولیات کے توازن کا بگڑنا ہے۔ وہ توازن جو لاکھوں سال سے جاندار اور بے جان کے بیچ میں موجود رہا ہے۔ وہ توازن جو انسان اور جانوروں کے اور پودوں کے بیچ رہا ہے اور جس میں پودوں کا اہم رول شامل ہے۔ انسان، جنگل، پہاڑ ان پر جمے گلیشیر، ندیاں، میدان، سمندر اور ان کو گھیرے میں لئے ہوئے ماحول، یہ سب کے سب ایک خاص انداز اور تعداد میں ایک دوسرے کیلئے ضروری ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا کمزور پڑنا یا کم ہوجانا دوسرے کیلئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔اس تنوع کو بگاڑنا انسانیت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔یہ عمل مختلف امراض کو جنم دے سکتاہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دنیا کی کل آٹھ ملین اقسام کے جانداروں مین سے ایک ملین اقسام اگلے چند دہایوںمعدوم ہو جائیں گے۔بہر حال ہمیں سمجھ لینا چاہیے کرہ ارض کی حیاتیاتی تنوع انتہائی خطرہ میں ہے۔ یہ انسانیت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ضروری ہے کہ دنیا کے سارے ممالک حیاتیاتی تنوع کی تباہی کو کم کرنے کے لیے یو این او کے مقرر کردہ تمام اہداف( 1993 )کو پورا کرنے کے لئے جتن کرے۔
اسلامی نظریہ کے اعتبار سے اللہ سارے جہان پر محیط ہے۔ دنیا کی ہرشے اس کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ قرآنی ارشاد ہے کہ :ترجمہ۔ اور اللہ کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ تمام چیزوں کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے۔ (سورہ النساء۔126)
یہ آیت بہت صاف طور پر ظاہر کرتی ہے کہ اس کرہ ارض کا ماحول (Environment) اصل میں خدائی ماحول (Divine Environment) ہے۔ چنانچہ ماحولیات میں دخل اندازی اور بیجا تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جو خدائی نظام کی خلاف ورزی ہے۔ انسان اکثر اسی غفلت کی بنا پر اللہ کو ماحول سے الگ کرکے اپنے تصور میں لاتاہے گویا روحانیت اور مادیت دونوں جدا جدا ہیں، چنانچہ وہ ماحول (Environment) کا غلط استعمال شروع کرتے ہوئے اس میں موجودہ توازن کو نقصان پہنچاتاہے۔ ایسا کرنا قرآنی الفاظ میں زمین پر فساد بپا کرناہے۔ جس کے لئے یوں فرمایا گیا :
ترجمہ۔ اور مت چاہ فساد بیچ زمین کے، بیشک اللہ دوست نہیں رکھتا فساد کرنے والوں کو۔ (سورہ القصص۔ آیت ۷۷)
ماحولیات (Environment) کی حفاظت انسان کے لئے لازمی اس لئے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس سرزمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے، اس وعدہ کے ساتھ کہ وہ اس دنیا میں اللہ کی حکومت قائم کرے گا۔ فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :
ترجمہ۔ اور ضرور میں بناؤنگا ایک نائب۔ (سورہ البقرہ۔ آیت ۳۰)لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ جہاں ایک طرف اس سرزمین پر انسان کو اللہ کا نائب (خلیفہ) مقرر کیا گیا ہے وہاں دوسری جانب وہ اس کا غلام( عبداللہ) بھی ہے۔ گویا کہ وہ اللہ کی جانب سے حکومت تو کرسکتاہے لیکن نظام قدرت میں تبدیلی کا حق نہیں رکھتا ہے۔ وہ اللہ کی پیدہ کردہ نعمتوں سے مستفید تو ہوسکتاہے لیکن ان نعمتوں کے توازن کو بگاڑنے کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔ اللہ نے ’’انسان کو بہترین انداز (توازن) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔‘‘ (سورہ التین۔ آیت۴) اور وہ (انسان) جس طرف منھ کرے گا ادھر ہی اللہ کا رخ پائے گا۔ (سورہ البقرہ۔ آیت ۱۱۵)۔ ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ زمین وآسمان کے درمیان کی ہر شئے انسان کے لئے مسخر تو کردی گئی ہے۔ اس کی بابت فکر کرنے اور اس کے موزوں استعمال کی اجازت بھی دی گئی ہے لیکن اس کے توازن میں تبدیلی نہ کرنے کی تنبیہ بھی دے دی گئی ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے حیاتیاتی تنوع کے توازن کو بگاڑنے میں انسان کا حصہ دار ہونا ایک گناہ ہے اور فطرت سے ٹکرانے کے برابر ہے۔ اس اس زمین پر انسان کی حیثیت ایک خلیفہ کی ہے جس کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے یہاں کے ماحولیات کا تحفظ کرے اور جس کا حکم سورہ انعام میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو پورا اختیار دیتا ہے کہ وہ اس سرزمین کی ہر چیز کا استعمال ایک خاص انداز سے کرے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان ساری مخلوق میں افضل ہے، لیکن اس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسری مخلوق کے اوپر کوئی ظلم وزیاتی کرے۔نباتات اور حیوانات کے تحفظ کو ایک دینی فریضہ بتانادراصل ایک اسلامی فکر ہے۔ سورہ انعام (ا?یت 38 ) میں ارشاد ہے۔۔’’اور زمین مین چلنے والے جانور اور دو پروں پر اڑنے والے (پرندے) تمہاری طرح جماعتیں (خاندان) ہیں‘‘۔ حد تو یہ ہے کہ قرآنی ارشادات کی روشنی میںپانی کا غلط استعمال بھی منع کیا گیا ہے۔ سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے کہ
’’کھائو اور پیو لیکن اسراف سے بچو‘‘
قرآن میں متعدد آیات ہیں جن میں حیوانی اور نباتاتی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔حیرت انگیزدنیاوی تنوع کی خوبصورتی کو مختلف آیات میں بیان فرمایا گیا ہے، انسان کو زمین کے ماحول میں تبدیلی کا نہ تو حق ہے اور نہ ہی اجازت۔ قرآن کی ایک آیت میں بہت واضح طور پر ایسا کرنے کی سزا بتائی گئی ہے، سورہ روم میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’زمین اور سمندر میں انسان کے ہاتھوں جو کچھ بھی غلط ہوتا ہے اس کا نقصان اس کو اٹھانا پڑتا ہے‘‘
یہ آیت ایک تنبیہ ہے ان جوگوں کے لیئے جو اس سرزمین کے تنوع کو بدلنا چاہتے ہیں، اسی طرح سورہ البقرہ میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک ایسے لوگ جو جانور یا پودوں کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ در اصل اس سرزمین پر فساد بپا کرتے ہیں اور جس کی سزا متعین ہے۔ قرآن کے ان احکامات کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیاتیاتی زندگی کو محفوظ رکھنے کیلئے بہت سے احکامات صادر فرمائے ہیں ان میں سے کچھ ذیل میں دئے جاتے ہیں :۔
’’یہ دنیا سبزہ زار ہے اور اللہ نے تم کو اس پر خلیفہ مقرر کیا ہے یہ دیکھنے کیلئے کہ تم کیسا عمل کرتے ہو‘‘۔ (صحیح مسلم)
جو مسلمان کوئی درخت لگائے اور اس میں(پھل یا چارہ) انسان یا جانور کھائے تو بونے والے کے لئے وہ تا قیامت باعث ثواب (صدقہ) ہو گا ( راوی۔ حضرت جابر بن عبدللہ۔ مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
:’’تمام جاندار اللہ کی ایک مخلوق ہیں اور ان میں سے اللہ سب سے زیادہ ان کو پسند کرتا ہے جو ان مخلوقات کو فائدہ پہنچاتے ہیں‘‘۔ (بخاری)اللہ چاہتا ہے کہ انسان ساری کائنات میں ہرجاندار کے ساتھ اچھا برتائو رکھے ان میں سے کسی پر ظلم وزیادتی خواہ وہ جانور ہو یا پرندہ انسان کو جہنم میں پھینکنے کیلئے کافی ہوگی۔معصوم جاندار کو تکلیف پہنچانا ایک بڑاگناہ ہے۔ اللہ کے رسول نے یہ فرمایا کہ
’’ جانور کے ساتھ اچھا برتائو بالکل ویسا ہی ہے جیسے انسان کے ساتھ اچھا برتائو اور جانور پر ظلم بھی اتنا ہی برا ہے جتنا انسان پر ظلم ‘‘۔ (بخاری)رسول اللہ نے ایک موقعہ پر اپنے صحابیوں سے فرمایا کہ ’’ایک خراب کردار کی عورت صرف اس لئے بخش دی گئی کیونکہ ایک پیاسے کتے کو اس نیپانی پلادیا تھا‘‘
سلامی نظریہ کے اعتبار سے اللہ سارے جہان پر محیط ہے۔ دنیا کی ہرشے اس کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ قرآنی ارشاد ہے کہ :ترجمہ۔ اور اللہ کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ تمام چیزوں کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے۔ (سورہ النساء۔ ۱۲۶)
یہ آیت بہت صاف طور پر ظاہر کرتی ہے کہ اس کرہ ارض کا ماحول (Environment) اصل میں خدائی ماحول (Divine Environment) ہے۔ چنانچہ ماحولیات میں دخل اندازی اور بیجا تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جو خدائی نظام کی خلاف ورزی ہے۔ انسان اکثر اسی غفلت کی بنا پر اللہ کو ماحول سے الگ کرکے اپنے تصور میں لاتاہے گویا روحانیت اور مادیت دونوں جدا جدا ہیں، چنانچہ وہ ماحول (Environment) کا غلط استعمال شروع کرتے ہوئے اس میں موجودہ توازن کو نقصان پہنچاتاہے۔ ایسا کرنا قرآنی الفاظ میں زمین پر فساد بپا کرناہے۔ جس کے لئے یوں فرمایا گیا :ترجمہ۔ اور مت چاہ فساد بیچ زمین کے، بیشک اللہ دوست نہیں رکھتا فساد کرنے والوں کو۔ (سورہ القصص۔ آیت ۷۷) بہرحال زمین پر نباتات اور حیوانات کے تحفظ کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔اس ذمہ داری کی جانب بہت صاف اشارے قرآن اور حدیث میں موجود ہیں، جن کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مشہور یورپ کے مورخ Montgomery Watt نے تحریر کیا ہے کہ جانوروں کے لئے رسول اللہ کا رحم حیرت انگیز تھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS